وہ مکان آخر کس طرح مکمل ہوسکتا ہے جس میں ایک بھائی کمرہ تعمیر کرنا شروع کرے پھر دوسرا بھائی آئے، کمرہ ادھورا چھوڑ دے اور برآمدے کی بنیاد ڈال دے۔ ابھی برآمدہ آدھا بنا ہو کہ تیسرا بھائی آ کر معاملات سنبھالے۔ ساتھ برآمدے کو آدھا ہی رہنے دے اور مہمان خانہ بنانا شروع کردے۔ پاکستان میں یہی کچھ ہورہا ہے اور چھ عشروں سے یہی کچھ ہورہا ہے۔ تسلسل نام کی کوئی شے نہیں۔ ایک سیاسی پارٹی برسراقتدار آ کر منصوبوں کا آغاز کرتی ہے۔ وہ ابھی مکمل نہیں ہو پاتے کہ حکومت تبدیل ہوجاتی ہے۔ نیا گروہ اقتدار سنبھالتا ہے۔ زیر تعمیر منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ نئے کاموں کی ابتدا ہوتی ہے۔ وہ چل رہے ہوتے ہیں کہ کوئی جرنیل آجاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کوئی جنرل چشتی‘ کوئی جنرل نقوی، کوئی جنرل زاہد علی اکبر خان بھی ہوتا ہے۔ بِگل نئی لیَ میں بجنے شروع ہوجاتے ہیں۔ سب کچھ تلپٹ ہوجاتا ہے۔ مکان کی جو مثال اوپر دی گئی ہے‘ وہ ایک نامکمل مثال ہے۔ حکومتیں بدلنے سے جو زیرتعمیر اور زیرتکمیل منصوبے یونہی چھوڑ دیے جاتے ہیں‘ اس کی زیادہ ذمہ داری خوشامد پسند بیورو کریسی پر آتی ہے۔ شاہ سے زیادہ وفادار افسر سابق حکمرانوں کو پہچاننے سے ہی انکار کردیتے ہیں۔ بجٹ کا رخ موڑ دیا جاتا ہے۔ کام کرنے والی ٹیمیں ہٹا کر کہیںسے کہیں پہنچا دی جاتی ہیں۔ رہے عوام، جو ان منصوبوں کی تکمیل کے خواب دیکھ رہے تھے‘ جائیں بھاڑ میں۔آپ ان دنوں اپنے گردو پیش پر نظر دوڑائیں یہی کچھ ہوتا نظر آئے گا۔ ابھی مسلم لیگ (ن) عملاً سریر آرائے مسند نہیں ہوئی‘ لیکن جیسے ہی پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے عوامی نمائندے منظر سے ہٹے ہیں‘ بیوروکریسی نے آنکھیں بدل لی ہیں۔ شاہراہیں، پل، ہسپتالوں کی عمارتیں، جو شے جہاں تھی، وہیں رک گئی ہے۔ بجٹ کی رقوم رُخ بدل رہی ہیں۔ ٹھیکے داروں کو شٹ اپ کال دے دی گئی ہے۔ لطف کی بات اس میں یہ ہے کہ مستقبل قریب میں اقتدار سنبھالنے والے گروہ نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے نہ اسے معلوم ہی ہے کہ درمیانی عرصے میں کیا کچھ ہورہا ہے! اس طرز عمل کی صرف ایک مثال دیکھیے۔ دارالحکومت کی بغل میں‘ وزیراعظم کے مغلیہ دفتر سے صرف پندرہ منٹ کے فاصلے پر ایک بستی شاہ پور ہے جو مری جانے والے شاہراہ کے دائیں کنارے پر آباد ہے۔ اس بستی اور شاہراہ مری کے درمیان کورنگ کا دریا حائل ہے۔ پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والی ایم این اے بیگم نسیم چودھری کی مسلسل کوششوں سے مرکزی حکومت نے یہاں پل بنانے کی منظوری دی۔ یہ علاقہ چونکہ اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کے دائرہ کار میں آتا ہے اس لیے ترقیاتی منصوبے بھی چیف کمشنر اسلام آباد اور اس کے ماتحت ڈپٹی کمشنر کی ذمہ داری میں پڑتے ہیں۔پل پر کروڑوں روپے صرف ہوئے۔ پل مکمل ہوگیا۔ آخری مرحلہ پل اور مری روڈ کے درمیان ایک دو فرلانگ کی سڑک تعمیر کرنے کا تھا۔ سڑک بننا شروع ہوگئی۔ بجری اور ریت کے درجنوں ڈھیر زیر تعمیر سڑک کے کناروں پر ڈالے گئے۔ سیمنٹ کے بیگ آئے اور میناروں کی صورت رکھے گئے۔ ایک چوتھائی سڑک بنی تھی کہ قومی اسمبلی کے ارکان گھروں کو رخصت ہوگئے۔ الیکشن کا ناقوس بجا۔ پیپلز پارٹی کا لشکر کھیت رہا ؎ کیا رات تھی بدلے گئے جب نام ہمارے پھر صبح کو خیمے تھے نہ خدّام ہمارے مسلم لیگ (ن) کا ڈنکا بجنے لگا۔ بیگم نسیم چودھری سابقہ ایم این اے ہوگئیں۔ مسلم لیگ (ن) کے فرشتوں کو بھی خبر نہ ہوگی کہ یہ سڑک جہاں تھی وہیں رک گئی۔ میناروں کی صورت کھڑے کیے گئے سیمنٹ کے بیگ منتقل کرکے کہیں اور پہنچا دیئے گئے۔ مشینری جو کام کررہی تھی، ہٹا لی گئی۔ کام کرنے والے راج، مستری، مزدور، ٹھیکیدار سب یوں غائب ہوگئے جیسے کبھی یہاں آئے ہی نہ تھے۔ اب آدھی بنی ہوئی سڑک ہے اور آدھی سے کہیں زیادہ شکستہ، ٹوٹا پھوٹا کھنڈر نما راستہ ہے جس کے کناروں پر بجری اور ریت کے ڈھیر اسلام آباد کی ضلعی حکومت کی ابن الوقتی کا ماتم کررہے ہیں۔ گاڑیاں ہچکولے کھاتی گزر رہی ہیں۔ لوگ جھولیاں اٹھا ٹھا کر، منہ آسمان کی طرف کیے، بددعائیں دے رہے ہیں۔ چیف کمشنر اسلام آباد اپنے ائیرکنڈیشنڈ دفتر میں براجمان ہے۔ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد بھی عوام سے قطعی طور پر لاتعلق ہے۔ کروڑوں روپے سے جو پل بنا وہ یوں ہی پڑا ہے۔اس علاقے سے مسلم لیگ ن کے نومنتخب رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر طارق فضل چودھری ہیں۔ ان کے بارے میں خبر ہے کہ شریف النفس انسان ہیں۔ اگر وہ اس کیس کو ٹیسٹ کیس کے طور پر لیں اور تحقیق کریں کہ کس کے حکم سے اس سڑک کا کام بند ہوا ہے اور پھر ذمہ دار شخص یا اشخاص کو کیفر کردار تک پہنچائیں تو ایک صحت مند روایت قائم ہوگی۔ کل انہوں نے بھی اسمبلی سے رخصت ہونا ہے۔ آج اگر پچھلوں کے جاری کیے گئے کاموں کو وہ بربادی سے بچائیں گے تو کل ان کے آغاز کردہ منصوبوں کی بھی حفاظت کی جائے گی! یہ صرف ایک مثال ہے۔ پورے ملک میں یہی صورت حال ہے۔ موقع پرست نوکرشاہی نئے آقائوں کو خوش کرنے کیلئے وہ سب کچھ کررہی ہوگی جس کا نئے آقا کو علم ہے نہ خواہش۔ جنرل پرویز مشرف نے ایک انقلابی قدم اٹھایا تھا کہ ضلعی حکومتیں لگان جمع کرنے والے افسروں سے لے کر ناظمین کے حوالے کی تھیں۔ ناظم سیاست دان تھے۔ سیاستدان جتنا بھی مرا ہو‘ وہ اس حقیقت کو کبھی فراموش نہیں کرتا کہ اس نے وہیں جینا ہے اور وہیں مرنا ہے۔ کل اس نے پھر لوگوں سے ووٹ مانگنے ہیں۔ موت اور شادی پر عوام کے درمیان کھڑا ہونا ہے۔ اس کی آئندہ نسلوں نے بھی وہیں رہنا ہے۔ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کا نظام تو کلائیو، میکالے، کرزن اور ویول کا نظام تھا۔ ملکہ کی حکومت نے اپنے گماشتوں کے ذریعے استعمار کو قائم رکھنا تھا۔ اُس کمشنر اور اُس ڈپٹی کمشنر کو عوام سے کیا سروکار جس کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد اگلی ترقی اور اگلی تعیناتی ہے اور جسے معلوم ہے کہ ایک بار یہاں سے جان چھوٹی تو پھر اس ضلع اور اس کمشنری میں کس نے آنا ہے! ؎ میں نے جو آشیانہ چمن سے اٹھا لیا میری بلا سے، بُوم رہے یا ہُما رہے ہم ان سطور کے ذریعے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف میں نومنتخب عوامی نمائندوں کی خدمت میں دست بستہ گزارش کرتے ہیں کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں زیرتکمیل منصوبوں کی فوراً خبر لیں اور ابن الوقت نوکر شاہی کو وقت پر خبردار کریں۔ پیپلزپارٹی بھی پاکستان سے تھی اور اے این پی کا تعلق بھی گھانا یا اٹلی سے نہیں تھا۔ عوامی بہبود کے جو کام ہورہے تھے وہ رکنے نہیں چاہئیں۔ یہ درست ہے کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ افسر شاہی میں دیانت دار اور مخلص عناصر بھی موجود ہیں لیکن جس معاشرے میں زبان زد عام اس قسم کی ضرب الامثال ہوں کہ کوتوالِ شہر کی ماں مری تو پورا شہر امڈ آیا اور کوتوالِ شہر خود مرا تو ہُو کا عالم تھا۔ اس معاشرے میں موقع پرست، پچاس فیصد بھی ہوں تو غالب رہتے ہیں! ہم سب نے یہ کہانی بچپن میں پڑھی تھی۔ آئیے‘ اسے تازہ کریں۔ نوشیروان عادل نے دیکھا کہ اک بوڑھا درخت لگا رہا ہے۔ اس نے کہا کہ تم تو قبر کے کنارے بیٹھے ہو، اس کا پھل کیسے کھائو گے؟ بوڑھے نے جواب دیا جہاں پناہ! جو بوڑھے ہم سے پہلے گزر گئے، ان کے لگائے ہوئے درختوں کے پھل ہم نے کھائے، جو ہم لگا رہے ہیں ان کے پھل آنے والی نسلیں کھائیں گے۔ یہ کہانی نومنتخب عوامی نمائندوں کو یاد رکھنی چاہیے۔ ؎ خیری کن ای فلان و غنیمت شمار عمر زان پیشتر کے بانگ برآید فلان نماند وقت کو غنیمت جانیے اور جو بھلا ممکن ہے کر ڈالیے، بہت جلد آواز آنے والی ہے کہ فلاں شخص رخصت ہوگیا۔