جنرل پرویز مشرف جو کچھ کر رہے ہیں اس کا سبب شاید وہ خود بھی نہ بتا سکیں! پاکستان کی فوج تربیت کے حوالے سے دنیا کی بہترین افواج میں شمار ہوتی ہے۔ ہماری سول سروس اس ضمن میں اس کے پاسنگ بھی نہیں۔ایک اور دس کا فرق ہے۔ جرنیل بننے تک فوجی افسر ان گنت تربیتی مراحل سے گزرتا ہے۔ اسے وسیع مطالعہ کرنا پڑتا ہے۔ تقریر اور تحریر میں مہارت حاصل کرنا ہوتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ حالات کا تجزیہ کرنا ہوتا ہے۔ درست ہے کہ اصل میدان تربیت کا عسکری حوالے سے ہے لیکن فیصلہ کرنے سے پہلے سارے پہلوئوں کو جانچنا سکھایا جاتا ہے۔ سول سروس میں اس کے برعکس، اگلے گریڈ میں ترقی کے لازمی کورس کے علاوہ کچھ بھی نہیں! تربیت کے لیے کس نے جانا ہے کس نے نہیں، اس کا کوئی سسٹم ہی نہیں! جن کی پُشت پر ’’مضبوط‘‘ سرپرست ہوتے ہیں وہ بار بار تربیتی کورس حاصل کرتے ہیں اور وہ بھی دساورکے! پنجاب کے ایک سیاستدان بیرون ملک تھے، وہیں خبر ملی کہ بہت بڑے منصب کے لیے چن لیے گئے ہیں۔ سول سرونٹس کی فہرست وہیں منگوائی۔ نام سے مشرب کا علم تو ہو ہی جاتا ہے۔ ایک نام کے اردگرد دائرہ لگایا اور اپنا معاون مقرر کرایا۔ اس کے بعد اللہ دے اور بندہ لے۔ خوش قسمت افسر ائیرپورٹ ہی پر نظر آتا تھا۔ یا برونِ در جاتے ہوئے یا درون خانہ آتے ہوئے! تاہم مسلح افواج میں ایسا نہیں ہوتا اس لیے کہ ترقیوں، تعیناتیوں اور تربیتی کورسوں میں سیاست دان ابھی تک نقب لگانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ سفارش کا عنصر لازماً موجود ہے۔ وہ فرشتے نہیں، اسی معاشرے کا حصہ ہیں لیکن ایسا خال خال ہوتا ہے اور عرب کہتے ہیں الشّاذُ کالمعدوم، جو خال خال ہو وہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ مگر یہ سارے تربیتی مراحل، یہ ساری تپتی بھٹیاں، پرویز مشرف صاحب کا کچھ نہ بگاڑ سکیں۔ پانچ سال باہر رہے۔ ادراک ہی نہ ہو سکا کہ ملک میں کتنی غربت ہے! الیکشن کا ناقوس بجا تو ٹاپوں ٹاپ واپس آئے۔ اب خلق خدا کو محظوظ کرتے پھر رہے ہیں۔ مزے کی بلکہ افسوس کی بات یہ ہے کہ دوسرے سابق جرنیلوں سے عقل مندی میں کوسوں پیچھے ہیں۔ سابق جرنیلوں میں سے عقل مند ترین وہ ہیں جنہیں منظر عام پر آنے کا کوئی شوق نہیں۔ اس کی ایک مثال جنرل احسان الحق ہیں۔ آئی ایس آئی سے لے کر جوائنٹ سٹاف کمیٹی تک چوٹی کے مناصب پر رہے لیکن وردی اتارنے کے بعد کسی کپڑے کو پبلک میں نہ دھویا۔ وزارت نہ سفارت، اخبار میں مضمون نہ ٹاک شو، چند انٹرویو ضرور دیے۔ گُمان غالب یہ ہے کہ جنرل نے خواہش نہیں کی ہو گی۔ جو کم عقل مند تھے اور اس بات کے شائق کہ ان کے چہرہ ہائے گلگوں پر روشنی پڑتی رہے، انہوں نے ایک سبق پلے باندھ لیا کہ سیاست بھاری پتھر ہے، نہیں اٹھے گا۔ کچھ نے اٹھانے کی کوشش کی، چوم کر چھوڑ دیا۔ ہاں، خودنمائی کا شوق خوب پورا کیا اور کر رہے ہیں۔ یہ شوق خدا دشمن کو بھی نہ دے، جسے لاحق ہو جائے، عزت کی پروا کم ہی کرتا ہے۔ جس سابق جرنیل کو ماضی قریب میں سپریم کورٹ نے مجرم قرار دیا اس نے پردہ سیمیں پر آکر کیسے کیسے گل کھلائے۔ ٹیپ کا بند ہی عجیب و غریب تھا ’’میں بتا رہا ہوں، میں بتا رہا ہوں‘‘ اور تاثر دیا کہ عساکر سارے کے سارے کٹ مرنے کو تیار ہیں۔ اس سے کچھ عرصہ قبل روزنامہ دنیا یہ حقیقت ریکارڈ پر لا چکا تھا کہ موصوف نے اپنی این جی او کے لیے کہاں سے کتنی رقم کس طرح حاصل کی۔ پرویز مشرف ان سب سے کم سمجھ دارثابت ہوئے۔ ابھی تک تکبر کی اسی فضا میں رہ رہے ہیں جو ایام اقتدار میں طاری تھی۔ ان کے مائنڈسیٹ کا کچھ کچھ اندازہ اس کتاب سے ہوتا ہے جو انہوں نے ٹھیکے پر لکھوائی اور جو اب فٹ پاتھوں پر ایوب خان کی ’’ فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ کے ہمراہ یہ شعر پڑھتی دکھائی دتی ہے ؎ آ عندلیب! مل کے کریں آہ و زاریاں تو ہائے گُل پکار میں چلاّئوں ہائے دل لکھتے ہیں کہ کراچی کے فریئر ہال پارک میں کوئی شریف آدمی بیٹھا تھا کہ ان کے انکل پیچھے سے بار بار ان صاحب کے سر پر زور سے چانٹا رسید کرتے تھے اور پھر معافی مانگنے لگ جاتے تھے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اٹھان کس ماحول میں ہوئی، اخلاقیات کا تصور کیا ہے! بہرطور کیا عجب! اسمبلی میں پہنچ جائیں اور ڈاکخانے یا لوک ورثہ قسم کے محکمے کے وزیر مملکت لگ جائیں۔ امکانات کی کوئی حد تو نہیں! تاہم پرویز مشرف کی واپسی سے زیادہ حیرت انگیز وہ خاموشی ہے جو اس ضمن میں کچھ حلقوں پر طاری ہو گئی ہے۔ کہاں تو وہ عالم کے پانچ سال تک جنرل صاحب کو مسلسل بے نقط سناتے رہے اور کہاں یہ حال کہ مُہر بہ لب ہو گئے ہیں۔ یہ وہی حلقے ہیں جو جرنیل کی کثیر باقیات کو ’’جیسے ہیں جہاں ہیں‘‘ کی بنیاد پر قبول کر چکے ہیں۔ پرویز مشرف خوش ذوق ہوتے تو ان حلقوں کو مخاطب کرکے کہتے: ؎ کبھو جائے گی جو اُدھر صبا تو یہ کہیو اُس سے کہ بے وفا مگر ایک میرِؔ شکستہ پا ترے باغِ تازہ میں خار تھا ان حلقوں کا بھی کیا کہنا! یہ حلقے قوم کے حلقوم پرپائوں رکھ کر حکومت سے اترنے کے بعد بھی وہی کچھ کر رہے ہیں جو پہلے کر رہے تھے۔ آج کے اخبارات سامنے کھلے ہیں، انسان دانتوں میں انگلیاں دبا لیتا ہے کہ اس ملک کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ لاہور ایلیٹ پولیس کے 967 ارکان میں سے 665 ارکان رات دن خادمانِ عوام کی حفاظت کر رہے ہیں۔ ایک اجمالی تفصیل یوں دکھائی دے رہی ہے (اور یہ گزشتہ پانچ سال سے ہو رہا ہے) میاں نواز شریف:ایک سو پولیس مین، آٹھ گاڑیاں۔ میاں شہباز شریف: پچانوے پولیس مین، آٹھ گاڑیاں۔ مریم نواز، کیپٹن صفدر: بارہ محافظ۔ حمزہ شہباز: پندرہ محافظ۔ سلمان شہباز: سات محافظ۔ نصرت شہباز (میاں شہباز شریف کی پہلی بیگم): بارہ محافظ۔ تہمینہ شہباز (دوسری بیگم): تیس محافظ۔ شہباز شریف کی صاحبزادی: سات محافظ۔ سردار ذوالفقار کھوسہ: دس محافظ۔ دوست محمد کھوسہ: سات محافظ۔ طلحہ برکی (سابق سیکرٹری شہباز شریف): آٹھ محافظ۔ توقیر شاہ (سابق سیکرٹری شہباز شریف) : چار محافظ۔ خواجہ محمد شریف (سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ): چار محافظ۔ یوسف رضا گیلانی: انیس محافظ۔ سلمان تاثیر فیملی: تیرہ محافظ۔ چودھری شجاعت حسین: سترہ محافظ۔ چودھری پرویزالٰہی: آٹھ محافظ۔ مونس الٰہی: چھ محافظ۔ رہا پورا لاہور شہر اور اس کے باشندے تو ان کے لیے ایک سو پولیس مین بچتے ہیں۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ قانون سابق وزیر اعظم کو بارہ محافظوں اور سابق وزیر اعلیٰ کو آٹھ کی اجازت دیتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو صرف چودھری پرویز الٰہی کے ساتھ مامور آٹھ محافظ قانون کے مطابق ہیں! لیگ آف نیشنز بنی تو ا قبال نے کہا تھا ع بہرِ تقسیمِ قبور انجمنے ساختہ اند اقبال کو کیا خبر تھی کہ قبریں کہاں کہاں تقسیم ہوں گی!