"BGC" (space) message & send to 7575

گلالئی اب مردانہ وار مقابلہ کرو

تحریک انصاف کی منحرف رُکن قومی اسمبلی عائشہ گلالئی کے سنگین نوعیت کے الزامات نے محض عمران خان کو ہی بے نقاب نہیں کیا، ہمارے ہاں رائج سیاسی کلچر کو بھی برہنہ کر دیا ہے۔ انحطاط کا یہ عالم ہے کہ سیاست‘ جو کبھی اصولوں کا پیشہ ہوا کرتی تھی، ابوالفضولوں کا شغل بن چکی ہے۔ کہا تو یہ جاتا تھا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا مگر اب محسوس ہوتا ہے کہ اس کی آنکھ میں حیا اور خون میں وفا بھی عنقا ہے۔ سیاستدان کوئی بھی ہو جب کوئی مخالفت کی ترکش میں سے ماضی کے تیر کھینچ کر حملہ آور ہوتا ہے تو مجھے آئرش مصنف آسکر وائلڈ کی ایک خوبصورت بات یاد آتی ہے: ''ولی اور گناہگار میں محض یہی فرق ہے کہ ہر ولی کا ایک ماضی ہوتا ہے اور ہر گناہگار کے سامنے ایک مستقبل‘‘۔ عمران خان کے چاہنے والوں کا اصرار ہے کہ اس کے ماضی کو نہ کھنگالا جائے، اور میری رائے یہ ہے کہ اس کا حال ماضی سے کچھ زیادہ مختلف نہ ہو تو بھی اس کی ذاتی زندگی میں تانک جھانک سے گریز بہتر ہے۔ قیادت کے منصب پر موجود افراد کی کتابِ زیست کے محض ان صفحات کی ورق گردانی کی جائے جو معاملات سے متعلقہ ہیں، ذاتی زندگی میں تو ہر شخص صرف انسان ہی ہوتا ہے۔ راست بازی، ایمانداری، دیانتداری اور سچائی جیسے اوصاف صاحبِ کردار قیادت کے بنیادی تقاضوں میں شامل ہیں‘ لیکن نہ تو ان کی کوئی متعین تعریف طے کرنا ممکن ہے اور نہ ہی ان خصوصیات کے سمندر کو کسی آئینی و قانونی تشریح کے کوزے میں بند کیا جا سکتا ہے‘ لہٰذا کون کس قدر صادق و امین ہے یہ فیصلہ اللہ اور عوام پر چھوڑ دینا چاہئے۔ عائشہ گلالئی کے الزامات کے ہنگام تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے دوستوں کا یہ اعتراض بھی درست ہے کہ بغیر ثبوت کے کسی پر لزام لگانا تہمت کے زمرے میں آتا ہے اور یہ کلچر ختم ہونا چاہئے لیکن بصد احترام عرض ہے کہ نہ صرف اس کلچر کو متعارف آپ نے کروایا بلکہ اب بھی اس کو پروان چڑھانے میں سب سے آگے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک پل میں آپ عائشہ گلالئی پر اعتراض کرتے ہیں کہ اس کے پاس اپنی بات ثابت کرنے کے لئے کوئی شواہد نہیں‘ اور دوسرے ہی پل آپ خود بغیر کسی ثبوت کے اس پر الزامات کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں کہ یہ ایجنڈے اور سکرپٹ کا حصہ ہے، اس کا ماسٹر مائنڈ امیر مقام ہے، اس نے عمران خان کی کردار کشی کرنے کے لئے مسلم لیگ (ن) سے پچاس کروڑ روپے لئے ہیں۔ طرفہ تماشا دیکھیں کہ وہ صحافی جنہیں ''ماہر عمرانیات‘‘ کا لقب دیا گیا تھا، انہوں نے بلا تامل کہ دیا کہ عائشہ گلالئی نے مسلم لیگ(ن) سے پچاس کروڑ روپے وصول کئے ہیں اور جب اگلے روز یہ سوال کیا گیا کہ آپ کے ذرائع کیا ہیں، کس بنیاد پر آپ نے یہ بات کی تو کہنے لگے: مجھے تو تحریک انصاف کی رہنما عندلیب عباس نے بتایا اور میں نے کہہ دیا۔ عمران خان پر پہلے بھی اسی نوعیت کے الزا مات لگتے رہے ہیں مگر فرق یہ ہے کہ اس مرتبہ گھر کے بھیدی نے لنکا ڈھائی ہے اور چونکہ ایک خاتون متاثرہ فریق کے طور پر سامنے آئی ہے تو سچ اور جھوٹ کا فیصلہ ہونا ضروری ہے۔ ہو سکتا ہے دونوں جھوٹ بول رہے ہوں، ممکن ہے دونوں اپنا اپنا سچ بتا رہے ہوں اور پوری بات چھپا رہے ہوں۔ اگر عائشہ گلالئی حق پر ہیں اور ان کے پاس ثبوت ہیں تو انہیں ٹی وی چینلز پر براجمان خود ساختہ ججوں کے بجائے داد رسی کے لئے حقیقی عدلیہ سے رجوع کرنا چاہئے اور اگر ان الزامات میں کوئی صداقت نہیں تو عمران خان اپنی پارٹی کے ذریعے جوابی الزامات لگانے کے بجائے‘ الزامات لگانے والے فریق کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ کریں۔ یہ منافقت پلس نہیں تو اور کیا ہے کہ کل تک آپ مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں پر تنقید کیا کرتے تھے کہ الزامات شریف خاندان پر ہیں مگر یہ لوگ ذاتی ملازم بن کر اس کا دفاع کرتے پھرتے ہیں‘ اور آج جب تحریک انصاف کے چیئرمین کو ذاتی نوعیت کے سنگین الزامات کا سامنا ہے تو پوری تنظیم اپنا فرض منصبی جانتے ہوئے گلالئی پر کیچڑ اچھالنے میں مصروف ہے۔
ٹی وی چینلز پر اینکرز کو نہایت جانفشانی سے عائشہ گلالئی کا ٹرائل کرتے دیکھا تو معروف امریکی فوٹو جرنلسٹ، رچرڈ ایویڈان کا وہ تھپڑ یاد آیا جو اس نے میڈیا کی نام نہاد غیر جانبداریت کے منہ پر رسید کیا تھا۔ عمومی تصور یہی ہے کہ صحافی تو دروغ گو ہو سکتا ہے مگر کیمرہ جھوٹ نہیں بولتا‘ لیکن رچرڈ ایویڈان کی دانست میں ''کیمرہ ہر وقت جھوٹ بول رہا ہوتا ہے۔ کیمرہ جو بھی دکھاتا ہے جھوٹ پر مبنی ہوتا ہے کیونکہ جب آپ یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ اس منظر کو نہیں دکھانا اور اُس منظر کو دکھانا ہے تو اس ذاتی انتخاب کے ذریعے آپ جھوٹ گھڑ رہے ہوتے ہیں۔ جب کوئی آرٹسٹ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کیا پینٹ کرنا ہے کیا نہیں کرنا، کیا لکھنا ہے کیا نہیں لکھنا، تو یہ جھوٹ ہی ہوتا ہے اور یہی بات فوٹو گرافرز پر بھی صادق آتی ہے۔‘‘ کسی مرد پر ہراساں کرنے کا الزام عائد کرنے والی خواتین کی اس قدر کردار کشی تو کمرہء عدالت میں مخالف وکلا نہیں کرتے جس قدر چبھتے ہوئے شرمناک سوالات میڈیا والوں نے کئے۔ مختلف چینلز کی نشریات دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے وہ کوئی متاثرہ خاتون نہیں بلکہ ایک فٹبال ہے جسے سب ٹھوکر مارنے کے درپے ہیں۔ اگر فی الوقت ایسے ثبوت سامنے نہیں آئے کہ وہ سچ کہ رہی ہے تو آپ کے پاس ایسے شواہد بھی موجود نہیں کہ وہ جھوٹ بول رہی ہے۔ قومی اسمبلی کی نشست سے چپکے رہنا یقینا غلط فیصلہ ہے، اس کی باتوں میں اگر رتی برابر بھی سچائی ہے تو سب سے پہلے اسے اس عہدے کو ٹھوکر مارنی چاہئے تھی جو اس کی بے توقیری کا باعث بنا۔ لیکن محض اس بات سے الزامات کی صحت پر کیا فرق پڑتا ہے؟ اگر تحقیقات کے بعد اس کا الزام غلط ثابت ہو اور لگے کہ یہ کوئی فرمائشی نوعیت کی پرفارمنس تھی تو سخت ترین سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی کسی کی عزت نہ اچھال سکے لیکن پہلے اس اونٹ کو کسی کروٹ بیٹھنے تو دیں۔ روایتی مردانہ سوچ دیکھتا ہوں تو گھن آتی ہے۔ عائشہ گلالئی کو ملالہ یوسف زئی سے تشبیہ دی جا رہی ہے کیونکہ دونوں کی صنف ایک تھی۔ دونوں نے ہار ماننے کے بجائے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ بھلے چنگے معقول نظر آنے والے افراد بھی سرگوشی کرتے ہوئے کہتے ہیں، کوئی بھی شریف لڑکی یوں اپنا تماشا نہیں بناتی، اگر یہ عزت دار ہوتی تو خاموشی سے گھر بیٹھ جاتی۔ یعنی ہمارے ہاں شرافت کا پیمانہ آج بھی یہی ہے کہ کسی لڑکی کے ساتھ زیادتی ہو تو وہ چپ کا روزہ رکھ لے تاکہ اوباشوں کو شہ ملے اور یہ کلچر مزید فروغ پائے؟ یعنی سنگ مقید رہیں اور سگ آزاد۔ یہی وہ روایتی سوچ ہے جو خواتین کی کمزوری کا باعث بنتی ہے۔ گھر سے نکل کر معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے والی بیشمار خواتین کو قدم قدم پر ہراساں کیا جاتا ہے لیکن وہ اس لئے یہ سب سہتی ہیں کی آواز اٹھائی تو انہیں ایک مرتبہ پھر گھر کی چار دیواری تک محدود کر دیا جائے گا۔ اس کی بہن ماریا تورپکئی کے لباس کو محدب عدسہ لے کر ڈھونڈے والے کہہ رہے ہیں، یہ تو خود بہت ماڈرن فیملی سے ہے۔ بہت خوب، یعنی جس لڑکی کا تعلق ماڈرن خاندان سے ہو، اس کی کوئی عزت نہیں ہوتی اور وہ آپ کے نزدیک تر نوالہ ہے؟ جس معاشرے میں تمام گالیاں عورت ذات سے منسوب ہوں، جہاں لغت کے تمام مثبت الفاظ مذکر ہوں اور بیشتر منفی الفاظ مونث قرار دیئے گئے ہوں وہاں آواز اٹھانے والی خاتون کو یہی مشورہ دیا جا سکتا ہے کہ اب حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرو۔

 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں