"BGC" (space) message & send to 7575

زبانِ یارِ من چینی

کسی بھی قوم کی طاقت اس کی داخلی سالمیت میں پنہاں ہوتی ہے۔ چینی فلاسفر کنفیوشس
کوئی بھی قوم اس وقت تک عظیم نہیں ہو سکتی جب تک اسے یہ یقین نہ ہو جائے کہ دنیا میں کوئی اسے امداد دینے کے قابل نہیں۔ مارک ٹوئن کے ہم عصر امریکی مصنف چارلس ڈیوڈلے وارنر
قوموں کے دوست نہیں ہوتے محض مفادات ہوتے ہیں۔ فرانسیسی جرنیل اور مدبرچارلس ڈی گلو
جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کی طرح سری لنکا بھی چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا حصہ ہے‘ اور گزشتہ چند سال کے دوران چین نے سری لنکا میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی۔ مثال کے طور پر جنوبی ساحلی پٹی میں چین نے ہمبن ٹوٹا بندرگاہ بنائی، مہندا راجہ پکسا انٹرنیشنل ایئرپورٹ تعمیر کیا، بجلی گھر لگائے۔ جب یہ سرمایہ کاری ہو رہی تھی تب تو بہت شادیانے بجائے گئے لیکن اب سری لنکا کی حکومت شدید دبائو کا شکار ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان ترقیاتی منصوبوں کے لیے چین سے لیے گئے قرضے واپس کرنا ممکن نہیں اور دوسری الجھن یہ ہے بجلی گھر ہوں، بندرگاہیں یا دیگر منصوبے، انہیں چلانا اور منافع بخش بنانا سرکاری اداروں کے بس کی بات نہیں۔ لہٰذا یہ منصوبے چین کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ابتدائی طور پر ہمبن ٹوٹا پورٹ چین کے حوالے کی جا رہی ہے۔ کولمبو کے ساحلی علاقے میں 1.5 ارب ڈالر کی چینی سرمایہ کاری سے ایک نیا شہر بسایا جا رہا ہے، یہاں بھی سری لنکن حکومت نے سرمایہ کاری کے عوض دو تہائی شہر چین کو فروخت کر دیا ہے۔ اسی تناظر میں چند روز قبل برطانوی نشریاتی ادارے پر ایک رپورٹ نشر ہوئی جس کا عنوان تھا ''سری لنکا برائے فروخت‘‘۔ چونکہ آزادی سے پہلے یہ علاقہ برطانوی کالونی تھا، اس لیے عوام کو یہ خدشات لاحق ہیں کہ ایک مرتبہ پھر ہماری آزادی رہن رکھی جا رہی ہے اور اس مرتبہ چین استعماری قوت کے طور پر سامنے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترقیاتی منصوبے چین کے حوالے کرنے کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج بھی ہو رہا ہے۔
اگرچہ پاکستان میں حالات اس قدر خراب نہیں پھر بھی ان اندیشوں کا اظہار کیا جاتا ہے کہ سی پیک منصوبہ کہیں ایسٹ انڈیا کمپنی کی نئی شکل تو نہیں؟ چند روز قبل وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے انگریزی اخبارات کے لیے لکھے گئے ایک مضمون میں پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے حوالے سے پائے جا رہے خدشات سے متعلق اپنا نقطہ نظر بیان کیا تو تمام تر زورِ بیاں اس بات پر تھا کہ چین کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو اس نے کبھی کسی ملک پر حملہ نہیں کیا، چین کبھی استعماریت کا قائل اور جوع الارض کی طرف مائل نہیں رہا۔ اگرچہ احسن اقبال کے اس دعوے کے بارے میں بھی متعدد سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں لیکن یہ بات تسلیم کر لی جائے کہ ہمارے دوست ملک کی نیت میںکوئی فتور اور ارادوں میں کوئی کھوٹ نہیں تو بھی یہ خدشات ختم نہیں ہوتے کیونکہ ہمیں اپنے آپ پر بھروسہ نہیں، ہمارے بہکنے اور بھٹکنے کے بھرپور امکانات موجود ہیں۔ ہمارے دوست تو شاید تجارت کی غرض سے ہی یہاں آئیں اور انہیں دوطرفہ مفادات ہی عزیز ہوں لیکن ہماری مثال اس نکھٹو اور نکمی خاتون کی ہے جو آگ مانگنے یا دینے آنے والی ہر ہمسائی کو مالکن بننے کی ترغیب دیتی ہے اور کہتی ہے کہ مجھ سے تو یہ مشقت نہیں ہوتی، تم اسے اپنا ہی گھر سمجھو، ہانڈی روٹی بنائو، خود بھی کھائو اور مجھے بھی کھلائو۔ ہمسائی کتنی ہی نیک کیوں نہ ہو جب گھر کے حالات ایڑیاں اٹھا اٹھا کر التجائیں کرتے ہیں کہ قابض ہو جائو تو وہ اپنے خاندان کو بلوا کر گھر کا انتظام سنبھال ہی لیتی ہے۔ مجھے چین سے ڈر محسوس نہیں ہوتا مجھے تو ''آتش گل‘‘ سے خوف آتا ہے۔
چین صنعتی ترقی کے میدان میں تو اپنی کامیابی کا جھنڈا گاڑ ہی چکا ہے مگر زرعی پیداوار کے ضمن میں بھی اس کی پیش رفت حیران کن ہے۔ چین گندم اور آلو کی پیداوار کے اعتبار سے سرفہرست ہے‘ لیکن اس پیداوار کے باوجود چین زرعی مصنوعات کے حوالے سے خود کفیل نہیں اور اسے ہر سال
گندم، چاول سمیت بیشتر زرعی اجناس درآمد کرنا پڑتی ہے۔ پاک چین دوستی سمندر سے زیادہ گہری، ہمالیہ سے زیادہ بلند اور شہد سے زیادہ میٹھی تو ہے مگر چین کو زرعی اجناس برآمد کرنے والے ممالک میں پاکستان کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ چین نے چند برس قبل یوکرین کے ساتھ ایک تجارتی معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت چین یوکرین سے گندم درآمد کرتا ہے اور اس کے بدلے میں اسے زرعی آلات فراہم کرتا ہے۔ اسی معاہدے کے تحت چین نے یوکرین کی 18 ڈیری مصنوعات کو اپنی منڈیوں تک رسائی دے رکھی ہے۔ چین ویتنام، تھائی لینڈ اور لائوس سے بھی گندم خریدتا ہے۔ اگر چین دیگر ممالک پر انحصار کرنے کے بجائے پاکستان کی زرعی اجناس اور ڈیری مصنوعات درآمد کرنے لگے تو ہمارے مقدر سنور جائیں لیکن چارلس ڈی گلو نے سچ کہا تھا، قوموں کے مفادات ہوتے ہیں دوست نہیں ہوتے۔
مجھے یہ خوف لاحق ہے کہ سب سے پہلے ہماری زراعت پاک چین دوستی اور اقتصادی راہداری کی بھینٹ چڑھے گی۔ اس وقت چین کے پاس کاشتکاری کے لیے بیرون ملک لگ بھگ 25 لاکھ ہیکٹر اراضی ہے۔ چین نے جنوبی امریکہ میں زراعت کے شعبہ میں سرمایہ کاری کی ہے۔ مثال کے طور پر ارجنٹائن میں سویا بین اور مکئی اگانے کے لیے 2 لاکھ 34 ہزار ہیکٹر زمین پٹے پر لی گئی ہے۔ برازیل میں سویا بین کی پیداوار کے لیے بڑے پیمانے پر زرعی زمین لیز پر لی گئی ہے۔ 2013ء میں چین نے یوکرین کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کے تحت یوکرین نے اپنی 5 فیصد زمین چین کو کرائے پر دے دی ہے۔ معاہدے کے تحت ایک لاکھ ہیکٹر زمین‘ جس کا رقبہ ہانگ کانگ شہر کے برابر ہے‘ پر چینی کمپنی شنجیاگ پروڈکشن اینڈ کنسٹرکشن فصلیں اگائے گی۔ یہ بنیادی طور پر ایک فوجی کمپنی ہے جسے ''بگٹان‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ابتدائی طور پر اس کا مقصد سوویت یونین کے خلاف فوجی تیاریوں کو مضبوط کرنا اور کاشتکاری کی زمین واپس لینا تھا۔ یوکرین میں ابتدائی طور پر ایک لاکھ ہیکٹر زمین کرائے پر لی گئی ہے لیکن حتمی طور پر چین نے یہاں 30 لاکھ ہیکٹر زمین پر کاشتکاری کرنا ہے۔ ہمارے ہاں زراعت کا شعبہ پہلے سے زوال پذیر ہے، ناقص پالیسیوں اور جدید ٹیکنالوجی کے فقدان کے باعث پیداوار کم ہے اور پھر ہمارا کسان چینیوں جتنی محنت اور مشقت بھی نہیں کر سکتا۔ مجھے لگتا ہے کہ چین کا دھیان اس طرف جائے یا نہ جائے، ہم اپنی نااہلی، بدانتظامی اور کمزوری کے باعث اس کی توجہ اس طرف مبذول کروائیں گے اور سب سے پہلے زراعت کا شعبہ اقتصادی راہداری کی زد میں آئے گا۔ قوم کے دانشوروں اور حکمرانوں کو بھلے یہ اندازہ نہ ہو کہ مستقبل میں کیا ہونے والا ہے لیکن عوام کو بخوبی اِدراک و احساس ہے اور اس کا اندازہ پاکستان میں زور و شور سے چینی زبان سیکھنے کے رجحان سے لگایا جا سکتا ہے۔ ٹیوٹا کے زیرِ اہتمام چینی زبان سکھانے کی کلاسیں شروع ہوئیں تو درخواست دہندگان کا تانتا بندھ گیا۔ میں نے ایک نوجوان سے پوچھا، آپ چینی زبان کیوں سیکھنا چاہتے ہیں؟ اس نے کہا، آنے والے دور میں ہمارے آقا وہی ہوں گے تو ان کی زبان کیوں نہ سیکھیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں