معاشرے ظلم و ناانصافی سے تباہ نہیں ہوتے، ان کا انکار کرنے کے بجائے اصرار کرنے سے برباد ہوتے ہیں۔ (م،ب،غ)
World suffers a lot. Not because of the violence of the bad people .But because of the silence of the good people. (Napoleon)
مردان یونیورسٹی میں شرارِ بولہبی نے جو آگ لگائی ہے اگر کسی انسان کو اس کی حدت محسوس نہیں ہو رہی تو وہ کسی مغالطے میں ہے۔ یہ وہ آگ ہے جس کی زد میں کبھی کوئی بھی آ سکتا ہے۔ یہ وہ پھندا ہے جو کبھی بھی کسی کے گلے میں فٹ کیا جا سکتا ہے۔ یہ جہلا کا وہ لشکر ہے جو پورس کے ہاتھیوں کی مانند کسی کو بھی روند سکتا ہے۔ نہ ایف آئی آر کا تردد‘ نہ عدالت کا تکلف، نہ دلائل کی ضرورت‘ نہ شواہد کا جھنجھٹ، بس ایک الزام جس پر پُرتشدد ہجوم کسی کو بھی ٹھکانے لگا سکتا ہے۔ کاش کسی نے بتایا ہوتا کہ یہ عشق نہیں فسق ہے، یہ جہاد نہیں فساد ہے، یہ انصاف نہیں ظلم ہے۔ اگر ہمارے معاشرے کے کچھ طبقوں نے مغالطوں کی آبیاری کرکے لوگوں کو تشدد پر نہ اکسایا ہوتا تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ اب بھی جو اصحاب جوش کے گھوڑے پر سوار ہیں اور اس ظلم و ناانصافی کا جواز ڈھونڈتے پھرتے ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ یہ سلسلہ چل نکلا تو پھر سب کو سب سے خطرہ ہو گا‘ اور زندگی کا انحصار محض اس بات پر ہو گا کہ کسے وار کرنے کا موقع پہلے میسر آتا ہے۔ آج جو علما مہر بلب ہیں، اس دو دھاری تلوار کی زد میں وہ بھی آ سکتے ہیں۔ ماضی میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔
مردان یونیورسٹی کے پُرتشدد ہجوم نے جو قیامت ڈھائی، وہ تو تکلیف دہ ہے ہی مگر اس سے کہیں زیادہ اندوہناک وہ ہمدردانہ تاثرات ہیں جو ''سوشل میڈیائی مجاہدین‘‘ ان کے حق میں جاری کر رہے ہیں۔ غیر مشروط طور پر اس فعل کی حمایت کرنے والوں کی تعداد تو بہت کم ہے مگر بظاہر معقول محسوس ہونے والے افراد بھی 'اگر مگر‘ کا سہارا لیے بغیر اس فعل کی مذمت نہیں کر پا رہے۔ ہمارا نظامِ انصاف ناقص اور کمزور ہے۔ آج تک کسی کو بھی توہین کے الزامات کے تحت سزا نہیں ہوئی، لوگ مایوس ہو کر قانون اپنے ہاتھ میں لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ میرے خیال میں اگر بلاگرز کا معاملہ اپنے انجام کو پہنچا دیا جاتا تو یہ نوبت نہ آتی۔ افراد کا قانون ہاتھ میں لینا تو مناسب نہیں مگر حرمت رسولﷺ پر کوئی سمجھوتہ بھی تو نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ہیں وہ الفاظ جو مردان یونیورسٹی میں پیش آنے والے واقعہ کی مذمت کے طور پر استعمال کیے جا رہے ہیں۔ اس موقع پر بے ساختہ یہ شعر یاد آتا ہے:؎
رحمتِ سید لولاک پہ ہے کامل ایماں
امتِ سید لولاک سے خوف آتا ہے
تعصب کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو معلوم پڑے کہ عدالتی نقص کیا صرف توہین کے معاملے میں سامنے آتا ہے؟ کتنے ہی قیدی سالہا سال سے انصاف کے منتظر ہیں، کئی قاتل چھوٹ جاتے ہیں، کئی بے گناہ پھانسی کے پھندے پر جھول جاتے ہیں، جب کوئی چور پکڑا جاتا ہے تو اس بات کا خدشہ موجود ہوتا ہے کہ پولیس اسے رشوت لے کر چھوڑ دے‘ یا پھر وہ عدالت میں کوئی اچھا وکیل کرکے باعزت بری ہو جائے لیکن ہم اسے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحویل میں ہی دیتے ہیں اور اس وقت کسی کو خیال نہیں آتا کہ قانون اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ بلاگرز کے حوالے سے خواہ مخواہ گرد اڑائی جا رہی ہے۔ وہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں اسی جج کی عدالت سے بے گناہ ثابت ہوئے ہیں جو خود بہت بڑے عاشق رسولﷺ ہیں۔ آج تک اس نوعیت کے کتنے ہی الزامات غلط ثابت ہوئے مگر تہمت لگانے والے کسی شخص کو سزا ہوئی کیا؟ تو کیا خیال ہے ایسے الزامات لگا کر جن پر زندگی کی راہیں مسدود کر دی گئیں، کیا وہ بھی پُرتشدد ہجوم بنا کر انتقام لینے لگیں؟ الزام جس قدر سنگین ہوتا ہے، اس کی سزا جتنی سخت ہوتی ہے، شواہد اور ثبوتوں کا معیار بھی اتنا ہی کڑا رکھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اسلام نے اگر بدکار پر حد نافذ کرنے کے لیے رجم جیسی انتہائی سزا تجویز کی ہے تو اس کے لیے شہادتوں کا معیار بھی ایسا ہے کہ ملزم اقبال جرم کرکے خود ہی قانون کی عدالت میں پیش ہو جائے تو الگ بات‘ ورنہ یہ الزام آج تک نہ کبھی کسی پر ثابت ہوا ہے اور نہ کبھی کیا جا سکتا ہے، ہاں البتہ جھوٹے الزامات پر قذف کی سزائیں دینے کی مثالیں موجود ہیں اور ایسے واقعات بھی ملتے ہیں کی اعترافی بیان کی بنیاد پر سزا کا اطلاق ہونے کے بعد بھی مجرم اپنی بات سے مکر گیا تو اسے شک کا فائدہ دے کر چھوڑ دینے کو کہا گیا۔
اس جہل کو فروغ دینے میں جہاں روایتی شرپسند کٹھ ملائوں اور ٹی وی چینلز پر بیٹھے فتویٰ بازوں کا ہاتھ ہے وہاں سوشل میڈیا پر پنجے جھاڑ کر بیٹھے نیم ملائوں کا بھی بہت بڑا اور مرکزی کردار ہے۔ سوشل میڈیا کا مقصد تو یہ تھا کہ معاشرے میں مکالمہ ہو، مثبت انداز میں بحث و تمحیص ہو لیکن ہمارے ہاں تو بات کرنے پر پابندی ہے، سوچنے پر قدغن ہے، سوال اٹھانا ہی جرم ہے۔ ہمارے ہاں تو مذہب کی تلوار سے، عقیدے کے نیزے سے اور مسلک کے چاقو سے ہر آواز دبانے کا چلن چل نکلا ہے۔ گھٹن اور جبر کی اس فضا میں کبھی احمد ندیم قاسمی کی طرف دھیان جاتا ہے تو کبھی احمد فراز کا خیال آتا ہے اور بندہ سوچتا ہے بھلا زمانہ تھا،خوش قسمت لوگ تھے، سوشل میڈیا کا زمانہ شروع ہونے سے پہلے ہی دنیا سے رخصت ہو گئے‘ ورنہ کسی پُرتشدد ہجوم کے فوری انصاف کا شکار ہو گئے ہوتے۔ احمد فراز کی ایک نظم کے چند اشعار کس قدر صادق آتے ہیں ہمارے حالات پر:
مت قتل کرو آوازوں کو
تم اپنے عقیدے کے نیزے
ہر دل میں اتارے جاتے ہو
ہم لوگ محبت والے ہیں
تم خنجر کیوں لہراتے ہو
اس شہر میں نغمے بہنے دو
بستی میں ہمیں بھی رہنے دو
اس شہر میں پھر کیا دیکھو گے
جب حرف یہاں مر جائے گا
جب تیغ پہ لے کٹ جائے گی
جب شعر سفر کر جائے گا
جب کال پڑا آوازوں کا
جب شہر کھنڈر بن جائے گا
پھر کس پہ سنگ اٹھائو گے
اپنے چہرے آئینوں میں
جب دیکھو گے ڈر جائو گے