مژدہ اے اہل وطن!جس انقلاب کی نوید دی جارہی تھی اس کا آغاز ہوچکا ہے! اُجالا گھٹا ٹوپ اندھیرے میں نقب لگا کر سامنے آرہا ہے۔ سپیدۂ سحر افق سے ظاہر ہوا ہی چاہتا ہے۔ سیاہ رات کٹ چکی ہے۔ ا ے اہل وطن! تمہاری سرزمین بہشت بننے کے بالکل قریب ہے۔ کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ آسمانی پرندے درختوں پر اترنا شروع ہوچکے ہیں۔ کیا تمہیں ہوا سے ایک خاص قسم کی بو باس نہیں آرہی؟ کیا شگوفے چٹخ نہیں رہے؟ یہ جو تمہیں ہر طرف سے عطر کی لپٹیں آرہی ہیں، تم انہیں محسوس کیوں نہیں کررہے؟ اے اہلِ وطن! تم گواہ ہو کہ میں ایک عرصہ سے تمہاری خدمت میں لگا ہوا ہوں۔ کسر تو میں نے پہلے بھی کوئی نہیں چھوڑی لیکن اس الیکشن کے بعد تو میں خدمت کے لیے حد سے زیادہ سنجیدہ ہوں۔ وزارتیں اور کمیٹیاں ہمیشہ سے میری کنیزیں رہی ہیں لیکن اب کے میں نے ایک صوبے کی سربراہی پر بھی انگشت شہادت رکھی ہے! میں نے کشمیر کمیٹی کی سربراہی اپنی دسترس ہی میں رہنے دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایک مدت سے کشمیر کمیٹی کا سربراہ ہوں اور اہل وطن گواہ ہیں کہ اس عرصہ میں کئی مرتبہ کشمیر کو آزاد کرایا ہے۔ کشمیر کی جنگ آزادی میں جو جو بھی بوڑھے‘ بچے اور عورتیں شہید ہوچکی ہیں ،جو گھر نذر آتش ہوچکے ہیں اور جو بستیاں نیست و نابود ہوچکی ہیں‘ ان کی تباہی کی یاد دلوں میں ہمیشہ زندہ رکھنے کے لیے کسی نہ کسی نے توکشمیر کمیٹی کا صدر رہنا ہے۔ کچھ عقل کے اندھے سوچتے ہیں کہ آخر کشمیر اور کشمیر کی جدوجہد آزادی سے میرا کیا تعلق ہے۔ انہیں معلوم نہیں کہ میں ایک طویل عرصہ بندوق بدست کشمیر کے پہاڑوں میں جہاد کرتا رہا ہوں۔ کئی بار شہید ہوتے ہوتے بچا۔ زخمی تو بارہا ہوا۔ یہ جو میری اندر کی آنکھ نہیں ہے تو یہ اسی جنگ میں ختم ہوئی۔ کچھ احمق اس سوچ میں ہیں کہ گزشتہ کئی برسوں کے دوران اس عہدے کی سربراہی کی مد میں مَیں نے قومی خزانے سے جتنی گاڑیاں، جتنی افرادی قوت‘ جتنا تیل اور کل جتنا روپیہ خرچ کیا ہے، قوم کے سامنے اس کے اعداد و شمار آنے چاہئیں لیکن ان بے وقوفوں کو معلوم نہیں کہ یہ سب کچھ سامنے آنے سے کشمیر کی جدوجہد آزادی کو کتنا دھچکا لگے گا؟ زندہ قومیں اپنے ہیروز کو سر آنکھوں پر بٹھاتی ہیں‘ ان سے حساب نہیں مانگتیں۔ میں اس قوم کا ہیرو ہوں۔ قوم کو اگر نہیں معلوم تو میں اسے اس بارے میں بتانا چاہتا ہوں۔ کشمیر کو آزاد کرانے کے ساتھ ساتھ میں جونا گڑھ اور حیدر آباد کو بھی بھارت کے قبضے سے چھڑانا چاہتا ہوں۔ اس لیے میرا مطالبہ یہ بھی ہے کہ فی الفور ایک حیدر آباد دکن کمیٹی اور ایک جونا گڑھ کمیٹی تشکیل دی جائے اور ان کے سربراہوں کو بھی اسی طرح وفاقی وزیر کا درجہ اور مراعات دی جائیں جس طرح کشمیر کمیٹی کے سربراہ کو دی جاتی ہیں۔ میں قوم کو یقین دلاتا ہوں کہ ان نئی کمیٹیوں کی سربراہی کے لیے میرے پاس مناسب تن و توش کے افراد موجود ہیں! ہم کسی مرحلے پر بھی قوم کو مایوس نہیں کریں گے۔ میں اہل وطن کو یہ بتانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ جو میں نے مخصوص وفاقی وزارتیں مانگی ہیں تو یہ بے سبب نہیں! اب جب انقلاب وطن کے دروازے پر دستک دے ہی رہا ہے تو اس کے استقبال کے لیے ہمیں‘ یعنی میری جماعت کو تیاری کرنا ہے۔ ایک تو میں نے وزارت مذہبی امور کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ تو ظاہرہے یہ ہے کہ میں عالم دین ہوں اور پھر ایک مذہبی جماعت کا سربراہ ہوں تو یہ وزارت اس لحاظ سے میری جاگیر بنتی ہے۔ آخر مولانا حامد سعید کاظمی میں کون سی ایسی اہلیت تھی جو مجھ میں نہیں! مجھے تو ان کا سوچ کر ہنسی آتی ہے۔ ایسے حضرات میرے سامنے طفل مکتب سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتے۔ رہا میرا دوسرا مطالبہ‘ وزارت تعمیرات و ہائوسنگ کا تو اس میں بھی عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں یہ وزارت میری پارٹی کے پاس رہی ہے اور اہل وطن گواہ ہیں کہ ہم نے اسے مثالی انداز میں چلا یا اور یوں چلایا کہ ایک پل بھی رکنے نہیں دیا۔ اس زمانے میں تعمیرات کا کام دن رات ہوتا تھا اور مکان تو اتنے زیادہ تھے کہ ہم چابیوں کے گچھے اونٹوں کے کجاووں پر لاد کر آوازیں لگاتے پھرتے تھے کہ ہے کوئی بے گھر جسے مکان درکار ہو! پھر یہ بھی ہے کہ چونکہ ہمارا انجینئرنگ، ٹائون پلاننگ اور تعمیراتی کام کا وسیع تجربہ ہے تو اس وزارت کا ہم سے زیادہ کون سزاوار ہوسکتا ہے؟ صوبہ خیبرپختونخوا کی گورنری بھی لگے ہاتھوں مانگی ہے۔ کیا اہل وطن اس حسن طلب سے محظوظ نہیں ہورہے؟ اور کیا میرے کاروباری ذوق پر عش عش نہیں کررہے؟ سب جانتے ہیں کہ مجھے دنیا سے لگائو ہے نہ دنیا کے دھندوں سے‘ میرا واحد مقصد تو خدمت دین اور خدمت وطن ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ ایک نو آموز سیاسی پارٹی خیبرپختونخوا میں حکومت بنا رہی ہے۔ اس جماعت کو سیاست کے اسرار و رموز سکھانے کے لیے ضروری ہے کہ اوپر گورنر میری جماعت کا ہو تا کہ حکومت بنانے والی پارٹی کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ حاشا وکلا‘ اس کے علاوہ اور کوئی مقصد اس مطالبے کے پیچھے نہیں۔ع رُوئے سخن کسی کی طرف ہو تو رُوسیاہ! اس موقع پر اہل وطن کو دشمنان دین و وطن سے ہوشیار رہنے کی تلقین بھی کرنا چاہتا ہوں۔ کچھ عرصہ پہلے وکی لیکس کے ذریعے عجیب و غریب خبریں پھیلائی گئیں کہ میں نے امریکی سفیر سے وزیراعظم بنانے کی فرمائش کی ہے۔ اس موقع پر میں ملّا نصیرالدین کا لطیفہ بھی سنانا پسند کروں گا۔ ملّا نے کسی سے گلدان مانگا۔ واپس کیا تو ٹوٹا ہوا تھا۔ گلدان کے مالک نے شکایت کی تو ملّا صاحب نے کہا کہ اول تو میں نے گلدان مانگا ہی نہیں تھا۔ اگر مانگا تھا تو تم نے دیا ہی نہیں۔ اگر دیا تھا تو میں نے لیا ہی نہیں‘ اگر لیا بھی تھا تو ٹوٹا نہیں۔ امریکی سفیر سے اول تو میں ملا ہی نہ ہوں گا۔ اگر ملا تھا تو وزارت عظمیٰ کی فرمائش نہیں کی اور اگر کی بھی تھی تو کیا وزیراعظم بننے کو میرا دل نہیں چاہتا؟ آخر مجھ میں کیا کمی ہے؟ ابھی تو تین روز پہلے بھی امریکی سفیر سے ملاقات ہوئی ہے۔ اس ضمن میں میرے ترجمان نے وضاحت کردی ہے کہ اس ملاقات میں پاکستان کی داخلی سیاست پر کوئی بات نہیں ہوئی اور نہ ہی ویزے کی عدم فراہمی کے بارے میں شکوہ شکایت کی گئی۔ انتخابی عمل میں ہمارے امیدواروں کے ساتھ جو ناانصافی اور دھاندلی ہوئی اس کے بارے میں بھی کوئی بات نہیں ہوئی۔ اب باقی جو موضوع رہ گئے ہیں وہ امریکی معیشت اور اوباما کی صحت ہی سے متعلق ہیں۔ ہوسکتا ہے ان کے بارے میں باتیں ہوئی ہوں۔ انتباہ: ہمارے پاس ایک ایسی مشین ہے جو یہودی ایجنٹوں کا پتہ لگاتی ہے۔ اس سے پہلے ایک صحافی نے زمینوں کے بارے میں خبر دینے کی جسارت کی تھی۔ اس کے بارے میں ہماری مشین کو فوراً معلوم ہوگیا تھا کہ وہ یہودیوں کا ایجنٹ ہے۔ حالیہ انتخابات میں بھی ہماری مشین مسلسل کام کرتی رہی ہے۔ اہل وطن تھوڑے لکھے کو کافی سمجھیں اور احتیاط برتیں۔