ہر بڑی کامیابی کے پیچھے کوئی بڑا جرم ہوتا ہے (فرانسیسی ناول نگار بالزاک)
جج، قانون کے اس طالب علم کو کہتے ہیں جو خود ہی اپنا ممتحن ہوتا ہے (امریکی مصنف ایچ ایل میکن)
پانامہ لیکس پر سپریم کورٹ کے پانچ رُکنی بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد کی اکثریتی فیصلے کے برعکس رائے یہ ہے کہ وزیر اعظم صادق و امین نہیں رہے۔ یہ محض اتفاق ہے کہ دونوں جج صاحبان سپریم کورٹ کے اس سات رُکنی بنچ کا بھی حصہ تھے جس نے یوسف رضا گیلانی کو توہینِ عدالت از خود نوٹس کیس میں مجرم قرار دیتے ہوئے سزا سنائی۔ اختلافی نوٹ تو عدالتی تاریخ میں اچنبھے کی بات نہیں مگر جسٹس آصف سعید کھوسہ اپنے فیصلوں میں ادبی حوالے دینے کی شہرت رکھتے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی والے فیصلے میں انہوں نے خلیل جبران کی نظم نقل کی تھی اور اس مرتبہ بھی انہوں نے بات کا آغاز اطالوی نژاد امریکی مصنف ماریو پوزو کے شہرہ آفاق ناول ''دا گاڈ فادر‘‘ سے کیا ہے۔ اس ناول پر 1972ء میں فلم بھی بنی جو بہت مقبول ہوئی اور اس نے تین آسکر ایوارڈز حاصل کیے۔ یہ کہانی ہے ایک مافیا کے ڈان کی جس کا پورا خاندان دھندے میں ملوث ہوتا ہے اور چونکہ انہیں بااثر شخصیات کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے اس لیے پورا شہر ان کی مُٹھی میں بند ہوتا ہے اور کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے نواز شریف کو ''گاڈ فادر‘‘ سے تشبیہ دیتے ہوئے فرانسیسی ناول نگار بالزاک کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ ''عظیم کامیابی کا وہ راز جس کا آپ جواب نہ دے سکیں، ایک ایسا جرم ہے جسے کبھی پکڑا نہ جا سکا کیونکہ اس کا ارتکاب نہایت سلیقے سے کیا گیا تھا۔‘‘
ہمارے معاشرے میں ہر کامیاب شخص پر تنقید کی جاتی ہے۔ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والے لوگ الزامات لگا کر دل کی بھڑاس نکالتے ہیں۔ دفتر میں کوئی خاتون ترقی کر رہی ہو تو اس کے کردار پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں۔ کسی متوسط گھرانے کا ہونہار نوجوان اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر کسی اہم عہدے پر پہنچ جائے تو رقابت اور حسد میں مبتلا عزیز و اقارب یہ کہ کر تمسخر اڑاتے ہیں کہ اس کا باپ ایک عام سا وکیل تھا۔ ہر کامیاب بزنس مین کے بارے میں لوگوں کا یہی خیال ہوتا ہے کہ اس نے ناجائز ذرائع سے دولت کمائی ہے ورنہ جائز اور حلال آمدن سے تو دو وقت کی روٹی پوری نہیں ہوتی۔ اس طرح کی عامیانہ گفتگو اور عمومی نوعیت کے بیانات کسی سیاسی مباحثے کا حصہ تو ہو سکتے ہیں لیکن ملک کے سنجیدہ حلقوں کے لیے نہ تو یہ الفاظ مناسب ہیں اور نہ ہی انداز موزوں ہے۔ اگر ہر کامیاب انسان کو یونہی منفی انداز میں دیکھنے کا رجحان چل نکلے تو کوئی شخص بھی اعتراض کر سکتا ہے اور کئی چیف سیکرٹری‘ کئی چیف جسٹس اور کئی بڑے بڑے عہدے دار جو عام مڈل کلاس لوگوں کی ہی اولاد تھے‘ اور جو محنت سے ترقی کرکے اعلیٰ عہدوں پر پہنچے‘ بھی اس کی زد میں آ سکتے ہیں۔ بلاشبہ یہ خوش بختی اور کامیابی ہے اور مجھے یقین ہے کہ اس کامیابی کے پیچھے جرم کی کوئی داستان نہیں تو پھر ایک ایسا عمومی بیان کیسے دیا جا سکتا ہے کہ کامیابی کی ہر داستاں کے پیچھے جرم کی کوئی واردات ہوتی ہے؟ ''گاڈ فادر‘‘ کے مصنف ماریو پوزو‘ جن کا حوالہ اختلافی نوٹ کا حصہ ہے‘ نے ہی قانون کے پیشے سے منسلک افراد کے بارے میں کہا ہے ''ماسک پہنے ہزاروں مسلح ڈاکو اتنی رقم نہیں لوٹ سکتے جتنی بریف کیس تھامے وکیل لوٹ سکتا ہے‘‘۔ اب بھلا ایسی نامناسب بات بطور حوالہ دی جا سکتی ہے اور وہ بھی ایک قانونی دستاویز میں؟ ہرگز نہیں۔
معزز جج صاحبان نے پانامہ لیکس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اخباری تراشوں کی کیا وقعت ہے، ان پر تو پکوڑے بکتے ہیں۔ لیکن حیرت انگیز طور پر عدالتی فیصلے کے ابتدائی 18 صفحات انہیں اخباری تراشوں پر ضائع کر دیے گئے۔ جس طرح اس فیصلے میں تکرار اور اصرار کے ساتھ ٹی وی انٹرویوز اور سیاسی بیانات کے تضادات کو بنیاد بنایا گیا ہے اگر اسے نظیر سمجھ لیا جائے تو پھر عدالتوں میں گواہوں، جرح اور شواہد کی حاجت نہ رہے۔ جج صاحبان رات کو ٹی وی چینلز پر لگنے والی عدالتوں کی کارروائی ملاحظہ کریں اور صبح آ کر صادق و امین کا فیصلہ سنا دیں۔
عدالتی فیصلے کے صفحہ نمبر63 اور 64 پر عدالتی دائرہ کار کی وضاحت کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ مدعا علیہ نمبر ایک جو ملک کا چیف ایگزیکٹو ہونے کے ناتے ان اداروں کے سربراہان کا تقرر کرتا ہے جو پانامہ سے متعلق تفتیش کے ذمہ دار تھے‘ حتیٰ کہ قومی اسمبلی کا سپیکر جو ریفرنس بھیج سکتا ہے، اس کا تعلق بھی ایک سیاسی جماعت سے ہے اور وہ وزیر اعظم کا نامزد کردہ ہے۔ یہ درخواستیں اس تناظر میں سماعت کے لیے منظور کی گئیں کہ بدقسمتی سے نیب، ایف آئی اے، سٹیٹ بینک، ایف بی آر، سکیورٹیز ایکچینج کمیشن آف پاکستان اور سپیکر قومی اسمبلی سمیت تمام ادارے ناکام ہو چکے ہیں۔ آرٹیکل 225 کے تحت انتخابی ٹریبونل کے پاس انتخابی عذر داری فائل کرنے کا راستہ بھی بند ہو چکا ہے‘ کیونکہ سپیکر قومی اسمبلی 22 ارکان اسمبلی کے خلاف درخواستیں مسترد کر چکے ہیں۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ سپیکر کسی کا نامزد کردہ نہیں ہوتا بلکہ اسے قومی اسمبلی کے ارکان منتخب کرتے ہیں اور اس کا یہ استحقاق ہے کہ وہ کسی رُکن کے خلاف ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیجے یا پھر مسترد کر دے۔ اگر یہ اختیار عدلیہ اپنے ہاتھ میں لینا چاہتی ہے تو اس پر بھی فیصلہ دے دیا جائے۔ اسی طرح جن اداروں کے سربراہان سے متعلق سوال اٹھایا گیا، ان کا انتخاب کرنا بھی وزیر اعظم کا قانونی اختیار ہے اور یہ ہرگز ضروری نہیں کہ سب وزیر اعظم کے درباری، وفادار اور اطاعت گزار ہوں۔ بدقسمتی سے عدالتی فیصلے میں جابجا خبطِ عظمت اور غرور صالحیت کی بو آتی ہے اور یہ تاثر ملتا ہے کہ باقی سب ادارے تو بدعنوان اور پورا معاشرہ بے ایمان ہے بس یہ ملک عدلیہ کے سہارے چل رہا ہے۔
پانامہ لیکس کی تفتیش کے لیے عدالتی کمیشن کے بجائے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنانے کے فیصلے کی بھی کوئی حکمت ہو گی‘ لیکن اس میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمائندے شامل کرنے کی منطق ناقابل فہم ہے۔ اگر کسی جج کے خلاف جوڈیشل کونسل میں کوئی معاملہ زیر سماعت ہو تو تفتیش کرنے والوں میں ایف آئی اے کا کوئی نمائندہ شامل کرنا کس قدر مضحکہ خیز لگتا ہے؟ کسی فوجی افسر کا کورٹ مارشل ہو رہا ہو تو سمری کورٹ میں محکمہ پولیس کے کسی ایس پی کو بھی بٹھا دیا جائے تو کیسی احمقانہ بات محسوس ہوتی ہے؟ لیکن اس ملک کے منتخب وزیر اعظم سے تفتیش کرنے کے لیے خفیہ اداروں کے نمائندے جے آئی ٹی میں شامل کرنے پرکسی کو تعجب نہیں ہو رہا تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ سیاست کے سینے میں واقعی دل نہیں ہوتا۔ طرفہ تماشا دیکھئے کہ سیاست کی رسوائی اور جگ ہنسائی ہو رہی ہے مگر اہل سیاست مٹھائیاں بانٹتے پھرتے ہیں۔
ہر کامیاب بزنس مین کے بارے میں لوگوں کا یہی
خیال ہوتا ہے کہ اس نے ناجائز ذرائع سے دولت
کمائی ہے ورنہ جائز اور حلال آمدن سے تو دو وقت کی
روٹی پوری نہیں ہوتی۔ اس طرح کی عامیانہ گفتگو اور
عمومی نوعیت کے بیانات کسی سیاسی مباحثے کا حصہ تو
ہو سکتے ہیں لیکن ملک کے سنجیدہ حلقوں کے لیے نہ تو
یہ الفاظ مناسب ہیں اور نہ ہی انداز موزوں ہے