صحرا تھا اور طویل سفر۔ دور ایک سایہ سا نظر آیا۔ عبداللہ بن مبارکؒ نے قریب جا کر دیکھا تو وہ ایک بوڑھی عورت تھی۔ انہوں نے السلام علیکم کہا۔ بڑھیا نے سلام کے جواب میں قرآنی آیت پڑھی۔ ’’سلام’‘ قولاً من رب الرحیم۔‘‘پوچھا یہاں کیا کررہی ہو۔ جواب میں اس نے ایک اور آیت پڑھی۔ جسے اللہ گمراہ کر دے اس کا کوئی رہنما نہیں (اعراف) ۔وہ سمجھ گئے راستہ بھول گئی ہے۔ پوچھا کہاں جانا ہے۔ بولی: پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات کے وقت مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ لے گئی۔ (اسریٰ)۔ عبداللہ بن مبارکؒ سمجھ گئے کہ وہ حج کرکے آرہی ہے اور بیت المقدس جانا چاہتی ہے۔ پوچھا کب سے یہاں بیٹھی ہو؟ اب اس نے ایک اور آیت پڑھی: پوری تین راتیں (مریم) کھانے کا کیا انتظام ہے؟ وہی کھلاتا پلاتا ہے (الشعرا) وضو کیسے کرتی ہو؟ پانی نہ پائو تو پاک مٹی سے تیمم کرلو (النساء) کھانا پیش کروں؟ پھر رات تک روزے کو پورا کرو (البقرہ) مگر آج کل رمضان تو نہیں۔ پھر روزہ کیسا؟ جو بھلائی کے ساتھ نفلی عبادت کرے تو اللہ قدر دان اور جاننے والا ہے۔ (البقرہ) سفر کی حالت میں نفلی روزہ ضروری نہیں۔ تم چھوڑ سکتی تھیں۔ اگر تم روزہ رکھو تو تمہارے لیے بہتر ہے۔ اگر تم سمجھو تو (البقرہ) تم نارمل گفتگو کیوں نہیں کرتیں؟ انسان جو بات بھی کرتا ہے اس کے لیے ایک نگہبان فرشتہ مقرر ہے۔ (ق) تمہارا کس قبیلے سے تعلق ہے؟ جس بات کا تمہیں علم نہیں‘ اس کے پیچھے نہ پڑو۔ کان، آنکھ اور دل ہر ایک کے بارے میں پوچھا جائے گا (الاسریٰ) مجھ سے غلطی ہوگئی۔ معافی کا خواستگار ہوں۔ آج تم پر کوئی ملامت نہیں۔ اللہ تمہیں معاف کرے (یوسف) تم میری اونٹنی پر سوار ہوسکتی ہو۔ تم جو بھلائی بھی کرتے ہو اللہ اسے جانتا ہے۔ (البقرہ) عبداللہ بن مبارک نے اپنی اونٹنی کو بٹھایا تاکہ وہ سوار ہوسکے ۔ مگر اس نے ایک اور آیت پڑھی۔ ’’مومنین سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچے رکھیں۔(النور) انہوں نے نگاہیں جھکا لیں مگر اونٹنی بدک گئی اوربھاگ پڑی۔ اس کشمکش میں بڑھیا کے کپڑے پھٹ گئے۔ اس پر اس نے کہا۔ تمہیں جو مصیبت بھی پہنچتی ہے وہ تمہارے اعمال کی وجہ سے ہے۔ (الشوریٰ) انہوں نے کہا کہ میں اونٹنی کو باندھ دیتا ہوں۔ وہ بولی ’’ہم نے اس مسئلے کا حل سلیمان کو سمجھا دیا۔ (الانبیا)‘‘ اونٹنی کو انہوں نے باندھا اور وہ سوار ہوئی۔ سوار ہوتے وقت دعا مانگی ’’پاک ہے وہ ذات جس نے اسے ہمارے لیے مسخر کیا اور ہم اسے کرنے والے نہیں تھے۔ (الزخرف)‘‘ عبداللہ بن مبارک نے مہار پکڑی اور چل پڑے۔ وہ تیز تیز دوڑتے جارہے تھے اور چیخ کر اونٹنی کو ہانک رہے تھے۔ بڑھیا نے آیت پڑھی۔ ’’اپنے چلنے میں اعتدال سے کام لو اور اپنی آواز پست رکھو (لقمان)‘‘ وہ آہستہ ہوگئے اور وقت گزارنے کے لیے ترنم سے اشعار وغیرہ پڑھنے لگے۔ اس پر بڑھیا نے کہا۔ قرآن سے جتنا حصہ آسانی سے پڑھ سکتے ہو پڑھو (المزمل) کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد عبداللہ بن مبارک نے اس کے شوہر کے بارے میں پوچھا۔ اس پر اس نے یہ آیت پڑھی: اے ایمان والو ‘ایسی چیزوں کے بارے میں مت پوچھ جو اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں بری لگیں۔ (مائدہ) وہ چلتے گئے یہاں تک کہ انہوں نے اس قافلے کو جا لیا جس سے وہ بچھڑی تھی۔ عبداللہ نے پوچھا اس قافلے میں تمہارا کون ہے؟ جواب میں اس نے یہ آیت پڑھی: مال اور بیٹے دنیاوی زندگی کی زینت ہیں۔ (الکہف) وہ سمجھ گئے کہ یہاں اس کے بیٹے ہیں۔ پوچھا وہ قافلے میں کیا کرتے ہیں۔ کہا: اور علامتوں اور ستاروں ہی سے وہ راستہ معلوم کرتے ہیں۔ (النحل)، وہ جان گئے کہ اس کے بیٹے گائیڈ ہیں۔ اب انہوں نے بیٹوں کے نام پوچھے۔ جواب میں اس نے مختلف آیات کے تین حصے پڑھے ۔ اللہ نے ابراہیم کو خالص دوست بنا لیا (النساء)،اور اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا۔ (النسا) اے یحییٰ کتاب کو مضبوطی سے تھام لو (مریم) عبداللہ نے ابراہیم موسیٰ اور یحییٰ کے نام سے پکارا تو خاتون کے تینوں فرزند آ موجود ہوئے۔ سب بیٹھ گئے۔ پھر بڑھیا نے بیٹوں کو مخاطب کرکے یہ آیت پڑھی۔ اب کسی کو یہ روپیہ دے کر شہر کی طرف بھیجو وہ دیکھے کہ کون سا کھانا زیادہ پاکیزہ ہے۔ پھر اس میں سے کچھ لے آئے (الکہف)، چنانچہ ایک بیٹا گیا اور کھانا لے آیا۔ کھانا سامنے رکھا گیا تو اس نے کہا۔ مزے سے کھائو اورپیو یہ ان کا بدلہ ہے جو تم نے پچھلے دنوں کیا (الحاقہ) پوچھنے پر بیٹوں نے بتایا کہ ان کی ماں نے چالیس برس سے قرآنی آیات کے علاوہ کوئی جملہ نہیں بولا تاکہ زبان سے کوئی ایسی بات نہ نکل جائے جس پر گرفت ہو۔ یہ ایک مشکل اور نادر کام تھا جو اس پارسا خاتون نے کیا۔ ہم اس طرح نہیں کرسکتے نہ ہی اس کا حکم ہے۔ اس لیے کہ یہ تقویٰ ہے۔ فتویٰ نہیں، لیکن ہم تو دوسری انتہا پر ہیں۔ قرآن پاک سے ہمارا تعلق محض اتنا ہی ہے کہ بچپن میں مولوی صاحب سے اس کی ٹیوشن پڑھیں۔ پھر کسی کی موت پر ایک دو پارے پڑھ لیں اور بہت تیر ماریں تو ایک ختم رمضان میں کرلیں۔ قرآن پاک کو سمجھنا اور سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہونا اسلام کا بنیادی تقاضا ہے۔ اس مضحکہ خیز صورتحال کا تصور کیجیے جس میں ہر شخص اسلام کا نعرہ لگا رہا ہے۔ اسلام کے نام پر ان گنت تنظیمیں‘ جماعتیں، گروہ، وجود میں آرہے ہیں جو باہم دست و گریبان ہیں۔ کوئی اسلامی نظام کا نعرہ لگا رہا ہے۔ کوئی لال قلعہ سے لے کر وائٹ ہائوس تک پر قبضہ کرنے کا اعلان کررہا ہے۔ گاڑیوں کے پچھلے شیشوں پر اور دکانوں کی پیشانیوں پر سب نے اپنے اپنے عقیدے لکھ رکھے ہیں لیکن اٹھانوے فیصد کو معلوم ہی نہیں کہ قرآن پاک میں لکھا کیا ہے۔ قرآن پاک تو دور کی بات ہے پانچ وقت نماز پڑھنے والوں کو یہی نہیں معلوم کہ جو کچھ وہ پڑھ رہے ہیں اس کا مطلب کیا ہے۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ بھاری اکثریت ہر نماز‘ ہر رکعت میں سورہ اخلاص پڑھ رہی ہے حالانکہ رسول پاکؐ نے سوائے جمعہ اور عید کے، عام فرض نمازوں میں کوئی ایک یا چند متعین سورتیں نہیں پڑھیں۔ عمرو بن شعیب اپنے والد اور پھر دادا کے توسط سے روایت کرتے ہیں کہ بڑی یا چھوٹی کوئی سورت ایسی نہیں جسے میں نے نبیؐ کو فرض نمازوں میں پڑھتے نہ سُنا ہو۔ آج یہ ڈیوٹی صرف نماز پڑھانے والے امام کی ہے کہ وہ مختلف سورتیں پڑھے۔ اس صورتحال کا عملی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مسلمانوں میں بالعموم اور اہل پاکستان میں بالخصوص ایک طبقہ پیدا ہوگیا ہے جو قرآن کے معانی اور مفاہیم کو سمجھ سکتا ہے اور عام مسلمان اس طبقے کا محتاج ہو کر رہ گیا ہے۔ آپ نماز جمعہ سے پہلے کی جانے والی تقریر کی مثال لے لیجیے۔ خطیب صاحب کے سامنے جو نمازی بیٹھے ہوتے ہیں ان کی بھاری اکثریت کو بالکل معلوم نہیں کہ جو آیات پڑھی گئی ہیں ان کا معنی مولوی صاحب درست بتا رہے ہیں یا اپنے مطلب کا اضافہ کررہے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ خطیب حضرات ایسا کرتے ہیں۔ ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ کہ اگر وہ ایسا کریں تو سامنے بیٹھے ہوئے دو پایوں کو معلوم ہی نہ ہو۔ قرآن پاک مدارس اور مدارس میں پڑھنے پڑھانے والوں کی اجارہ داری میں مقید ہو کر رہ گیا ہے۔ اس کا الزام مدارس اور اہل مدرسہ پر ڈالنا قطعی ناروا ہے۔ آپ اپنے بچوں کو اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں میں بھیج سکتے ہیں۔ لاکھوں روپے خرچ کرکے بیرون ملک یونیورسٹیوں میں تعلیم دلوا سکتے ہیں لیکن اس کو اتنی عربی نہیں پڑھوا سکتے ہیں کہ وہ قرآن پاک کو سمجھ سکے اور کسی سے اس ضمن میں دھوکہ نہ کھائے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ لوگ عام گفتگو میں قرآن پاک کی آیات کا حوالہ دیتے اور اسی کی آیات کے حصے ضرب الامثال کی صورت اختیار کرتے لیکن اسلام کے اس قلعہ میں اٹھانوے، ننانوے فیصد مسلمان کتاب اللہ کے معانی و مفاہیم سے یکسر بے بہرہ ہیں۔ پھر بدقسمتی سے ایسے گروہ بھی پھر رہے ہیں جو لوگوں کو باور کراتے پھرتے ہیں کہ قرآن سمجھنا صرف علما کا کام ہے اور تم صرف تسبیحات اور وظائف پر گزارہ کرو۔ اگر ایسا ہوتا تو خدا کی کتاب میں بار بار یہ نہ کہا جاتا۔ ’’ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان ذریعہ بنا دیا ہے‘‘ کہیں یہ بتایا ’’اے نبی ،ہم نے اس کتاب کو تمہاری زبان پر سہل بنا دیا ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں‘‘ (الدخان) قرآن میں یہود اور نصاریٰ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے علما اوردرویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے۔ (التوبہ)، حضرت عدیؓ بن حاتم جب عیسائی سے مسلمان بنے تو اللہ کے رسولؐ سے پوچھا کہ رب بنانے سے کیا مطلب ہے۔ آپؐ نے فرمایا جو کچھ یہ لوگ حرام قرار دیتے ہیں اسے تم حرام مان لیتے ہو اور جسے حلال کہتے ہیں تم حلال مان لیتے ہو۔ حضرت عدیؓ نے عرض کیا ایسا تو ہے۔ فرمایا بس یہی ان کو خدا بنا لینا ہے!! کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم بھی اپنے علما اور درویشوں کو رب بنا بیٹھے ہیں؟ اللہ کے بندو! اپنے بچوں کو قرآن کے معانی سے براہ راست آگاہ کرنے کا انتظام کرو تاکہ وہ ان لوگوں سے بچ سکیں جو اسے اپنی اجارہ داری بنائے بیٹھے ہیں۔