پاکستانی پنجاب کے پہلے وزیراعلیٰ نواب افتخار حسین ممدوٹ تھے۔ مسلم لیگ کے صوبائی صدر بھی وہی تھے۔ ممتاز دولتانہ اور شوکت حیات دونوں ان کی کابینہ میں شامل تھے۔ کچھ ہی عرصہ میں دونوں حضرات کے وزیراعلیٰ سے اختلافات شروع ہوگئے اورضلعی سطح تک پھیل گئے۔ قائداعظم نے تینوں کو کراچی طلب کیا اور سمجھایا۔ واپسی پر کچھ عرصہ بعد حالات پھر اسی نہج پر آگئے۔ مئی 1948ء میںمیاں ممتاز دولتانہ اور سردار شوکت حیات خان دونوں نے ممدوٹ صاحب کی کابینہ سے استعفیٰ دے دیا۔ قائداعظم کی رحلت کے بعد حالات خراب تر ہوگئے۔ باہمی مناقشت اور سازشوں نے رسہ کشی کو تیز تر کردیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک دوسرے کے بلائے ہوئے اجلاسوں کو خراب کرنے کیلئے غنڈے استعمال ہونے لگے۔ لیاقت علی خان جنوری 1949ء میں اوپر آئے تو دولتانہ نے انہیں ایک فہرست دکھائی۔ اس میں پنجاب اسمبلی کے 42ارکان کے نام اور دستخط تھے۔ پنجاب اسمبلی کے کل 81ارکان میں سے 40 وہ تھے جنہوں نے دولتانہ کی حمایت کا یقین دلایا تھا۔ نواب ممدوٹ نے بھی اپنے حمایتیوں کی فہرست پیش کی۔ اس پر 44 ارکان کے دستخط تھے۔ دلچسپ بات یہ ہوئی کہ سات ارکان کے دستخط اور نام دونوں فہرستوں پر موجود تھے! چاہیے تو یہ تھا کہ اسمبلی اجلاس بلایا جاتا اور پاکستانی سیاست کے ان پہلے سات لوٹوں کو برہنہ کیا جاتا تاکہ آنے والے زمانے ان سے عبرت پکڑتے لیکن افسوس! صد افسوس ایسا نہ ہوا۔ اس کے بجائے ایک اور ہی کھیل کھیلا گیا۔ گورنرنے ممدوٹ کی وزارت اعلیٰ ختم کرا دی۔ صوبائی اسمبلی تحلیل کردی اور گورنر راج نافذ کردیا۔ اب اس سیاق و سباق میں حالیہ الیکشن کے بعد کی ایک خبر پڑھیے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ایک نومنتخب عوامی نمائندے نے ق لیگ میں شمولیت کا ڈیکلیریشن دینے کے بعد نوازشریف اورشہباز شریف سے بھی ملاقات کی اور انہیں بھی ن لیگ میں شمولیت کے لیے ڈیکلیریشن دے دیا ہے۔ دو کشیتوں میں بیک وقت سوار ہونے کی خواہش اور کوشش کا سبب ایک ہی ہے۔ ہر حال میں برسراقتدار گروہ سے تعلق قائم رکھنا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا کسی نظریے پر یقین نہیں۔ ایسی باتوں پر یہ حضرات نجی محفلوں میں ہنستے ہیں۔ یہ کھیل پاکستان میں بارہا کھیلا گیا۔ دن کو ہمایوں کے سامنے دست بستہ کھڑا رہنے اور رات کو شیرشاہ سوری کے پڑائو میں جانے کا فن پرانا ہے اور نہ جانے برصغیر کے مسلمانوں میں کب سے ہے۔جذبات کی محکومی میں زندگی گزارنے والے ہم قابل رحم لوگ‘ حقیقت کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرسکتے۔ ایرانی، تورانی اور افغانی جو کھیل کھیل رہے تھے‘ اس سے تنگ آ کر ہی تواکبر نے راجپوتوں کی طرف دیکھنا شروع کیا تھا۔ بیرم خان کے ساتھ جو کچھ ہوا‘ اس پر اکبر حیران تو ہوتا ہوگا۔ وہ سب سردار، خان، مولوی اور پیر جو اس کے دسترخوان سے فیض یاب ہوتے تھے، ایک وقت آیا کہ ساتھ چھوڑ گئے اور وہ شخص جس نے ہمایوں کو ایران لے جا کر پناہ اور مدد دلوائی تھی اور جس نے ہیموں بقال کی ایک لاکھ فوج کو شکست دے کر اکبر ،جو ابھی بچہ تھا، کا اقتدار مستحکم کیا تھا، چند درجن وفاداروں کے ساتھ جان بچاتا پھر رہا تھا ۔اگر اس خطے کے مسلمانوںکی نفسیات سمجھنا ہو اور ری پبلکن پارٹی، کونسل مسلم لیگ، کنونشن لیگ اور قاف لیگ کی تحلیل نفسی کرنا ہو اور اس امر پر غورکرنا ہو کہ 2008ء میں پیپلزپارٹی اور 2013 ء میں مسلم لیگ نون میں گروہوں کے گروہ کیوں شامل ہورہے ہیں تو ملا پیر محمد ایک ایسا کردار ہے جس کا مطالعہ نہ صرف یہ کہ دلچسپی سے خالی نہیں بلکہ ممد بھی ہے۔ ایران سے واپسی پر ہمایوں نے پہلے قندھار فتح کیا تھا اور کچھ عرصہ وہاں رہا تھا۔ بیرم خان دست راست تھا۔ ایک دن ایک مفلوک الحال قلاش طالب علم، کتاب بغل میں دبائے، بیرم خان کے حضور پیش ہوا۔ بیرم خان نے اس میں ذہانت دیکھی اور اخلاص بھی اورپیر محمد کو اپنے وابستگاں میں شامل کرلیا۔ زمانہ کروٹیں لیتا رہا۔ ہمایوں نے ہندوستان کا تخت دوبارہ حاصل کرلیا۔ اکبر تخت نشین ہوا تو بچہ تھا۔ اصل اقتدار بیرم خان کے ہاتھ میں تھا۔ ملاّ پیر محمد کو بیرم خان نے امیر الامراء اور خان بنا دیا۔ پورے چالیس برس ملاّ، بیرم خان کی حضوری میں رہا۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ ملاّ کی عیادت کے لیے بیرم خان اس کے گھر آیا تو دروازے پر کھڑے ازبک غلام نے اندر جانے سے روک دیا۔ جب بیرم خان کا ستارہ گردش میں آیا تو یہی ملاّ پیر محمد تھے جنہوں نے بیرم خان کو ہندوستان سے نکالنے اور حج بھیجنے کی مہم سنبھالی یہاں تک کہ بیرم خان نے اکبر کو خط لکھا کہ مجھے قتل کرنے کے لیے جو فوج مامور کی گئی ہے اس کی قیادت کم از کم اس نمک حرام کو تو نہ دیجیے۔ لوٹا سازی کی صنعت کو زوال سے دوچار کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ انتخابات باقاعدگی سے ہوں۔ ووٹ دینے والے امیدواروں کو پرکھیں۔ مروت کریں نہ لحاظ ،نہ کسی قسم کی رعایت، تعلیم میں بھی اضافہ ہو اور زرعی اصلاحات بھی ہوں تاکہ کوئی کسی کا ہاری ہو نہ مزارع اور نہ ہی ووٹ دینے کے سلسلے میں اپنے چودھری یا خان یا سائیں کے حکم کا پابند ہو ۔ لیکن آج کے منظر نامے پر اس سے بھی زیادہ نمایاں مسئلہ پیپلزپارٹی کا انجام ہے جس سے وہ سندھ کو چھوڑ کر پورے ملک میں دوچار ہوئی ہے۔ کیا پیپلزپارٹی کی راکھ سے کوئی چنگاری دوبارہ اٹھ سکتی ہے؟ اس کا انحصار اس تشخیص پر ہے جو اس ضمن میں کی جارہی ہے۔ اب تک دو مکاتب فکر سامنے آئے ہیں۔ ایک مکتب فکر کی نمائندگی صدر آصف علی زرداری نے کی ہے۔ وہ شکست کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں: انتخابات میں سازش کے تحت پیپلزپارٹی کو ہرایا گیا۔ کچھ عالمی اور کچھ مقامی اداروں نے سازش کی۔ الیکشن کے معاملات شفاف طریقے سے نہیں چلے۔ وسیع پیمانے پر گڑبڑ ہوئی ہے۔ عالمی طاقتیں پیپلزپارٹی کی حکومت کے خطے کی طاقتوں سے بڑھتے تعلقات اور روابط سے خوش نہیں تھیں اور اسی وجہ سے ان کی جماعت کو ہرایا گیا۔ اس تشخیص کے بعد آصف زرداری علاج بھی تجویز کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں چار اشخاص پیپلزپارٹی کو دوبارہ منظر عام پر لا سکتے ہیں۔ ان کے الفاظ میں: ’’میں لاہور میںڈ یرے لگائوں گا ۔صدارت سے فارغ ہونے کے بعد تنظیم پر توجہ دوں گا۔ بلاول پنجاب کی سیاست کریں گے۔ آصفہ اور بختاور بھی سیاست میں آنا چاہتی ہیں۔ تینوں بچے سال تک سیاست میں آ جائیں گے۔‘‘ صدر زرداری اور ان کے تینوں بچے پیپلزپارٹی کے سفینے کو منجدھار سے نکال کر کنارے پر لا سکیں گے یا نہیں؟ یہ بات اگلے دو تین سال میں معلوم ہوجائے گی۔ وقت بتا دے گا کہ صدر زرداری کی تشخیص اور علاج درست ہیں یا نہیں۔ تاہم ایک اور مکتب فکر بھی موجود ہے۔ اس کی بہترین نمائندگی جمشید دستی نے کی ہے۔ وہ الیکشن سے کچھ دن پہلے تک پیپلزپارٹی میں تھے اس لیے انہیں پیپلزپارٹی سے دشمنی اور بدخواہی پر محمول نہیں کیا جاسکتا۔ جمشید دستی کہتے ہیں: ’’ میں نے 2009ء میں یوسف رضا گیلانی کی موجودگی میں صدر آصف علی زرداری سے کہا تھا کہ یوسف رضا گیلانی، ان کا پورا خاندان اور وزراء کرپشن کی انتہا پر جارہے ہیں جس سے خطرناک حالات پیدا ہوں گے۔ اس وقت گیلانی اور ان کی کرپٹ ٹیم نے بُرا منایا۔ خود زرداری نے بھی بُرا منایا تھا۔ میں نے ان سے سے کہا تھا کہ محتاط چلیں مگر ان کی پوری ٹیم کرپشن پر لگی رہی۔ خود زرداری صاحب نے بی بی شہید کا نظریہ بیچا۔ کارکنوں کو نظر انداز کیا ۔کہیں دور دور تک نظر نہیں آرہا تھا کہ یہ پارٹی پھر اٹھ سکے۔ پارٹی میں کوئی نہیں بولتا تھا سب کو کہیں نہ کہیں سے حصہ ملتا تھا۔ سب نے لوٹ مار کی۔ سب اسی لیے ہارے کہ سب نے کرپشن کی ۔ مجھے تو شرم آتی ہے بتاتے ہوئے‘ انہوں نے پاکستان کو تباہی اور بربادی کے کنارے پر کھڑا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پتہ نہیں ان کا کیا منصوبہ تھا۔ پاکستان کو بیچنا چاہتے تھے۔ اندرون خانہ سودا کر چکے تھے ‘‘۔ آپ کا کیا خیال ہے؟ پیپلزپارٹی کا ایک عام مخلص کارکن صدر زرداری سے اتفاق کرتا ہوگا یا جمشید دستی سے؟؟