"BGC" (space) message & send to 7575

اہل سیاست کا’’ پیر کامل ‘‘

لاہوریوں کی عادت ہے کہ گالی دیتے وقت پیروں فقیروں کو استثنیٰ ضرور دیتے ہیں۔ آپ نے یہ جملہ اکثر سنا ہو گا کہ پیر فقیر نکال کر باقی سب ...۔ صرف لاہوریوں پر کیا موقوف پورے ملک میں جھوٹے سچے پیروں کا طوطی بول رہا ہے۔ جس طرح پولیس والے ایک دوسرے کو پیٹی بھائی کہتے ہیں‘ ایک علاقے کے رہنے والے ''گرائیں‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں یا ایک مسلک کے پیروکار چھوٹتے ہی پوچھتے ہیں، آپ ''مسلکی بھائی‘‘ ہیں کیا؟ اسی طرح ''پیر بھائی‘‘ کی اصطلاح بھی بہت کارآمد ہے۔ اگر آپ کسی سرکاری یا غیر سرکاری دفتر کے باہر خجل ہو رہے ہیں رسائی نہیں ہو پا رہی تو ان کے پی اے سے پوچھ لیں: آپ کس کے معتقد ہیں؟ وہ جو بھی جواب دے یہ کہتے ہوئے گرم جوشی سے گلے لگا لیں کہ پھر تو ہم پیر بھائی ہوئے۔ اگر وہ شخص غیر مقلد نہ ہوا تو یقیناً آپ کا کام ہو جائے گا۔ 
عام افراد کی طرح سیاستدان بھی پیروں کی بہت مانتے ہیں۔ پیروں اور مخدوموں میں سے بہت سے گدی نشین تو عملاً سیاست میں آ گئے ہیں۔ جو خود مخدوم نہیں ہیں مگر خدمت کے جذبے سے سرشار ہیں وہ بھی کسی ''پیر کامل‘‘ سے راہ و رسم رکھتے ہیں تاکہ سیاست کی راہ کھوٹی نہ ہو۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بظاہر تو پیر پرست معلوم نہیں ہوتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ہر دور میں کسی پہنچے ہوئے پیر کے آستانے سے جڑے رہے ہیں۔ جس دن عائشہ گلالئی نے ان پر الزامات کی بوچھاڑ کی‘ اس روز بھی وہ پاکپتن شریف تشریف لے گئے اور نہ صرف بابا فریدالدین گنج شکرؒ کے مزار پر سلام کیا بلکہ اپنی پیر بشریٰ بی بی المعروف پنکی بی بی کے درِ روحانیت پر بھی حاضری دی۔ کسٹم آفیسر خاور فرید مانیکا کی اہلیہ اور سابق وفاقی وزیر غلام فرید مانیکا کی بہو بشریٰ بی بی اپنے علاقے میں روحانی شخصیت کی حیثیت سے تو مقبول ہیں ہی‘ مگر عمران خان ان کے بہت بڑے عقیدت مند ہیں۔ یہ وہی خاتون ہیں جن کے بارے میں یہ جھوٹی خبر اڑائی گئی تھی کہ عمران خان نے ان کی چھوٹی بہن سے شادی کر لی ہے۔ عمران خان کا بشریٰ بی بی پر اعتقاد تب بڑھا جب انہوں نے لودھراں کے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کی کامیابی کی پیشگی خوشخبری سنائی۔ اب ان کی رائے کو عمران خان اس قدر معتبر سمجھتے ہیں کہ دو ماہ قبل جب بشریٰ بی بی نے اسلام آباد پر نحوست کے سائے منڈلاتے دیکھے اور انہیں کسی بلند پہاڑی مقام پر جانے کا مشورہ دیا تو عمران خان نے بلا تاخیر نتھیا گلی ڈیرے ڈال لئے اور اس وقت تک واپس نہ آئے جب تک ان کی روحانی پیشوا نے نحوست کے بادل چھٹ جانے اور پاناما کی جنگ میں ان کی جیت کی خوشخبری نہیں سنا دی۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ پنکی بی بی نے عمران خان کو مشورہ دیا ہے کہ جیسے تیسے کرکے جمائما کو اپنی زندگی میں واپس لے آئو اور عمران خان نے اس مشورے پر عمل کرتے ہوئے بات چیت کا آغاز بھی کر دیا ہے۔ عمران خان پیر پرست تو ہیں لیکن اپنی متلون مزاجی کے باعث دوستوں کی طرح پیر بھی بہت جلد بدل لیتے ہیں۔ جب وہ کرکٹ کھیلا کرتے تھے تو ''بابا جھلا‘‘ نامی کسی بزرگ کے قائل تھے۔ سیاست میں آئے تو پروفیسر رفیق اختر کی طرف مائل ہوئے اور اب بشریٰ بی بی کے در پر بطور سائل کھڑے نظر آتے ہیں۔
پیر پرستی محض عمران خان کی شخصیت کا ہی حصہ نہیں بلکہ بیشتر سیاستدان ہمہ وقت کسی پیرِ کامل کی تلاش میں رہتے ہیں۔ آصف زرداری جب ایوان صدر کے مکین تھے تو ان کے پیر محمد اعجاز سائے کی طرح چپکے رہتے۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ صدر زرداری اسلام آباد چھوڑ کر کراچی جا بسے۔ لوگ سوچتے‘ شاید کسی زلزلے یا سیاسی جوار بھاٹا کے خوف سے ایوان صدر چھوڑ کر بلاول ہائوس منتقل ہوئے ہیں مگر بعد ازاں معلوم ہوا کہ وہ اپنے پیر محمد اعجاز کے کہنے پر سمندر کنارے ڈیرے ڈالے ہوتے کیونکہ پیر صاحب نے مارگلہ کی پہاڑیوں سے امڈ کر ایوان صدر میں داخل ہوتی نحوستوں کے سائے دیکھ لئے ہوتے تھے۔ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے ستارے گردش میں ہوتے تو وہ بھی اپنے پیر صاحب پیر عبدالمجید خان کے قدموں میں بیٹھے دکھائی دیتے۔ سپریم کورٹ سے ان کی گرفتاری کا حکم نامہ جاری ہوا تو پیر صاحب کی خدمات حاصل کی گئیں۔ انہوں نے سہمے ہوئے وزیر اعظم کو یقین دلایا کہ جیسے آپ سوئس حکام کو خط لکھنے کے پل صراط سے کامیابی کے ساتھ گزر گئے تھے‘ ویسے ہی یہ مرحلہء شوق بھی طے ہو جائے گا اور واقعی اگلے دن یہ معاملہ ٹل گیا تو پیرِ کامل پر اعتقاد مزید مضبوط ہو گیا۔ پیر عبدالمجید خان کا تعلق کے پی سے ہے اور پیری مریدی کے حوالے سے جو مقام و مرتبہ خیبر پختونخوا کو حاصل ہے وہ کسی اور صوبے کے حصے میں نہیں آیا۔ مانسہرہ میں ایک قصبہ ہے ''لساں نواب‘‘ یہاں سے سات کلومیٹر کے فاصلے پر ایک پہنچے ہوئے بزرگ کا آستانہ ہے جن کا نام تو رحمت اللہ دیوانا بابا تھا اور انہیں بابا نانگا بھی کہا جاتا تھا مگر انہیں فقیدالمثال شہرت بابا دھنکا کے نام سے حاصل ہوئی۔ سب سے پہلے میر ظفراللہ جمالی کی والدہ یہاں تشریف لائیں۔ اس کے بعد میر ظفراللہ جمالی نے بابا دھنکا کے ہاتھوں پر بیعت کی۔ بابا دھنکا ایک چھڑی لے کر بیٹھتے تھے اور عقیدت مندوں کا تصور یہ تھا کہ جسے چھڑی لگ جاتی ہے اس کی دنیا و آخرت سنور جاتی ہے۔ میر ظفراللہ جمالی نے یہاں آ کر چھڑیاں کھائیں تو جلد یا بدیر وہ وزیر اعظم بن گئے۔ ان کے متعارف کرانے پر میاں نواز شریف نے بابا دھنکا کی زیارت کی اور چھڑیاں کھا کر دو مرتبہ وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہو گئے۔ ان کی دیکھا دیکھی بینظیر بھٹو بھی چھڑیاں کھانے جا پہنچیں۔ گویا سیاسی مرشد مختلف ہونے کے باوجود میاں نواز شریف اور بے نظیر ''پیر بہن بھائی‘‘ ٹھہرے۔ میاں نواز شریف نے بابا دھنکا کے آستانے پر ہیلی پیڈ بنوایا اور قصبہ ''لساں نواب‘‘ سے ان کی درگاہ تک تنگ و تاریک راستے کو پختہ سڑک میں تبدیل کرنے کے لئے تین کروڑ روپے کی گرانٹ جاری کی۔ اس دوران میاں صاحب کی حکومت رخصت ہو گئی تو محترمہ نے یہ منصوبہ مکمل کرایا۔ میاں صاحب کے داماد کیپٹن صفدر بھی بابا دھنکا کے مریدوں میں شامل تھے۔ غلام مصطفیٰ جتوئی بھی چھڑیاں کھانے جا پہنچے مگر ان کی خواہش پوری ہونے سے پہلے ہی بابا دھنکا دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ 
ہر شخص کو مستقبل کا حال معلوم کرنے کا شوق رہتا ہے۔ اس لئے کوئی روحانی شخصیات کا سہارا لیتا ہے‘ کوئی نجومیوں پر بھروسہ کرتا ہے‘ کوئی ماہرینِ فلکیات پر انحصار کرتا ہے تو کوئی سیاسی تجزیہ نگاروں کی پیشین گوئیوں پر اعتبار کرتا ہے۔ کل کے بارے میں جاننے کا اشتیاق بے یقینی کی کوکھ سے جنم لیتا ہے۔ پرانے زمانے کے بادشاہ فال نکلواتے تھے‘ زائچے بنواتے تھے‘ کاہنوں اور جوتشیوں سے صلاح مشورے کیا کرتے تھے۔ آج بھی کوئی تعویز باندھتا ہے‘ کوئی امام ضامن پر بھروسہ کرتا ہے‘ کوئی اپنے پیر صاحب سے مشورہ کرتا ہے‘ لیکن ہونی ہو کر رہتی ہے۔ بینظیر ہوں یا نواز شریف، انہیں کوئی ایسا پیرِ کامل نہ ملا جو پانچ سال پورے کرنے کا گر بتاتا۔ یوسف رضا گیلانی خود گدی نشین تھے مگر ان کا بوریا بستر لپیٹ دیا گیا۔ ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ سیاستدانوں کے لئے اس ملک میں ایک ہی پیرِ کامل ہے‘ باقی سب ڈھکوسلے ہیں۔ کیسی کمال گدی ہے، ہر تین سال بعد پیرِ کامل بدل جاتا ہے مگر روحانیت و معرفت کے اثرات جوں کے توں رہتے ہیں۔ جو بھی اس گدی کے کشف و کمالات سے انکار کرتا ہے، جلا کر بھسم کر دیا جاتا ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں