"BGC" (space) message & send to 7575

عمران خان کو مبارکباد

اس ملک کا المیہ یہ ہے کہ یہاں ایسے سیاستدانوں کی بہتات ہے جنہیں اپنے تجربے کی بنیاد پر ایمان کی حد تک یقین ہے کہ تمام لوگوں کو ہمیشہ کے لیے بے وقوف بنایا جا سکتا ہے۔(امریکی دانشور ، فرینکلن پی ایڈمز )
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی عساکر پاکستان کے سربراہ جنرل قمر باجوہ سے ملاقات کی توجیہہ یہ بیان کی جا رہی ہے کہ کپتان نے انہیں آرمی چیف بننے پر مبارکباد پیش کی اور پھر نہایت مایوسی کے عالم میں اپنے چاہنے والوں کو خبر دی کہ کسی خوش فہمی میں نہ رہنا، افواج پاکستان کے سپہ سالار جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ بھد اڑانے والے سیاسی مخالفین نے موقع غنیمت جان کر عمران خان کو 1992ء کا ورلڈ کپ جیتنے پر مبارکباد دینا شروع کر دی۔حالانکہ ماضی کو کریدنے کی کیا ضرورت ہے ،کپتان نے حال ہی میں کئی ایسے محیر العقول کارنامے سرانجام دیئے ہیں جن پر انہیں مبارکباد دی جا سکتی ہے۔مثال کے طور پر خیبر پختونخوا میںبلین ٹری سونامی پراجیکٹ مکمل ہونے کو ہے۔اب تک 80کروڑ درخت لگائے جا چکے ہیں ۔خیبر پختونخوا حکومت کی جانفشانی کا عالم ملاحظہ کیجئے کہ اگر دو سال کے دوران معمول کی تعطیل یا ہنگامی چھٹی کے بغیر بلا ناغہ کام کیا جائے ،ہر سیکنڈ میں 12،ہر ایک منٹ میں 761،ہر گھنٹے میں 45662، اور یومیہ 1095890درخت لگائے جائیں تو جا کر دوسال کے 730دنوں میں 80کروڑ درخت لگانے کا ناممکن ترین ہدف پورا ہوتا ہے۔افواج پاکستان میں بطور کمیشنڈ آفیسر بھرتی ہونے کے لیے جب آئی ایس ایس بی میں انٹرویو ہوتا ہے تو امیدواروں کی خود اعتمادی چیک کرنے کے لیے غیر متوقع سوالات پوچھے جاتے ہیں۔ایسے ہی ایک انٹرویو کے دوران امیدوار سے پوچھا گیا کہ تمہارے سر پر کتنے بال ہیں ۔اس نے ترنت جواب دیا''80کروڑ‘‘۔انٹرویو لینے والے آفیسر نے کہا تم جھوٹ بول رہے ہو ۔اس امیدوار نے پریشان ہونے کے بجائے چیلنج کر دیاکہ آپ کو میری بات پر یقین نہیں تو خود ہی گنتی کرکے بتا دیں میرے سر پر کتنے بال ہیں۔اگر کوئی ناہنجار عمران خان کے بلین ٹری سونامی پر شکوک و شبہات کا اظہارکرے تو اسے ایسی ہی خود اعتمادی کے ساتھ گنتی کا چیلنج دیکر چپ کرایا جا سکتا ہے۔
عمران خان ایک اور مبارکباد کے بھی مستحق ہیں اور وہ یہ ہے کہ پشاور میں میٹرو بس منصوبے کا پی سی ون تیار ہو چکا ہے اور بہت جلد اس منصوبے پر کام شروع ہو جائے گا۔جب لاہور میں میٹروبس منصوبے کا آغاز ہوا تو عمران خان نے اس پر ''جنگلا بس‘‘ کی پھبتی کسی اور طفلان انقلاب سوشل میڈیا پر یہ سوالات اٹھا کر اس منصوبے کا مذاق اڑاتے رہے کہ کیا اس بس سے غریبوں کو روزگار ملے گا ؟کیا اس بس سے بیماروں کا مفت علاج ہو گا ؟کیا اس بس سے بھوکوں کو روٹی میسر آئے گی؟اس مخالفت کے برعکس خیبر پختونخوا کی حکومت پہلے دن سے ہی یہ کوشش کر رہی تھی کہ کوئی ڈٖونر میسر آ جائے تو پشاور میں میٹرو بس چلائی جائے کیونکہ صوبائی دارالحکومت میں پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے باعث آمد و رفت کا مسئلہ بہت سنگین ہے۔جب یہ بیل منڈھے چڑھتی نظر آئی اور میڈیا کو بھنک پڑی تو یہ تاویل پیش کی گئی کہ پنجاب حکومت نے تو کمیشن کھایا اور قومی خزانے کو چونا لگایا مگر ہم بہت کم پیسوں میں میٹرو بس چلائیں گے۔ابتدائی طور پر اس منصوبے کا تخمینہ 14ارب روپے بتایا گیا۔لگاتار کئی ماہ تحریک انصاف کی جانب سے تقابلی جائزہ پیش کیا جاتا رہا کہ لاہور اور راولپنڈی کے منصوبے کی فی کلومیٹر لاگت کتنی ہے اور پشاور میٹرو منصوبے میں شفافیت کے باعث اس کا فی کلومیٹر خرچ کتنا کم ہے۔تاہم جب ماہرین سے مشاورت کی گئی تو اس منصوبے کی لاگت 34ارب روپے تک جا پہنچی۔اور اب جب پی سی ون بنا اور اس منصوبے کی باقاعدہ منظوری دی گئی ہے تو اس کا بجٹ 57ارب روپے تک جا پہنچا ہے یعنی لاہور میٹرو سے دوگنا زیادہ ۔اب یہ بتانے کی تو ضرورت نہیں کہ پشاور میٹرو پراجیکٹ لاہور اور ملتان ہی نہیں راولپنڈی اور اسلام آباد کو ملانے والے بس منصوبے سے بھی کہیں زیادہ مہنگا منصوبہ ہے۔اب کہا جا رہا ہے کہ پشاور میٹرو منصوبہ سرکاری خزانے پر بوجھ نہیں ہوگا۔اس میں پارکنگ پلازہ سے آمدن ہو گی اور حکومت کو سبسڈی نہیں دیناپڑے گی۔گویا یہ بات پہلے ہی بتا دی گئی ہے کہ پارکنگ مفت نہیں ہو گی۔اب کون عقلمند ہو گا جو پارکنگ فیس بھی ادا کرے اور سبسڈی کے بغیر مہنگا سفر بھی کرے۔
حقیقت تویہ ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت نے ہر اس منصوبے کی نقل مارنے کی کوشش کی جو پنجاب میں شروع ہوا۔دانش اسکول سسٹم کی طرز پر خیبر پختونخوا میں 200 اسمارٹ اسکول بنانے کا فیصلہ ہوا۔پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر کرک،ہری پور، چارسدہ، ہنگو اور بٹگرام میں ماڈل اسکول بنانے کے لیے ایک ارب روپے بجٹ میں مختص کیئے گئے ۔خیبر پختونخواحکومت کے فنانس ڈویژن اور پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈویژن کی ویب سائٹ پر آج بھی یہ اعداد و شمار دیکھے جا سکتے ہیں ۔لیکن جب نااہلی کے سبب یہ منصوبہ مکمل نہیں ہو پایا تو مختص فنڈز دیگر اسکولز کو منتقل کر دیئے گئے۔تحریک انصاف نے پہلے چند برس تو یہ کہتے ہوئے ضائع کر دیئے کہ سڑکیں اور پل بنانے یا میٹرو چلانے سے ملک نہیں بنتے،ہم نے تبدیلی کے نام پر ووٹ لیے ہیں تو ہم نظام بدلیں گے۔پھر کہا گیا کہ صحت و تعلیم ہماری اولین ترجیح ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ ان دونوں شعبوں میں کیا کارہائے نمایاں سرانجام دیئے گئے؟کیا این ٹی ایس کے ذریعے نئے اساتذہ کی بھرتیاں یا ڈاکٹروں کی تعیناتیاں کرنے کا نام ہی انقلاب ہے؟اگر یہ دونوں شعبہ جات تحریک انصاف کی ترجیح تھے تو پورے صوبے میں کتنے نئے اسپتال اور کتنی نئی یونیورسٹیاں بنائی گئیں؟جواب ہے زیرو۔پشاور کے علاقے حیات آباد میں چلڈرن ہاسپٹل کا قیام پختونوں کا پرانا خواب ہے تاکہ موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا بچوں کو علاج کے لیے اسلام آباد یا لاہور نہ لے جانا پڑے۔پرویز مشرف کے دور میں جب اے این پی برسراقتدار تھی ،چلڈرن ہاسپٹل بنانے کے منصوبے پر کام شروع ہوا۔2013ء میں اس منصوبے نے مکمل ہونا تھا مگر اس دوران حکومت بدل گئی ۔2016ء نے وفاقی حکومت نے اس منصوبے کے لیئے 80ملین روپے کے فنڈز جاری کر دیئے اور چلڈرن ہاسپٹل کے افتتاح کے لیے جون 2017ء کی تاریخ مقرر کی گئی لیکن صوبائی حکومت فنڈز کی دستیابی کے باوجود اس منصوبے کو شروع نہیں کر پائی۔ 
اب جب انتخابات سر پر آئے تو پی ٹی آئی کو خیال آیا کہ کوئی بڑا ترقیاتی منصوبہ شروع کیا جائے جس کی بنیاد پر ووٹ لیے جا سکیں لیکن اب بہت دیر ہو چکی ہے۔پشاور میٹرو پراجیکٹ ستمبر2017ء میں شروع ہو گا اور ستمبر2018میں آزمائشی سروس کے بعد اکتوبر 2018ء میں مکمل ہوگا۔یعنی انتخابات میں ایک مرتبہ پھر لوگوں کو بیوقوف بنانا ہو گا۔اس پر مبارکباد تو بنتی ہے خان صاحب کے لیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں