میاں محمد نواز شریف اور ستارے

ایک اوربادشاہ تخت پر بیٹھا ہے۔ ایک اور صفحہ کھل گیا ہے۔ ستارے دیکھ رہے ہیں۔ کہیں دور، آسمانوں سے اوپر، کسی زبردست ہاتھ میں قلم ہے۔ یہ صفحہ بھی بھر جائے گا۔ ایک اور بادشاہ آئے گا۔ پھر اس کا صفحہ کھلے گا۔ دس سال ایوب خان نے بادشاہی کی۔ صفحہ الٹ نہ دیا جاتا تو الطاف گوہر اور قدرت اللہ شہاب دین الٰہی بھی ایجاد کردیتے۔ دس سالہ بادشاہی سے قوم کو کیا ملا ؟ اول مشرقی پاکستان میں علیحدگی کا بیج تناور درخت کی صورت میں ، دوم گوہرایوب خان ، سوم عمرایوب خان، یحییٰ خان تو اونٹ کی پشت پر آخری تنکا تھا۔ سب کچھ پہلے تیار ہوچکا تھا۔ اس بلانوش نے مالی بددیانتی کی نہ اس کا بیٹا قوم پر مسلط ہوا۔ پھر اس مظلوم، معتوب ، مقہور اور مغضوب قوم نے ذوالفقار علی بھٹو کی بادشاہی کو شہنشاہی میں بدلتے دیکھا۔ عقل کے اندھے کہتے ہیں اس نے غریبوں کو زبان دی اور لوگوں نے کے ٹی کے سوٹ پہننے شروع کیے، وہ یہ دیکھنے سے معذور ہیں کہ اس نے جاگیرداری کو مستحکم کیا۔ بظاہر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بھٹو کا طرز فکر دیکھنا ہوتو ممتاز بھٹو کو دیکھو۔ فرماتے ہیں فلاں نشست ہماری خاندانی نشست ہے۔ بیگم صاحبہ فرماتی تھیں بھٹو کی اولاد پیدا ہی حکمرانی کے لیے ہوئی ہے۔ جیالے پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے تھے تو برا مناتی تھیں۔ گلاب کی خوشبو سے الرجی تھی! بھٹو نے وراثت میں کیا چھوڑا؟ اول ضیاء الحق، دوم بے نظیر بھٹو، سوم مصطفی کھر۔ ستارے ضیاء الحق کا طویل ، مضبوط، زمانہ دیکھتے رہے ، زبردست قلم لکھتا رہا۔ اورنگ زیب کے بارے کسی من چلے نے لکھا تھا کہ کوئی نماز چھوڑی نہ کوئی بھائی چھوڑا۔ اس کا جواب بھی دینے والوں نے دیا۔ بھائی چارتھے۔ قبریں تین تھیں۔ دارا بادشاہ بنتا یا شاہ شجاع یا مراد، تین نے ماراہی جانا تھا۔ مغلوں کی تاریخ کسی نے پڑھنی ہوتو ابراہام ایرالی کو پڑھے۔ کسی پاکستانی سے یہ کام نہ ہوا۔ اشتیاق حسین قریشی نے ہمت کی لیکن بات نہ بنی۔ غالباً وہ سینٹ سٹیفن کالج دہلی میں ضیاء الحق کے استاد تھے۔ شاگرد نے استاد کے لیے مقتدرہ قومی زبان ایجاد کیا۔ مقصد سعادت مندی تھا۔ اردو کا نفاذ نہ تھا۔ نیت خالص ہوتی تو اردو نافذ ہوجاتی۔ ستارے ضیاء الحق کا زمانہ دیکھتے رہے اور گیت گاتے رہے۔ مرحوم نے کوئی نماز چھوڑی نہ کوئی ادارہ چھوڑا۔ بادشاہی تھی اور مکمل بادشاہی! جولفظ منہ سے نکلتا قانون کی شکل اختیار کرلیتا۔ خلجی، بلبن اور تغلق قبروں میں کروٹیں لیتے تھے اور حسد کرتے تھے۔ علما اور مشائخ کو بھی دسترخواں پر بٹھائے رکھا اور شتروگھن سنہا سے بھی منہ بولی رشتہ داری نبھائے رکھی۔ سلطنت کے انتظام وانصرام کا واحد معیار ذاتی وفاداری تھی۔ وہ تو بھلا ہو بحیرہ اوقیانوس کے پارایک ملک کا جس نے ایک صاحب کو بطور سفیر قبول ہی نہ کیا ورنہ کون سا مجرم تھا جسے دربار سے خلعت اور گھوڑا نہ ملا ! سرکاری خرچ پر جہاز بھرکر ستائیسویں رمضان کو حرم جانے کا رواج وہیں سے نکلا۔ آئین اس زمانے میں کاغذ کا بے وقعت ٹکڑا تھا۔ قانون فرش پر بچھایا جاتا تھا کہ اس پر جوتوں سمیت چلنے سے مزاآتا تھا۔ ضیاء الحق نے قوم کو کیا دیا۔ اول فرقہ وارانہ اور نسل پرست جماعتیں جوکھمبوں کی طرح اُگیں ، دوم منشیات، سوم اسلحہ کی بھرمار، بشمول راکٹ اور میزائل۔ چہارم اسلام کی ملایانہ ظاہرپرست تعبیر۔ پنجم اعجاز الحق‘ جواب ایک عظیم الشان وسیع وعریض قومی سطح کی جماعت کے سربراہ ہیں۔ اسلحہ کی فراوانی کا تو یہ عالم تھا کہ عام آدمی کو اس کے حصول میں کوئی پریشانی نہ تھی۔ انہی دنوں ایک خبر چھپی تھی کہ ایک شخص نے چائے مانگی‘ بیوی نے تاخیر کردی۔ شوہر غضب ناک ہوگیا اور راکٹ سے اپنے ہی گھر کو اڑادیا۔ پھر چھوٹے چھوٹے جمہوری ادوار آئے اور گزرگئے ۔ ان میں قسم قسم کی داستانیں پھیلیں۔ ٹانگوں سے بم باندھنے کی اطلاعات عام ہوئیں۔ ٹین پرسنٹ کے قصے چلے۔ سپریم کورٹ پر لشکر کشی ہوئی۔ کہیں معلوم ہوا کہ کوئی باریش صاحب بریف کیس لے کر کوئٹہ پہنچے۔ کہیں پتہ چلا کہ کوئی بے ریش صاحب بریف کیس کی شہرت کو موٹروے سے جوڑ بیٹھے ۔ لاہور کی ایک مخصوص برادری کے وارے نیارے ہوہی رہے تھے کہ پرویز مشرف آگئے۔ یہ تحفہ قوم کو میاں نواز شریف صاحب نے دیا۔ یہ بھی عجیب زمانہ تھا۔ ستارے دیکھتے رہے اور گیت گاتے رہے۔ ادھر قوم کا منتخب وزیراعظم پس دیوار زنداں تھا۔ کبھی ہاتھ، ہتھکڑی سے جہاز کی نشست کے ساتھ بندھا ہوا اور کبھی جاوید ہاشمی کال کوٹھری میں سڑتا ہوا لیکن چوری کھانے والے مجنوں جوق درجوق قافلہ درقافلہ مشرف کے دسترخوان کی طرف چلتے ہوئے۔ چھوٹی ’’ی‘، کو لوگ کہیں اور منسوب کرتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ جمالی، چودھری اور لال حویلی ، سب کے آخر میں چھوٹی ’’ی‘‘ ہے اور اسی نکتے سے پرویز مشرف کی جرنیلی فیض یاب ہوتی رہی! پرویز مشرف نے قوم کو کیا دیا ۔ اول دہشت گردی، دوم ڈرون حملے، سوم پیپلزپارٹی کی حکومت جس کے دوران نظام سقہ ۔ قبرمیں ہائے ہائے کرتا رہا کہ میرے بھائیوں کو پانچ سال ملے اور مجھے صرف ایک دن ! وہ کچھ ہوا‘ جو ستاروں نے آج تک نہ دیکھا تھا۔ صلائے عام تھی۔ جو جتنا کرسکتا ہے کرلے۔ جو جتنا بھرسکتا ہے‘ بھرلے۔ جوجتنا زیادہ کرتا اور بھرتا ، اسے اتنی ہی زیادہ شاباش ملتی۔ مدتوں کے بھاگے ہوئے واپس آئے۔ ایک صاحب وزیراعظم کے میرمنشی لگے۔ ایک دن میں پروموشن ہوئی۔ سالہا سال کے واجبات ملے۔ بہن کو بیس سے اٹھایا بائیس پر مسند نشین کیا۔ ماموں زاد کو ایک ادارے کا سربراہ بنایا خودبیرون ملک تعیناتی سنبھالی۔ کسی نے برادر زادی کو مشیر بنوادیا۔ وزیراعظم کے سوٹ ٹرکوں پر آئے۔ ڈیفنس لاہور میں محلات مع بی ایم ڈبلیو کی گونج ٹیلیویژن پر سنائی دی۔ حاجیوں کے مال اسباب پر ڈاکے پڑے۔ الامان والحفیظ خدا کالے کافروں کو بھی ایسے دن نہ دکھائے۔ اب میاں محمد نواز شریف بادشاہ بنے ہیں۔ ستارے دیکھ رہے ہیں۔ ان کے لیے نیا صفحہ کھلا ہے۔ ہر سچا پاکستانی ان کی کامیابی چاہتا ہے۔ اگر کسی کے دل میں یہ خناس ہے کہ وہ ناکام ہوں تو وہ محب وطن نہیں ہے۔ یہ کسی سیاسی جماعت کا سوال نہیں، ملک کا مسئلہ ہے۔ میاں نواز شریف کی کامیابی میں ملک کی سلامتی کا راز پنہاں ہے۔ میاں صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ شیرشاہ سوری کو صرف پانچ سال ملے اور کسی درباری کی کتاب کے بغیر وہ زندہ ہے۔ اس کا نام عزت سے لیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ اس نے سنارگائوں سے پشاورتک صرف موٹروے نہیں بنوائی تھی، انصاف بھی قائم کیا تھا جس گائوں میں قتل ہوتا، قاتل نہ پکڑا جاتا تو نمبردار کو پھانسی ملتی‘ نتیجہ یہ تھا کہ نمبردار رات بھرپہرے دیتے۔ ایک لشکری نے کھیت سے ایک خوشہ توڑا تھا تو بادشاہ نے اس کا کان کاٹ کر پورے لشکر میں پھرایا تھا۔ اکبر اور جہانگیر کو عشروں کے عشرے ملے لیکن فیضی، ابوالفضل اور محمد حسین آزاد نہ ہوتے تو ان کا نام بھی کسی کو معلوم نہ ہوتا۔ میاں صاحب انصاف کریں، میرٹ کا بول بالا کریں۔ برادری سے دوران اقتدار پیچھا چھڑالیں اور تاریخ میں اپنا نام اپنے کارناموں سے چھوڑیں، فیضیوں اور ابوالفضلوں پر انحصار نہ کریں۔ ستارے گیت گارہے ہیں۔ میاں صاحب کو بادشاہی مبارک ہو۔ تخت اور بخت سلامت رہے۔ وہ یہ گیت ضرور سنیں ؎ گرمٔی کارزار ہا خامئی پختہ کار ہا تاج و سریر و دار ہا خواریٔ شہریار ہا بازیٔ روزگار ہا می نگریم ومی رویم جوکچھ جنگ کے میدانوں میں ہورہا ہے ، بڑے بڑے جغادری جوغلطیاں کربیٹھتے ہیں، کیا تاج اور کیا تختہ دار، بادشاہوں کی دربدری، زمانے کی گردشیں اور بازیاں، ہم ستارے سب کچھ دیکھتے جاتے ہیں اور چلتے جاتے ہیں ؎ خواجہ ز سروری گزشت بندہ ز چاکری گزشت زاری و قیصری گزشت دور سکندری گزشت شیوۂ بت گری گزشت می نگریم ومی رویم نوابوں جاگیرداروں کے اقتدار ختم ہوچکے۔ خاک نشیں اٹھ بیٹھے، زاررہا نہ قیصر وکسریٰ، سکندر کی آمریت بھی جاچکی، بت تراشنے کا زمانہ بھی لدچکا۔ ہم دیکھتے جاتے ہیں اور چلتے جاتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں