"BGC" (space) message & send to 7575

’’رٹو طوطے‘‘ اور سیکولراِزم

سیاست گر اور جادوگر میں کئی قدریں مشترک ہوتی ہیں مثلاً دونوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں اس پر لوگوں کی توجہ مرکوز نہ ہو۔ نائجیریا کے شاعر اور ناول نگار بن اوکری
ایک سیاستدان کے پاس تین ہیٹ ہونے چاہئیں، ایک اچھالنے کے لیے، ایک وقت گزاری کے لیے اور ایک منتخب ہو جانے کی صورت میں خرگوش نکالنے کے لیے۔ امریکی مصنف اور شاعر، کارل سینڈ برگ
سیاستدان کے پیش نظر اگلا انتخاب ہوتا ہے جبکہ مُدبر اگلی نسل کے بارے میں سوچتا ہے۔ امریکی ماہر علم الادیان، جیمز فری مین کلارک
عاجزی و انکساری کی مٹی سے گندھے چوہدری نثار علی خان کا تعلق اس دھرتی سے ہے جس سے بدھ مت کے بانی بُدھا کی یادیں جڑی ہیں۔ مثال کے طور پر چکری سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر وہ مقام ہے جہاں بُدھا نے شیر کے بچوں کو بھوک سے بلبلاتے دیکھا تو اپنے جسم کے بعض اعضا کاٹ کر انہیں کھلا دیے۔ اسی اٹوٹ نسبت کے باعث میں نے چوہدری نثار کی کسی بات کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ انہوں نے طالبان کو کرکٹ میچ کھیلنے کی دعوت دے ڈالی، دولت اسلامیہ کے وجود سے انکار کیا، کالعدم تنظیموں کے عہدیداروں سے ملنے کی مضحکہ خیز تاویلیں بیان کیں، اگر کوشش کی جاتی تو اقوالِ نثار کے نام سے ایک کتابچہ مرتب کیا جا سکتا تھا مگر میں ان کی کسی بات پر کبھی مشتعل نہیں ہوا۔ اب آپ ہی بتائیے کہ آتم تیاگ کے قائل اور نفی ذات پر مائل کسی سادھو سے الجھنا کہاں کی عقلمندی ہے؟ اب بھی جب انہوں نے سیکولراِزم کو لادینیت قرار دیا تو میں نے ان کے بیان کو یکسر نظر انداز کر دیا‘ لیکن بعض باریش کالم نگاروں کو چوہدری نثار کے پیچھے صف آرا ہوتے دیکھا تو سوچا کیوں نہ لگے ہاتھوں اس فکری مغالطے کو دور کر دیا جائے کہ سیکولراِزم اور لبرل اِزم کا لادینیت یا الحاد سے کوئی لینا دینا نہیں۔
امریکی مصنف کارل سینڈبرگ کے بقول سیاستدانوں کے پاس کم ازکم تین ہیٹ ہونے چاہئیں مگر چوہدری نثار ایسے منجھے ہوئے سیاست گر ایک ہی ہیٹ سے کام چلانا بخوبی جانتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے اس ہیٹ سے کب اور کیسے باز نکالنا ہے، حکومت میں بیٹھے ہوئے کیسے فاختہ برآمد کرنی ہے اور انتخابات قریب آنے پر اسی ہیٹ سے کون سی نئی چورن اور چوسنی نکال کر تماش بینوں کو تالیاں پیٹنے پر مجبور کرنا ہے۔ جب بھی وزارت داخلہ کی کارکردگی زیر بحث آتی ہے تو اس ہیٹ سے معجونِ مذہب نکال لی جاتی ہے۔ اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر بتائیں، جو وزیر داخلہ مساج سینٹرز پر چھاپے مارتا ہو اس سے کون پوچھ سکتا ہے کہ بار بار تصدیق کے باوجود مُلا منصور پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بنوانے میں کیسے کامیاب ہو گیا؟ جس وزیر داخلہ کو سوشل میڈیا پر اہانت آمیز مواد کی آڑ میں اپنے ناقدین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا فن آتا ہو، اس سے کیسے جواب طلبی کی جا سکتی ہے کہ شربت گلہ کو تو آپ پکڑ لیتے ہیں‘ مگر لاکھوں جعلی شناختی کارڈز اور جعلی پاسپورٹ بنوانے والوں کے گرد گھیرا تنگ کیوں نہیں ہوتا؟ اب آپ ہی بتائیں، یہ سیکولراِزم والے دبنگ بیان کے بعد کون یہ سوال اٹھانے کی جسارت کرے گا کہ گزشتہ چار سال کے دوران نیکٹا کے بورڈ آف گورنرز اور ایگزیکٹو کمیٹی کے کتنے اجلاس ہوئے اور کس مائی کے لال میں یہ جرات ہے کہ سانحہ کوئٹہ کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کی رپورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی کے خلاف جو چارج شیٹ مرتب کی‘ اس پر بات کر سکے؟ سچ کہا کسی، گندہ ہے پر دھندہ ہے۔
اب آتے ہیں سیکولراِزم کی طرف۔ ہمارے معاشرے کی لا علمی اور جہالت کا عالم ملاحظہ کیجئے کہ اردو لغت میں ایسا کوئی لفظ سرے سے موجود ہی نہیں جسے سیکولراِزم کا متبادل قرار دیا جا سکے۔ معروف کتاب ''بریکنگ دا کرفیو‘‘ کی مصنفہ ایما ڈنکن لکھتی ہیں ''پاکستان میں مذہب کی لڑائی لڑنے والے مولوی حضرات اور مذہبی طبقات سیکولرازم کی مخالفت تو کرتے ہیں مگر انہیں اس لفظ کا مطلب ہی نہیں معلوم‘‘۔ ہمارے ہاں تعصب کے پنجرے میں مقید ''رٹو طوطوں‘‘ کو بس چند الفاظ ازبر ہیں۔ مثال کے طور پر یہ جملہ بہت شد و مد سے سننے کو ملے گا کہ ہم لارڈ میکالے کا نظام تعلیم نہیں چلنے دیں گے مگر پلٹ کر پوچھ لیا جائے کہ صاحب لارڈ میکالے کا نظام تعلیم ہے کیا تو آئیں بائیں شائیں کرنے لگیں گے۔ یہ ''رٹو طوطے‘‘ جن مسلم سائنسدانوں پر فخر کرتے ہیں اور ان کے کارنامے بیان کرتے ہوئے نہیں تھکتے‘ ان میں سے بیشتر سیکولر اور لبرل تھے، موقع ملے تو کبھی ابن رُشد اور عمر خیام کے خیالات معلوم کرکے دیکھیں، ہاتھوں کے طوطے نہ اڑ جائیں تو پیسے واپس۔ اس شاندار ماضی کی تفصیل بیان کرنے والوں سے یہ بھی ضرور پوچھیں کہ اکنافِ عالم کو اپنی ایجادات سے بقعہ نور بنانے والے یہ سائنسدان تھے تو آبا ہی ہمارے مگر اس وقت کے مسلمانوں نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا؟
اسلام کیا ہے اور کیا نہیں؟ یہ جاننے کے لیے یقینا کسی مسلمان سے ہی رجوع کیا جائے گا ناں‘ کہ کسی ہندو یا عیسائی کی بات حرف آخر سمجھی جائے گی؟ لیکن جب سیکولراِزم کی بات ہو تو ''نثارانِ چوہدری نثار‘‘ خود تشریح و تعبیر بیان کرنے لگتے ہیں۔ سیکولراِزم کے بانی جارج جیکب ہولی اوک ہیں‘ جنہوں نے پہلی مرتبہ نہ صرف یہ اصطلاح استعمال کی بلکہ اس کا مفہوم بھی واضح کیا۔ ایک صاحب نے ان سے یہ جملہ منسوب کیا کہ خدا کو ماننے والا کبھی سیکولر نہیں ہو سکتا۔ میں نے ہولی اوک کی سب کتابیں کھنگال ڈالیں‘ مگر کہیں یہ جملہ نہیں ملا۔ حقیقت یہ ہے کہ سیکولراِزم مذہب سے متصادم کوئی دین نہیں بلکہ ایک عمرانی، سیاسی اور سماجی نظریہ ہے‘ جس کی بنیاد اس بات پر ہے کہ مذہب لوگوں کا ذاتی معاملہ ہے‘ ریاست مذہب، مسلک یا عقیدے کی بنیاد پر کسی ایک شخص کو دوسرے پر فوقیت نہیں دے گی۔ جب ہم امور سلطنت چلانے کے لیے ریاستی مشینری کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو سیکولراِزم کا استدلال محض یہ ہے کہ مشینری ہندو، مسلمان، یہودی یا عیسائی نہیں ہو سکتی۔ ہولی اوک نے لکھا ہے ''سیکولراِزم کی اصطلاح کا انتخاب اس لیے کیا گیا کہ ایک خاص مثبت اور اخلاقی عنصر کو واضح کیا جا سکے‘ جو کافر اور ملحد جیسی اصطلاحات سے واضح نہیں ہوتا‘‘۔ آپ ہولی اوک کی کتاب ''دا پرنسپلز آف سیکولراِزم‘‘ پڑھ کر دیکھیں جس میں اس نے نہ صرف اس اصطلاح کی تعریف بیان کی ہے بلکہ اس کے اغراض و مقاصد اور بنیادی قواعد و ضوابط بھی بیان کیے ہیں۔ اس کی کتاب پڑھ کر کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو اور جرمن چانسلر اینجلا مرکل جیسی شخصیات کی شبیہ ابھرتی ہے اور خیال آتا ہے کہ سیکولراِزم جب اپنی انتہا کو پہنچتا ہے تو معاشرے میں انسانیت کو مقدم سمجھنے والی ایسی شخصیات کا ظہور ہوتا ہے۔ سیکولراِزم کی اصطلاح‘ جسے ہمارے ہاں لادینیت قرار دے کر گالی بنا دیا گیا ہے، کا بانی ہولی اوک اس کی متعین تعریف کچھ اس طرح سے کرتا ہے ''مادی ذرائع سے انسانی فلاح کو فروغ دینے اور دوسروں کی خدمت کو زندگی کا شعار بنانے کا نام سیکولرازم ہے‘‘۔
سیکولراِزم تو مذہبی تفریق کے باوجود ایک ساتھ رہنے کی وہ عملی تدبیر ہے جس کی بنیاد بقائے باہمی کے فطری اصول پر ہے۔ اردو میں اس اصطلاح کا کوئی متبادل لفظ تو موجود نہیں مگر اس کے وسیع تر معنوں اور مفہوم کو پیش نظر رکھا جائے تو ایک ہی لفظ ہے جو اس کے قریب ترین محسوس ہوتا ہے اور وہ ہے انسانیت۔ یہ تو تھا سیکولراِزم، بشرط زندگی اگلے کالم میں لبرل اِزم پر بات ہو گی۔

 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں