اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو گلی میں کچھ ڈھونڈ رہا ہے۔ کھمبے کے بلب سے گلی روشن ہے۔ ہم اس سے پوچھتے ہیں تم کیا تلاش کررہے ہو؟ وہ بتاتا ہے کہ سوئی ڈھونڈ رہا ہے۔ پھر ہم اس سے پوچھتے ہیں سوئی کہاں گم ہوئی تھی۔ وہ بتاتا ہے کہ سوئی تو کمرے میں گم ہوئی تھی لیکن کمرے میں اندھیرا ہے۔ یہی مثال ان لوگوں کی ہے جو دوحہ مذاکرات سے (جو ابھی ہونے ہیں) امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ دوحہ میں ہونے والی بات چیت کی حقیقت صرف اس قدر ہے کہ امریکہ نکلنے سے پہلے ایک جھوٹی عزت چاہتا ہے۔ وہ اب صرف لنگوٹی سنبھالنے کی فکر میں ہے۔ اسے اس سے کوئی غرض نہیں کہ حامد کرزئی کی کیا پوزیشن ہے یا امریکہ کے نکلنے کے بعد افغانستان میں جو گھمسان کا رن پڑے گا اس کا انجام کیا ہوگا؟ وہ اس وقت صرف یہ کہہ رہا ہے ؎ میں نے جو آشیانہ چمن سے اُٹھا لیا میری بلا سے بوم رہے یا ہُمارہے مذاکرات کی چمک میں ہمارے دوست یہ سوال بھول گئے کہ مذاکرات کے بعد کیا ہوگا؟ 2014ء میں افغانستان میں انتخابات ہونے ہیں۔ حامدکرزئی اپنے بھائی کو کھڑا کررہا ہے۔ پاکستان نے شمال کے غیرپختونوں سے تعلقات بہتر کرلیے ہیں۔ ہوسکتا ہے وہ کسی غیر پختون، کسی تاجک یا ازبک امیدوار کی حمایت کرے لیکن پاکستان کس کی حمایت کرے گا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ جنوبی اور مشرقی افغانستان میں ،جو دس سالہ جنگ سے زخم زخم ہورہا ہے، جس کے انگ انگ سے لہو رس رہا ہے، جہاں سڑکیں ہیں نہ ڈاک، تار برقی ہے نہ ٹیلی فون ،کوئی ادارہ ہے نہ عمارت، یہ انتخابات کس طرح منعقد ہوں گے ؟ 93فی صد عورتیں اور ستر فی صد مرد قصبوں اور بستیوں میں لکھ پڑھ نہیں سکتے۔ ووٹرز کی فہرستیں ناپید ہیں۔ جو آبادیاں پورے دس پندرہ سال سے صرف لڑائی کررہی ہیں یا جنگ کی تباہ کاریوں سے بچتی پھرتی ہیں، وہ انتخابات کو کس طرح بھگتائیں گی ؟ پھر اگر انتخابات جوں توں کرکے ہو جاتے ہیں تو پختون علاقوں میں پختون امیدوار جیتیں گے اور غیرپختون علاقوں میں غیرپختون امیدوار۔ فرض کریں ملا عمر صدر منتخب ہوجاتے ہیں، کابل کے اوپر امریکی یا نیٹو افواج کی چھتری تو ہوگی نہیں۔ کیا ازبک ،تاجک اور ہزارہ، پختون صدر کو تسلیم کریں گے ؟ اور اگر عبداللہ عبداللہ یا کوئی اور تاجک یا ازبک تخت صدارت پر بیٹھتا ہے تو کیا قانون ،آئین ،امن وامان اور اداروں سے نابلد پختون اس کی صدارت چلنے دیں گے ؟ طالبان کے ظہور سے صورت حال عجیب وغریب ہوگئی ہے۔ اگر طالبان سے پہلے کا افغانستان ہوتا تو شمال اور مغرب کے غیرپختونوں کا جنوب اور مشرق کے پختونوں سے سمجھوتہ ہوسکتا تھا۔ لیکن طالبان صرف پختون نہیں، طالبان بھی ہیں۔ تاجک ، ازبک اور ہزارہ تعلیم اور صنعت میں کوسوں آگے ہیں۔ عورتوں کے ساتھ ان کا رویہ مختلف ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ’’پختون ولی‘‘ کو ، جوپختونوں کا ثقافتی اور قبائلی طرز زندگی ہے اور جس میں غیرت اور انتقام کے تصورات ہیں، طالبان نے اسلامی لباس پہنا دیا ہے۔ پختونوں کو پورا حق پہنچتا ہے کہ وہ پختون ولی کے اصولوں کے تحت زندگی بسر کریں۔ لیکن اس سب کچھ کو اگر وہ اسلام کا رنگ دیتے ہیں تو ضروری نہیں کہ دوسری قومیں بھی اس ثقافت کو اسلام کے طورپر قبول کریں ؟ یہ ہے وہ مرکزی نکتہ جو طالبان اور طالبان کے ہم نوائوں کو سمجھ میں نہیں آتا! نہ ہی تاجکوں کے لیے احمد شاہ مسعود اور ہزارہ کے لیے عبدالعلی مزاری کے قتل کو بھولنا آسان ہے، جوان دونوں لیڈروں کے قتل کی ذمہ داری طالبان پر ڈالتے ہیں۔ جنوب کے پختون علاقوں اور شمال اور شمال مغرب کے غیرپختون صوبوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ بلخ اور ہزارہ جات اس سارے عرصہ کے دوران پرامن رہے ۔ یہاں تعلیم اور صنعت وحرفت کے میدانوں میں دھیمی رفتار سے سہی لیکن مستقل مزاجی سے ترقیاتی کام ہوتے رہے۔ قندھار کے لوگ اس کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ بامیان کی گورنر 2005ء سے حبیبہ سرابی چلی آرہی ہے۔ ایک اور ہزارہ خاتون سیما ثمر کچھ عرصہ وزیر رہی اور اب ’’افغانستان ہیومن رائٹس کمیشن‘‘ کی سربراہ ہے۔ افغان انسٹی ٹیوٹ آف ہائرایجوکیشن بھی اسی نے قائم کیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر کابل کی حکومت طالبان کے تصرف میں آجاتی ہے تو کیا ٹیبل کی دوسری طرف وہ اس قسم کی خواتین کو برداشت کریں گے ؟ ازبک اور تاجک تاریخ کی اس ستم ظریفی کو تسلیم کرتے ہیں کہ احمد شاہ ابدالی نے ان علاقوں کو ،جو پہلے خراسان کا حصہ تھے ،افغانستان کا نام دیا لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ افغانستان میں سب لوگ افغان نہیں ہیں۔ تقریباً اڑھائی سو سال پختونوں نے تلواروں اور نیزوں سے حکومت کی لیکن ثقافت اور ادب میں وہ ازبکوں اور تاجکوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔نوائی اور بابر جیسے ازبک شاعر اور جامی، نظیری اور فردوسی جیسے شہرۂ آفاق فارسی شاعر غیرپختونوں ہی کے پاس ہیں ۔ کاش ! جنوبی افغانستان کے پختون اس نکتے کو سمجھ لیتے کہ ادب ،تعلیم اور صنعت وحرفت ہی انسان کو مہذب بناتے ہیں۔ پاکستان کے محلات میں رہنے والے چند لوگ جو پختونوں کو ہروقت بہادر اور غیرمند کہہ کر اشتعال دلاتے رہتے ہیں، اپنے بچوں کو ایسی زندگی میں کیوں نہیں دھکیلتے ؟ اسلام آباد کے پشاور موڑ پر افغان نانبائیوں کی دکانوں پر آج کیا ہورہا ہے، نہیں معلوم لیکن چند سال پہلے یہ کالم نگار دیکھتا تھا کہ فیاض امرا انہیں رقم دے کر کہتے تھے کہ لوگوں کو روٹیاں دے دینا اور روٹیاں دینے کا وقت آتا تھا تو قطار درقطار افغان خواتین اور بچے ایک یا دو روٹیوں کے لیے کھڑے ہوجاتے تھے۔ ان میں زیادہ تعداد پختونوں کی تھی۔ بہادری اور غیرت تو یہ ہے کہ خواتین اور بچے محفوظ ہوں اور کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائیں ۔ چند مذہبی رہنما اور کچھ سابق جرنیل جو شاہانہ زندگیاں گزار رہے ہیں اور جن کی اولادیں لاکھوں کروڑوں کا بزنس کرتی ہیں، سادہ لوح پختونوں کے کاندھوں پر تھپکی دے کر انہیں جنگ اور بدامنی کی آگ میں دھکیلتے رہے اور محلات میں بیٹھ کر واہ واہ کرتے رہے ! کوئی مانے یا نہ مانے، افغانستان کا پائیدار اور طویل المیعاد حل اس کا پختون اور غیرپختون حصوں میں تقسیم ہونا ہے۔ اس سے کوئی قیامت نہیں آجائے گی۔ آخر افغانستان کے علاقے وہی تو ہیں جو برصغیر سے، وسط ایشیا سے اور ایران سے الگ ہوئے۔ کوریا بھی امن کی خاطر دوحصوں میں منقسم ہوا۔ اگر ازبک ، تاجک ،ہزارہ اور ترکمان الگ ہوکر امن اور ترقی کا سفر جاری رکھ سکتے ہیں تو اس میں حرج ہی کیا ہے ؟ہوسکتا ہے اس سے ہمیشہ شمشیر بکف رہنے والے پختون بھی اپنے بچوں کے ہاتھوں میں غلیل اور رائفل کے بجائے کتاب اور لیپ ٹاپ دے دیں !! یوں بھی ہر تھوڑے عرصے کے بعد پاکستان کے سرپر ڈیورنڈ لائن کی تلوار لٹکانے والے پختونوں کو ایک سرحد شمال کی طرف مل جائے تو کیا عجب پاکستان کو وہ اس کے حال پر چھوڑ دیں !!