"BGC" (space) message & send to 7575

کاش بجلی چیونگم ہوتی!

دنیا بھر کے سیاستدان ایک جیسے ہوتے ہیں، یہ وہاں بھی پُل بنانے کا وعدہ کر لیتے ہیں جہاں دریا ہی نہیں ہوتا۔ (روسی سیاسی مدبر، نکیتا خورشیو جنہوں نے سرد جنگ کے دوران اپنے ملک کی قیادت کی)
جب سے تحریک انصاف خیبر پختونخوا میں برسر اقتدار آئی ہے، ناقابلِ یقین قسم کے واقعات پیش آ رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ مختصر مدت کے دوران ایک ارب درخت لگانے کا محیرالعقول کارنامہ سامنے آیا اور اب سوشل میڈیا پر یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ صوبائی حکومت نے عمران خان کے وعدے کے مطابق خیبر پختونخوا میں 350 چھوٹے ڈیم بنانے کا ہدف حاصل کر لیا ہے۔ عمران خان نے چند برس قبل سوات کے تاریخی جلسے میں یہ وعدہ کیا تھا کہ وفاقی حکومت سے بجلی مانگنے کے بجائے ہم 350 چھوٹے ڈیم بنا کر صوبے کو توانائی کے ضمن میں خود کفیل بنا دیں گے۔ میں نے محدب عدسہ لے کر یہ چھوٹے ڈیم ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی لیکن کوئی سراغ نہ ملا‘ تو خیبر پختونخوا کے ایری گیشن ڈیپارٹمنٹ کی ویب سائٹ سے رہنمائی لینے کا سوچا۔ اس ویب سائٹ پر پروجیکٹس کے سیکشن میں جائیں تو سمال ڈیمز کا سب سیکشن ہے جس میں اب تک بننے والے تمام چھوٹے ڈیمز کی تفصیل موجود ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صوبے میں اس نوعیت کا آخری منصوبہ ضلع بنوں کا ''بارگنتو ڈیم‘‘ ہے جو 2009ء میں مکمل ہوا۔ مزید جستجو پر انکشاف ہوا کہ جن منصوبوں کو چھوٹے ڈیم کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے وہ تو دراصل انتہائی چھوٹے ہائیڈل پاور پروجیکٹس ہیں جو این جی اوز کے تعاون سے ان دور افتادہ پہاڑی علاقوں میں زیر تکمیل ہیں‘ جہاں سرے سے بجلی میسر نہیں۔ صوبائی حکومت نے اس
منصوے کے لیے 3 ارب روپے مختص کیے تھے اور اتنے پیسوں میں ایک چھوٹا ڈیم تو کیا 350 سوئمنگ پول نہیں بنائے جا سکتے۔ یہ مائیکرو ہائیڈل پاور پروجیکٹس کس قدر محدود سطح کے ہیں‘ اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ مکمل ہونے پر یہ دو لاکھ 45 ہزار گھروں کو بجلی فراہم کر سکیں گے جبکہ حال ہی میں پنجاب کے علاقے شیخوپورہ میں مکمل ہونے والا بھکی پاور پلانٹ 25 لاکھ گھروں کو بجلی فراہم کر سکتا ہے۔ بلاشبہ بھکی پاور پلانٹ حکومت پنجاب کا شاہکار منصوبہ ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتے ہوئے یہاںدنیا کی سب سے بڑی ٹربائن لگائی گئی ہے‘ جس سے سستی ترین بجلی پیدا ہو رہی ہے۔ اس کے بعد ساہیوال میں کوئلے سے چلنے والا بجلی گھر اور بلوکی میں گیس سے چلنے والا پاور پلانٹ‘ دونوں تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں۔ قبل ازیں نندی پور پاور پروجیکٹ سمیت کئی منصوبوں کا افتتاح ہو چکا ہے‘ اور وفاقی حکومت کے بھی کئی منصوبے مکمل ہو چکے اور متعدد تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں‘ لیکن سوال یہ ہے انتخابی وعدوں کے برعکس اندھیرے ختم ہونے میں کیوں نہیں آ رہے؟ اگر یہ ساری باتیں درست ہیں تو پھر چار برس گزرنے کے باوجود لوڈ شیڈنگ ختم کیوں نہیں ہو رہی؟ چلیں 6 ماہ میں لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ تو جذباتی بیان تھا‘ لیکن حال ہی میں مودی کو بجلی فراہم کرنے کی باتیں کیا ہوئیں؟
اعداد و شمار کی بات کریں تو وفاقی حکومت بھی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتی محسوس ہوتی ہے۔ دعویٰ یہ ہے کہ حکومت نئے بجلی گھر تو لگا رہی ہے مگر پیداوار میں اضافے کے ساتھ ساتھ بجلی کا استعمال بھی بڑھ رہا ہے اس لیے لوڈشیڈنگ ختم نہیں ہو رہی۔ اگر یہ دعویٰ درست ہو تب بھی اس سے نااہلی کا تاثر ابھرتا ہے۔ یہ بات تو ایک عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بجلی کی طلب بڑھ رہی ہے، پھر آپ نے اس بات کا پیشگی اِدراک کیوں نہ کیا؟ تلخ حقیقت یہ ہے کہ لوڈشیڈنگ کی وجوہ کچھ اور ہیں۔ آپ وفاقی وزیر برائے برق و آب خواجہ آصف کے ٹویٹس دیکھ لیں۔ گزشتہ برس جون میں بجلی کی پیداوار، طلب اور رسد کے فرق سے متعلق ان کی ٹویٹس کا جائزہ لیں تو بجلی کی اوسط پیداوار 14000 میگاواٹ کے لگ بھگ تھی اور شارٹ فال 3200 میگاواٹ کے قریب۔ اب ان کی اپریل 2017ء کی ٹویٹس دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اوسط پیداوار تقریباً 12500 میگاواٹ ہے جبکہ شارٹ فال بڑھ کر 5830 میگاواٹ تک جا پہنچا ہے۔ یعنی بجلی کی مجموعی پیداوار بڑھنے کے بجائے کم ہو رہی ہے۔ اگر 2013ء میں بجلی کا شارٹ فال 5000 میگاواٹ تھا اور 2017ء میں 6000 میگاواٹ تک جا پہنچا ہے تو یہ معکوس ترقی نہیں تو اور کیا ہے؟ اور اگر معاملات اسی انداز میں ہی چلائے جاتے رہے تو 2018ء میں شارٹ فال بڑھ کر 7000 میگاواٹ ہو جائے گا۔ اعداد و شمار سے تو لگتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔
جب نندی پور پاور پروجیکٹ میں آگ لگی اور ریکارڈ جل گیا تو 10 ستمبر2016ء کو خود خواجہ آصف نے یہ انکشاف کیا کہ نندی پور پاور پلانٹ سے تیل کی چوری چھپانے کی ناکام کوشش کے طور پر ریکارڈ جلایا گیا۔ انکوائری ہو رہی ہے اور جلد ہی عوام کو تحقیقات سے آگاہ کیا جائے گا‘ لیکن ابھی تک یہ معمہ حل نہیں ہوا کہ نندی پور میں کیا بے قاعدگیاں ہوئیں اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اسی طرح آئی پی پیز کو ادائیگیاں نہیں ہو رہیں اور ایک مرتبہ پھر گردشی قرضوں کا پہاڑ کھڑا ہو گیا ہے۔ جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت آئی تو 480 ارب روپے واجب الادا تھے۔ بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لیے فوری طور پر 342 ارب روپے کی ادائیگیاں کی گئیں۔ اس دوران عالمی مارکیٹ میں تیل کے نرخ کم ہوتے چلے گئے، صارفین کو بجلی کے بلز میں دی جا رہی سبسڈی بتدریج ختم کی گئی، بجلی کے نرخ بڑھا دیے گئے‘ لیکن ان تمام اقدامات کے باوجود گردشی قرضے (سرکولر ڈیٹ) 400 ارب روپے کی حد عبور کر گئے ہیں۔
حکومت وقتی طور پر پانامہ لیکس کے بحران سے نکلنے میں تو کامیاب ہو گئی ہے اور پاکستانی عوام کے مزاج کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو پانامہ کے ایشو سے نواز شریف کی انتخابی پوزیشن کمزور ہوتی دکھائی نہیں دیتی‘ لیکن اب اسے ایک اور امتحان کا سامنا ہے جو میرے خیال میں انتخابات کا پانسہ پلٹ سکتا ہے اور وہ ہے بجلی کی لوڈ شیڈنگ۔ گزشتہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کی عبرتناک شکست اور مسلم لیگ (ن) کی فتح کے پیچھے یہی عنصر کارفرما تھا۔ جس طرح آج کل یہ تاثر ہے کہ آئندہ انتخابات سے پہلے لوڈ شیڈنگ مکمل طور پر ختم کر دی جائے گی اسی طرح پیپلز پارٹی کی حکومت کے آخری دنوں میں بھی تجزیہ نگاروں کا یہی خیال تھا کہ آصف زرداری بہت منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں، وہ اسمبلیوں کے تحلیل ہونے سے پہلے آئی پی پیز کو ادائیگیاں کریں گے اور بجلی کا بحران ختم ہو جائے گا‘ لیکن یہ سب تجزیے غلط ثابت ہوئے۔ اب بھی مسلسل یہی سنتے آ رہے ہیں کہ فلاں منصوبہ مکمل ہو گیا، فلاں منصوبے پر کام جاری ہے، اتنے میگاواٹ نیشنل گرڈ میں شامل ہو گئے لیکن جیسے ہی سورج آنکھ دکھاتا ہے سب دعوے بھاپ بن کر اڑ جاتے ہیں۔ گاہے خیال آتا ہے کاش جوشِ خطابت سے برقی رو دوڑائی جا سکتی، کاش طرح دار بیانات سے بجلی بنائی جا سکتی، یا پھر بجلی کوئی چیونگم ہوتی جسے پُھلا کر شارٹ فال ختم کیا جا سکتا۔
اب بھی مسلسل یہی سنتے آ رہے ہیں کہ فلاں منصوبہ 
مکمل ہو گیا، فلاں منصوبے پر کام جاری ہے، اتنے 
میگاواٹ نیشنل گرڈ میں شامل ہو گئے لیکن جیسے ہی 
سورج آنکھ دکھاتا ہے سب دعوے بھاپ بن کر اڑ 
جاتے ہیں۔ گاہے خیال آتا ہے کاش جوشِ خطابت 
سے برقی رو دوڑائی جا سکتی، کاش طرح دار 
بیانات سے بجلی بنائی جا سکتی، یا پھر بجلی کوئی چیونگم 
ہوتی جسے پُھلا کر شارٹ فال ختم کیا جا سکتا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں