غلام احمد بلور نے متانت اور شرافت کی ایک قابل تحسین مثال قائم کی۔ شکست کو تسلیم کیا اور خندہ پیشانی سے تسلیم کیا۔ اگر وہ دھاندلی کا الزام لگاتے تو ان کے وقارمیں کمی تو آسکتی تھی، اضافہ نہ ہوتا۔ حقائق کو تسلیم کرناچاہیے ، نون لیگ نے مرکز اور پنجاب میں میدان مار لیا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ تحریک انصاف کو یہ حقیقت تسلیم کرکے مستقبل کی طرف دیکھنا ہوگا۔ اب تک جو نتائج سامنے آئے ہیں، ان کا سرسری مطالعہ بھی کیا جائے تو تین منظر صاف نظر آرہے ہیں:اول۔ مسلم لیگ نون نے اس اصول پر پوری طرح عمل کیا کہ محبت اور جنگ میں سب کچھ رواہے۔ اس نے ٹکٹ دیتے وقت امیدواروں کا ماضی دیکھا نہ حال۔ دیانت دیکھی نہ شہرت۔ اس نے صرف ایک پہلو سامنے رکھا اور وہ یہ کہ کیا اس امیدوار کے جیتنے کا امکان روشن ہے ؟ گوجر خان سے راجہ جاوید اخلاص کی مثال لے لیجیے۔ نون لیگ کے کارکنوں نے بہت شور مچایا۔ راجہ صاحب کی وہ تصویریں بار بار شائع کیں جن میں وہ پرویز مشرف کے ساتھ کھڑے تھے۔ نون لیگ کے وفاداروں کی قربانیاں گنوائیں لیکن ٹکٹ راجہ جاوید اخلاص ہی کو ملا۔ دوسرے لفظوں میں یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ نون لیگ کے ٹکٹ پر جیتنے والے بہت سے ELECTABLES نون لیگ کا ٹکٹ نہ حاصل کر پاتے، تب بھی جیت جاتے۔ پنڈی گھیب، جنڈ،کھنڈہ سے ملک اعتبار خان نے جیتنا ہی جیتنا تھا۔ گوجر خان سے راجہ جاویداخلاص جس پارٹی کا ٹکٹ لیتے، جیت جاتے۔ ملتان سے ملک سکندر بوسن ہرصورت میں جیتتے اور غالباً ہری پور سے عمرایوب خان کی نشست بھی ہرحال میں یقینی تھی ۔ ایسی کئی مثالیں ہیں۔ برادریوں اور سماجی مجبوریوں کو ختم ہونے میں ایک عرصہ لگے گا!اس طریق سیاست کو حکمت کا نام بھی دیا جاسکتا ہے اور اصول شکنی کا بھی ! اسی حکمت یا اس اصول شکنی میں نون لیگ اس حدتک گئی کہ انجم عقیل جیسے مشہور ملزموں کو بھی اپنی آغوش میں لے لیا۔ اسلام آباد کے جلسہ میں انجم عقیل کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر بڑے میاں صاحب نے ویل ڈن انجم عقیل کہا۔ یہ اور بات کہ وہ ہار گئے۔ دوم ۔ جو صوبہ پنجاب کی نسبت زیادہ دقیانوسی اور زیادہ روایت پسند سمجھا جاتا تھا، وہ نئے پاکستان کی جدوجہد میں پنجاب کو کہیں پیچھے چھوڑ گیا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ برادریوں کا بندھن پنجاب میں کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ ذات پات کے پیچیدہ جال میں پنجاب بری طرح پھنسا ہوا ہے۔ خاص طورپر جاٹ، ارائیں اور کشمیری ذاتیں اعصاب پر سوار ہیں۔ ذات پات کے سامنے کوئی نظر یہ،کوئی فلسفہ حیات کوئی میرٹ وقعت نہیں رکھتا، یہاں تک کہ پنجاب کے اعلیٰ تعلیم یافتہ خاندان بھی رشتے کرتے وقت ذات پات کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں۔ اعجاز الحق کی مثال لے لیجیے۔ بہاولپور کے ایک دورافتادہ گوشے کے سوا انہیں کوئی جائے پناہ نہ مل سکی۔ صرف اس لیے کہ وہاں ارائیں برادری کا زور ہے۔ تحریک انصاف ذات پات کے اس جال کو توڑنے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکی۔ اس الیکشن کے نتائج دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ خیبر پختون خواہ نے برادریوں کے علائق کو بالائے طاق رکھ کر نظریے کو ووٹ دیے ہیں۔ روایت پسند پختونوں نے ثابت کردیا ہے کہ وہ روایات کہن کو توڑ سکتے ہیں۔ جس کسی نے کہا ہے سچ کہا ہے کہ نئے پاکستان کا چاند سب سے پہلے خیبر پختونخوا میں طلوع ہوا ہے۔ وہ جو اقبال نے کہا تھا کہ ع گنبد نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا، تو رنگ یوں بدلا ہے کہ جوکچھ اقبال نے پختونوں کے بارے میں شیرشاہ سوری کی زبان میں کہا تھا، آج پنجاب پرصادق آرہا ہے ؎ یہ نکتہ خوب کہا شیرشاہ سوری نے کہ امتیازِ قبائل تمام تر خواری عزیز ہے انہیں نام وزیری و محسود ابھی یہ خلعت افغانیت سے ہیں عاری ہزار پارہ ہے کہسار کی مسلمانی کہ ہر قبیلہ ہے اپنے بتوں کا زناری لیکن وہ دن دور نہیں جب پنجاب بھی ذات پات کے فرسودہ نظام سے باہر نکل کر کھلی ہوا میں سانس لے گا۔ سوم۔ نگاہ ہوش سے یہ حقیقت اوجھل نہیں ہونی چاہیے کہ بہرحال اس الیکشن کے نتائج میں POLARISATION خطرناک حدتک مضمر ہے۔ پنجاب کے باہر کا تو ذکر ہی کیا، پنجاب کے اندر بھی یہ کھیل وسطی پنجاب کا نظر آتا ہے۔ قومی سطح کے ایک معروف اخبار کی یہ سرخی جو پہلے صفحہ پر نظر آرہی ہے قابل غور ہے:۔’’ن لیگ کا لاہور ،فیصل آباد ،گوجرانوالہ سمیت چھ شہروں میں کلین سویپ۔ سیالکوٹ، قصور اور شیخوپورہ میں بھی ن لیگ کے امیدوار تمام نشستوں پر کامیاب‘‘ ان صفحات کے قارئین گواہ ہیں کہ اس کالم نگار نے کئی بار نشان دہی کی ہے کہ نون لیگ جوہری طورپر وسطی پنجاب کی ہوکر رہ گئی ہے۔ اس کی کورکمیٹی یاکچن کیبنٹ میں تقریباً تمام اصحاب ایک ہی علاقہ سے ہیں۔ تاریخ کے دھارے کو روکنا تو درکنار، موڑنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ جنوبی پنجاب کا صوبہ تو اب ایک حقیقت کی شکل اختیار کررہا ہے۔ پنجاب کے مغربی اضلاع کو بھی ترقی اور خوشحالی کے لیے وسطی پنجاب کے اقتدار سے باہر نکلنا ہوگا۔ پنجاب سے باہر صورت حال اور بھی زیادہ غیراطمینان بخش ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ نون لیگ صرف پنجاب ہی کے اندر ہے، تو غلط نہ ہوگا۔ اس ضمن میں الطاف حسین کا بیان بظاہر کتنا ہی تلخ لگے، دراصل حقیقت پر مبنی ہے۔ الطاف حسین نے نون لیگ کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ۔ ’’صوبہ پنجاب سے پنجابیوں کی نمائندہ جماعت 2013ء کے الیکشن میں کامیاب ہوئی ہے اور میاں نوازشریف پنجابیوں کے مستند لیڈر قرار پائے ہیں۔‘‘ الطاف حسین نے اس امید کا بھی اظہار کیا ہے کہ ’’وہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے رہنما کی حیثیت سے باقی ماندہ تین صوبوں کے غیرپنجابی عوام کے ساتھ بھی انصاف ، دیانت داری اور برابری کا سلوک کریں گے۔‘‘ اس الیکشن کے نتائج نے دونوں بڑی پارٹیوں نون لیگ اور تحریک انصاف کو آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ نون لیگ کی آزمائش یہ ہے کہ کیا وہ اس مائنڈ سیٹ سے باہر نکل سکے گی جس میں مسلح افواج کا سربراہ بھی ایک مخصوص برادری ہی سے چنا جاتا ہے۔ نون لیگ کو یہ حقیقت نہیں بھولنی چاہیے کہ 1999ء میں جب اس کے اقتدار کا خاتمہ کیا گیا تو کسی آنکھ میں نمی نہیں تھی۔ اس زمانے کے اخبارات گواہ ہیں کہ ساری کلیدی اسامیوں پر ایک مخصوص شہر اور ایک مخصوص برادری کا غلبہ تھا۔ اسے ثابت کرنا ہوگا کہ فیصل آباد اور سیالکوٹ کے درمیان جو تنگ کاریڈور ہے، وہ اس سے باہر بھی نکل سکتی ہے! اگر وہ اس چھاپ کو اپنے اوپر سے ہٹاسکے تو اس کا مستقبل روشن تر ہوگا! تحریک انصاف کو خیبرپختونخوا میں حاصل ہونے والی ظفریابی کو آزمائش سمجھنا چاہیے، اب اسے ایک تجربہ گاہ مل گئی ہے جہاں وہ اپنے منصوبوں پر عمل پیرا ہوسکتی ہے اور وعدوں کو وفا کرسکتی ہے۔ لیکن اسے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ خیبر پختونخوا میں عجلت نقصان پہنچا سکتی ہے۔ سید احمد شہید بریلوی کی تحریک مجاہدین کو اسی عجلت نے اس حسّاس علاقے میں ناکام کیا تھا۔ گم شدہ شاعر شبیر شاہد نے کیا خوب نصیحت کی تھی ؎ ہن برسے گا، سدا برسے گا، ذرا سہج چُنو چنو سہج کہ بادل ہے دہرا، ذرا سہج چُنو کوئی کانٹا دیکھو روح میں رہ جائے نہ کہیں چُنو دھیرج میں، چُنو سہج ذرا،ذرا سہج چُنو