"BGC" (space) message & send to 7575

عوامی عدالت کا فیصلہ

اگر ووٹنگ سے تبدیلی لائی جا سکتی تو اسے بھی غیر قانونی قرار دے دیا گیا ہوتا (امریکی مصنفہ ، ایما گولڈمین)
دنیا بھر میں ووٹنگ کا مقصد یہ طے کرنا ہوتا ہے کہ اکثریت کی حمایت کس کے ساتھ ہے۔ رائے دہی کے نتیجے میں کوئی ایک امیدوار جیت سے ہمکنار ہوتا ہے تو باقی امیدوار اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے اس کا حق حاکمیت تسلیم کر لیتے ہیں مگر ہمارے ہاں انتخابات کو ہمیشہ ''نان زیرو سم گیم‘‘ کا درجہ حاصل رہا ہے جس میں کبھی کسی کو شکست نہیں ہوتی اور بیک وقت سب ہی جیت جاتے ہیں۔ الیکشن میں عددی برتری کی بنیاد پر جیتنے والا امیدوار کامیابی کا جشن مناتا ہے تو ہارنے والا بھی یہ کہ کر اِتراتا ہے کہ اسے اخلاقی فتح نصیب ہوئی۔ اخلاقی فتح جیسا ایک اور ڈھکوسلا یہ ہوتا ہے کہ ہمارے مخالفین نے الیکشن میں کامیابی حاصل کی‘ اور ہم عوام کے دل جیتنے میں کامیاب رہے۔ این اے 120 میں بھی کل ملا کر 42 امیدوار تھے اور ان میں سے کلثوم نواز کو چھوڑ کر باقی 41 امیدوار ''دلوں کے ایم این اے‘‘ منتخب ہو چکے ہیں۔ ان میں سے ہر امیدوار کو یقین ہے کہ انتخابات میں دھاندلی نہ ہوتی تو اس کی کامیابی یقینی تھی‘ حتیٰ کہ جماعت اسلامی کے امیدوار ضیاء الدین انصاری‘ جو بھرپور انتخابی مہم چلانے کے باوجود عام انتخابات میں اسی حلقے سے 952 ووٹ لے کر سرخرو ہونے والے سلمان بٹ سے ہار گئے، کا بھی یہی دعویٰ ہے کہ الیکشن میں دھونس اور دھاندلی سے کام لیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے امیدوار فیصل میر کا موقف یہ تھا کہ عام انتخابات میں ان کی جماعت انتخابی مہم نہیں چلا سکی۔ انتقامی کارروائیوں اور مقدمات کے باعث زبیر کاردار اپنے گھر سے ہی نہیں نکل پائے تو ووٹ کیسے ملتے۔ لیکن اس مرتبہ مشعل بردار ریلیاں نکالنے اور گھر گھر مہم چلانے کے باوجود وہ اپنی ہی پارٹی کے سابقہ امیدوار زبیر کاردار سے شکست کھا گئے۔ عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے امیدوار نے 2604 ووٹ حاصل کئے تھے جبکہ اس ضمنی الیکشن میں فیصل میر کو 1414 ووٹ ملے ہیں۔ لیکن ان کا دل بھی یہی کہتا ہو گا کہ انتخابات صاف اور شفاف ہوتے تو پیپلز پارٹی کی سیٹ پکی تھی۔ باقی سب کو چھوڑیں، یہاں نواب امبر شہزادہ جیسے کسی غیر سنجیدہ آزاد امیدوار سے بات کرکے دیکھ لیں، کامل متانت اور سنجیدگی سے یہ جملہ سننے کو ملے گا کہ اگر عوام پر کوئی دبائو نہ ہو اور انہیں اپنا ووٹ آزادی سے کاسٹ کرنے دیا جائے تو وہ سب مخالفین کو چاروں شانے چِت کر ڈالیں۔
شکست خوردہ امیدواروں کی جانب سے دھاندلی کے الزامات تو شاید ہمارے سیاسی کلچر کا حصہ ہیں‘ اور ہمیشہ لگتے رہے ہیں‘ لیکن پہلی مرتبہ این اے 120 سے جیتنے والی جماعت کی طرف سے بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ کلثوم نواز کے معقول مارجن سے جیتنے کے باوجود مسلم لیگ (ن) کی توقعات پوری نہیں ہوئیں۔ میں نے بھی اس حلقے میں ذاتی حیثیت میں کئے گئے سروے کی بنیاد پر یہ لکھا تھا کہ کلثوم نواز اسی ہزار کے لگ بھگ ووٹ حاصل کر پائیں گی‘ لیکن انہیں 61745 ووٹ ملے‘ جبکہ تحریک انصاف کی امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد 47099 ووٹ لینے میں کامیاب ہوئیں۔ بلا شبہ بعض نادیدہ قوتوں کی کوشش یہی تھی کہ مسلم لیگ (ن) یہ نشست ہار جائے اور اگر ایسا ممکن نہ بھی ہو تو کامیابی کا مارجن اتنا ہی ہو جتنے مارجن سے این اے 122 میں سردار ایاز صادق نے عبدالعلیم خان کے مقابلے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اس مقصد کے حصول کے لئے دیگر اقدامات کے علاوہ کچھ امیدواروں کو صرف مسلم لیگ (ن) کا مقابلہ کرنے
کے لئے میدان میں اتارا گیا۔ چونکہ مسلم لیگ (ن) دائیں بازو کا ووٹ حاصل کرتی رہی ہے‘ اس لئے ان جماعتوں کے حمایت یافتہ امیدواروں کے حاصل کردہ ووٹوں نے مسلم لیگ (ن) کے ووٹ بینک پر اچھا خاصا ڈینٹ ڈالا۔ مسلم لیگ (ن) کی توقعات تو یہ تھیں کہ اس مرتبہ کامیابی کا تناسب بڑھے گا‘ اور کلثوم نواز چالیس ہزار کی لیڈ سے جیتنے میں کامیاب ہوں گی‘ مگر زمینی حقائق کی روشنی میں ان خواہشات اور توقعات کا پورا ہونا ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور تھا۔ 2013ء کے عام انتخابات میں ٹرن آئوٹ 51.9 فیصد رہا۔ کاسٹ ہونے والے 151324 ووٹوں میں سے 91666 ووٹ نواز شریف کے حصے میں آئے اور یاسمین راشد نے 52321 ووٹ حاصل کئے۔ یوں نواز شریف کے حاصل کردہ ووٹوں کا تناسب 57 60. رہا جبکہ یاسمین راشد نے 5.23 3 فیصد ووٹ حاصل کئے۔ یوں نواز شریف کی کامیابی کا تناسب 26 فیصد رہا۔ اتوار کو ہونے والے ضمنی الیکشن میں ٹرن آئوٹ 39.42 فیصد رہا۔ 126860 ووٹرز نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ کلثوم نواز کو 61745 ووٹ ملے جبکہ یاسمین راشد نے 47099 ووٹ حاصل کئے۔ یوں کلثوم نواز کے حاصل کردہ ووٹوں کا تناسب تقریباً 49 فیصد‘ جبکہ یاسمین راشد کے حاصل کردہ ووٹوں کا تناسب 37 فیصد رہا۔ یوں جیتنے کا مارجن یا کامیابی کا تناسب عام انتخابات کے مقابلے میں کم رہا۔ اب صورتحال کچھ یوں ہے کہ یاسمین راشد کے ووٹ بینک میں بہت معمولی اضافہ ہوا، مسلم لیگ (ن) کے ووٹ بینک میں قابل ذکر کمی ہوئی جبکہ دو نوزائیدہ جماعتوں کے حمایت یافتہ امیدوار پیپلز پارٹی کو پچھاڑ کر تیسری اور چوتھی پوزیشن پر آ گئے۔ اگر ان دو امیدواروں کے ووٹ مسلم لیگ (ن) کے حاصل کردہ ووٹوں کے ساتھ شامل کر لئے جائیں تو کامیابی کا تناسب وہی رہتا ہے جو عام انتخابات میں تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے ووٹ بینک میں کمی کیوں ہوئی؟ میرا خیال ہے کہ نادیدہ قوتوں کے تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود ''گھر کے بھیدی‘‘ لنکا نہ ڈھاتے تو مسلم لیگ (ن) کامیابی کے تناسب میں با آسانی اضافہ کر سکتی تھی۔ جہاں بیرونی عوامل اثر انداز ہوئے وہاں اندرونی مسائل نے بھی کردار ادا کیا۔ خاندانی اختلافات اور وراثتی جھگڑے بھی اس الیکشن پر اثر انداز ہوئے‘ تاہم کامیابی تو کامیابی ہی ہوتی ہے اور اس کامیابی کا کریڈٹ مریم نواز کو جاتا ہے‘ جنہوں نے انتھک محنت کی اور جن کے سیاسی کیریئر کی یہ پہلی بڑی جیت ہے۔ انہوں نے نہ صرف اپنے سیاسی مخالفین اور نادیدہ قوتوں کو شکست دی ہے بلکہ اپنے خاندان میں بھی یہ بات ثابت کر دی ہے کہ وہ کسی بیساکھی کے بغیر پارٹی کو چلا سکتی ہیں۔
بعض حلقوں کو حالیہ برسوں میں دوسری مرتبہ منہ کی کھانا پڑی ہے۔ قبل ازیں کراچی کے حلقہ این اے 246 میں بھی اسی طرح سب تدبیریں دھری کی دھری رہ گئی تھیں اور اب لاہور کے حلقہ این اے 120 میں بھی ''نظم و نسق‘‘ کو بدترین ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ عوامی عدالت نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ بلا شبہ یہ فیصلہ اتفاق رائے سے نواز شریف کے حق میں نہیں آیا‘ اور بڑی حد تک منقسم فیصلہ ہے‘ لیکن فیصلہ دو، تین کے اختلاف سے بھی آئے تو اس پر عملدرآمد کیا جاتا ہے۔ امریکی مصنفہ ایما نے سچ کہا ہے، اگر ووٹنگ سے تبدیلی لائی جا سکتی تو اسے بھی غیر قانونی قرار دے دیا گیا ہوتا۔ کوئی اپنے منصب سے الگ نہ بھی ہو تو کم از کم اس عوامی عدالت کے فیصلے سے سب کو سبق ضرور حاصل کرنا چاہئے۔

شکست خوردہ امیدواروں کی جانب سے دھاندلی کے الزامات تو شاید ہمارے سیاسی کلچر کا حصہ ہیں‘ اور ہمیشہ لگتے رہے ہیں‘ لیکن پہلی مرتبہ این اے 120 سے جیتنے والی جماعت کی طرف سے بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ کلثوم نواز کے معقول مارجن سے جیتنے کے باوجود مسلم لیگ (ن) کی توقعات پوری نہیں ہوئیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں