بڑی قومیں بدمعاش ہوتی ہیں جبکہ چھوٹی قوموں کی مثال طوائفوں جیسی ہے۔امریکی رائٹر اور فلم ڈائریکٹر سٹینلے کیوبرک
جو قوم اپنے بچوں کے لیئے کھڑی نہیں ہوتی وہ کبھی کسی موقع پر کھڑی ہو سکتی ہے ناں مستقبل میں قد آور ہو سکتی ہے۔بچوں کے حقوق کے لیئے سرگرم امریکی خاتون سوشل ورکر ماریان رائٹ ایڈل مین
افسوس کہ ہمارے وزیر اعظم کو ریاض کانفرنس میں تقریر کا موقع نہیں ملا ۔ٹرمپ نے اپنی تقریر میں پاکستان کانام تک نہیں لیاحالانکہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں ہم نے دیں،اس سے بڑھ کر سبکی کیا ہو سکتی ہے کہ مسلم دنیا کی اکلوتی ایٹمی طاقت کواہمیت نہیں دی گئی؟کیا ہم اسی سلوک کے مستحق تھے؟مسلسل کئی روز سے صفِ ماتم بچھی ہے اور دانشوران قوم باجماعت سینہ کوبی کیے جا رہے ہیں۔ذاکران ِقوم اپنے کمالِ فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے مرثیہ خوانی کرتے ہیں تو مجمع سے ہائے ہائے کی صدائیں بلند ہونے لگتی ہیں۔ان نوحہ گروں کو کوئی کیسے بتلائے اور کیونکر سمجھائے کہ حضور والا!عزت جنس بازار ہے نہ کسی فقیر کا ہار۔جناب من!عزت مانگی یا خریدی نہیں جاتی ،کمائی جاتی ہے۔عزت مانگنے والوں کو نہیں ملتی بلکہ انہیں دی جاتی ہے جو حقدار ہوتے ہیں ۔عزت زبردستی کروائی جاتی ہے نہ خیرات میں ملتی ہے،عزت کی جاتی ہے اور دی جاتی ہے۔ یہ دنیا بہت سنگدل ہے ،یہاں مانگنے والوں کو عزت توکیا بھیک بھی نہیں ملتی۔سٹینلے کیوبرک نے تو عالمی تعلقات کی گتھی ایک ہی جملے میں سلجھا دی اور عزت کا فلسفہ بیان کر دیا،اب آپ خود ہی فیصلہ کر لیں کہ آپ کیا ہیں؟
چلیں مان لیا ،ڈونلڈ ٹرمپ نے بہت زیادتی اور ناانصافی کی ہمارے ساتھ۔ عرب دوست بھی بہت بے مُروت اور بے لحاظ ہیں ،ہماری عزت نہیں کرتے ۔لیکن ہم خود اپنی کتنی عزت کرتے ہیں؟کیا ہمیں عزت راس بھی ہے یا نہیں؟جب دنیا ہمیں عزت دیتی ہے تو ہمارا ردعمل کیسا ہوتا ہے؟کیا ہم یہ عزت ہضم کر پاتے ہیں؟مثال کے طور پرملالہ یوسفزئی کی وجہ سے عالمی سطح پرپاکستان کا نام روشن ہوا۔قدر کرنے والوں نے دنیا بھر کے ایوارڈز اور اعلیٰ ترین اعزازات مزاحمت کا استعارہ بن جانے والی اس بچی کے قدموں میں ڈھیر کر دیئے۔وہ جہا ں جاتی ہے بے پناہ مقام و مرتبہ اور عزت پاتی ہے۔کئی ممالک میں تعلیمی ادارے اور سڑکیں ملالہ سے منسوب کی گئی ہیں۔مریخ اور مشتری کے درمیان ایک سیارچے کو ملالہ کا نام دیا گیا ہے ۔یہاں تک کہ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کے شہر بنگلور کی ایک سڑک کو ملالہ سے منسوب کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔لیکن پاکستان میں ملالہ کو نظریاتی فٹبال اور سازشی کردار بنا دیا گیا ہے۔گزشتہ دور حکومت میں خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ امیر حیدر ہوتی نے گورنمنٹ گرلز کالج سیدو شریف کانام تبدیل کرکے ملالہ کالج رکھنے کی منظوری دی تو طالبات سڑکوں پر نکل آئیں اور احتجاج کے بعد ملالہ کے نام کا بورڈ اتار دیا گیا۔کئی سال گزرنے کے بعد بھی یہ کالج ابھی تک بے نام ہے۔ اسی طرح کراچی کے گرلز سیکنڈری اسکول مشن روڈ کو ملالہ سے منسوب کیا گیا تھا لیکن دھمکیاں موصول ہونے کے بعد یہ فیصلہ واپس لینا پڑا۔ جب دنیا عزت دیتی ہے تو ہم اسے سازش مانتے ہیں اور جب دنیا اہمیت نہیں دیتی تو ہم اسے توہین گردانتے ہیں۔
ماریان رائٹ کے الفاظ مستعار لوں تو وہ قوم کیسے قدآور ہوسکتی ہے جوملالہ جیسی باہمت بچی کے ساتھ کھڑی نہیں ہو سکتی؟سوات کے آخری حکمران میاں گل جہاں زیب کی بہو اور میاں گل احمد زیب کی اہلیہ مسرت احمد زیب نے ملالہ کے بارے میں جو کچھ کہا شاید وہ ہماری قوم اور ہمارے ہی معاشرے کو زیب دیتا ہے۔فرماتی ہیں ،ملالہ پر حملہ ڈرامہ تھا اور مجھے بھی اس ڈرامے کا حصہ بننے کی پیشکش کی گئی۔سوات میں جو سکین ہوا ،اس کے مطابق ملالہ کو گولی نہیں لگی۔یہ دعویٰ بھی کیا کہ جن ڈاکٹروں نے ملالہ کا معائنہ کیا ،انہیں خاموش رکھنے کے لئے حکومت نے پلاٹ دیئے۔عجب غضب کا ڈرامہ ہے جس میں سول اورفوجی قیادت،انتظامیہ ،ملک دشمن طالبان سمیت سب لوگ ایک پیج پر تھے۔ڈاکٹر کہتے ہیں گولی لگنے کے باعث ملالہ کے دماغ کی نسیں کٹ گئیں اس لیے وہ جب بولتی ہے تو اس کا منہ ٹیڑھا ہوجاتا ہے۔شاید یہ بھی اسی ڈرامے اوراداکاری کا حصہ ہوگا۔جس طرح ملالہ ایک سوچ اور استعارہ بن گئی ہے اسی طرح مسرت احمد زیب بھی ایک علامت،استعارہ اور نشانی ہیں اس تاریک اورمنفی سوچ کی جو حالتِ انکار میں ہے ۔اس سوچ کے حامل لوگوں کی سازشی تھیوریاں محض ملالہ تک محدود نہیں۔ان کا خیال ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ خود سی آئی اے نے کیا۔انہیں لگتا ہے کہ پاکستان میں بم دھماکے اور خودکش حملے طالبان نہیں کروا رہے بلکہ یہ سب یہود و ہنود کی سازش ہے۔انہیں یقین ہے کہ 2مئی کو ایبٹ آباد میں سی آئی اے کے آپریشن کے وقت اسامہ بن لادن وہاں تھا ہی نہیں۔اور بعض سنگدل تو سانحہ اے پی ایس کو بھی ڈرامہ قرار دیتے ہیں۔شاید یہ لوگ شیکسپیئر سے متاثر ہیں جس نے کہا تھا یہ دنیا ایک اسٹیج ہے اور ہر شخص اداکار ہے۔
سوال یہ ہے کہ جو قوم خود اپنی عزت نہیں کرتی ،دنیا اس کا احترام کیوں کرے؟ایک ملالہ ہی کیا ہم تو ہر ابھرتے سورج پرتھوکنے کے عادی ہیں۔اندھوں کے اس دیس میں بینائی عذاب ہے۔ بونوں اور ٹھگنوں کے اس معاشرے میں کسی شخص کا قدآور ہونا ایسا جرم ہے جو قابل معافی ہے ناں قابل تلافی۔تکلف برطرف،ہم نے قائد اعظم کی کتنی عزت کی ؟یہی کہ اپنے دفاتر میں بابائے قوم کی تصاویر آویزاں کر دیں؟مگرکیسے کیسے قصے اور کیسی کیسی کہانیاں تراشی جاتی ہیں اس نجات دہندہ کے حوالے سے۔ہم نے لیاقت علی خان کو کتنی عزت دی؟ایک ہی سانس میں شہید ملت کہتے ہیں اور پھر کردار کشی کرنے لگتے ہیں۔ہم نے حسین شہید سہروردی کو کتنی عزت دی؟کبھی تخت پر بٹھایا تو کبھی غداربنایا۔ہم نے فاطمہ جناح کو کتنی عزت دی؟صدارتی انتخابات میںایوب خان کے مقابلے میں مسترد کردیا۔ہم نے ڈاکٹر عبدالسلام اور ڈاکٹرعبدالقدیر کے ساتھ کیا کیا؟جوش ملیح آبادی سب کچھ تیاگ کر پاکستان آئے ،ہم نے انہیں کتنی عزت دی؟فیض احمد فیض کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا؟کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائوں... ہماری تاریخ کے ہر چوراہے پر احسان فراموشی کے کتبے آویزاں ہیں۔ جوقوم ملالہ کے بجائے نورین لغاری اور احسان اللہ احسان کی احسان مند ہو ،دنیا اس کی عزت کیوں کرے؟