وہ پانچ تھے، ایک ہی ملک سے تھے اور پانچوں پاکستانی تھے۔ پھر ان میں سے ایک نے اپنی شملے والی پگ کی طرف اشارہ کیا اور کہا میں پنجابی ہوں۔ دوسرے نے کالی لنگی سر پر باندھی اور بندوق گلے میں ڈال کر نعرہ لگایا میں پختون ہوں۔ تیسرے نے اجرک اوڑھی اور کہا میں سندھی ہوں، چوتھے نے کڑھی ہوئی واسکٹ پہن کرکہا میں بلوچی ہوں۔ پانچویں نے کہا، نہیں، ہم سب پاکستانی ہیں۔ چاروں نے اصرار کیا نہیں ہم بلوچ ہیں، ہم سندھی ہیں ،ہم پختون ہیں ،ہم پنجابی ہیں تو پھر پانچویں نے کہا کہ ایسا ہے تو ایسا ہی سہی، پھر میں بھی مہاجر ہوں۔ الطاف حسین کے گرد گھیرا تنگ ہورہا ہے ۔کچھ لوگ اس پر بھنگڑے ڈال رہے ہیں۔ افسوس ! ان کی نظر دیوار کے پار دیکھنے سے قاصر ہے۔ کچھ لوگ الطاف حسین کو ایم کیوایم اور ایم کیوایم کو الطاف حسین کہہ رہے ہیں اور برطانوی پولیس کو طالبان کا ہم نواقرار دے رہے ہیں۔ افسوس! وہ بچوں جیسی بات کررہے ہیں یا دوسروں کو بچہ سمجھ رہے ہیں۔ افراط اور تفریط سے کوئی مسئلہ سلجھتا ہے نہ اس کی تفہیم ہوتی ہے۔ اگر ہرشخص تصویر کے صرف اس حصے کو مکمل تصویر سمجھے جو اسے نظر آرہا ہے تو وہ ہمیشہ گمراہ ہی رہے گا۔ نتائج دیکھ کر شور برپا کرنے والے اور اسباب پر غور نہ کرنے والے اس بدقسمت کسان کی طرح ہیں جس نے بھوسی سے غلہ الگ کیا۔ پھر غلے کو کھلیان ہی میں چھوڑ کر گھر گیا اور سوگیا۔ بارش نے اس کا غلہ برباد کردیا اور اب وہ روپیٹ رہا ہے لیکن یہ تسلیم نہیں کررہا کہ پیروں پر کلہاڑی کسی اور نے نہیں، اس نے خود ماری ہے۔ کوئی لیڈر ناگزیر نہیں ہوتا۔ قائداعظم چلے گئے ،بھٹو رخصت ہوگئے۔ الطاف حسین اس ابتلا سے بچ نکلے تب بھی ایک دن دنیا چھوڑجائیں گے۔ نواز شریف زرداری سب فانی ہیں۔ لیکن پاکستان کے عوام ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستانی عوام کا ایک بڑا حصہ الطاف حسین کی قیادت تسلیم کرنے پر کیوں مجبور ہوا؟ جن لوگوں نے تقسیم کے وقت پیش گوئی کی تھی کہ پاکستانی قومیتوں میں بٹ جائیں گے، ہم نے روز اول ہی سے ان کی پیش گوئیاں کو درست ثابت کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔ ہم پاکستانی بننے کے بجائے لسانی گروہوں میں منقسم ہوگئے۔ وہ لوگ جوسرحد پار سے ہجرت کرکے جنوب میں آباد ہوئے تھے، یہ تماشا دیکھتے رہے اور ایک مدت تک دیکھتے رہے۔ اگر ہم غورکریں تو شمالی ہندوستان سے آئے ہوئے پاکستانیوں میں اور مشرقی پاکستانیوں میں گہری مماثلت تھی۔ یہ لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور وڈیرہ شاہی سے کوسوں دور۔ ہم آج تک یہ بات نہیں سمجھ پارہے کہ مغربی پاکستان کے سرداروں ،جاگیرداروں اور خانوں کے ساتھ مشرقی پاکستانی نباہ نہیں کرسکتے تھے، لیکن بچے کھچے پاکستان کے جنوبی علاقوں میں آکربسنے والے پاکستانی مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بھی ہمارارنگ ڈھنگ دیکھتے رہے جو وہی کا وہی رہا۔ انہوں نے دیکھا کہ جولوگ اسمبلیوں میں آتے ہیں وہ اپنی سرداریوں ،زمینداریوں اور جاگیروں کے گھمنڈ میں رہتے ہیں۔ ان میں تعلیم ہے نہ متانت ۔ گہرائی ہے نہ سنجیدگی۔ یہ تو ابھی چند ماہ پہلے کی بات ہے۔ ساری دنیا نے یوٹیوب پر دیکھا۔ سردار سیاست دان کس طرح ایک خاتون سیاست دان کی توہین کررہے تھے اور ٹھٹھے مارمارکر ہنس رہے تھے۔ احاطہ تحریر میں لایا جاسکتا ہے نہ زبانی بتایا جاسکتا ہے۔ نقل کفر تو کفر نہیں ہوتی لیکن فحاشی کی نقل فحاشی ہی ہوتی ہے۔ اردو بولنے والوں کے توہین آمیز نام رکھے گئے۔ انہیں دانستہ یا نادانستہ باور کرایا جاتا رہا کہ میاں! تعلیم کی یہاں کوئی حیثیت نہیں، اس ملک میں اگر اہمیت ہے تو جاگیروں کی ہے، موروثی نشستوں کی ہے اور اسلحہ کی ہے۔ معاف کیجیے گا۔ اردو بولنے والے اگر اپنے آپ کو مہاجر نہ کہلواتے تو کیا قیامت تک مکڑ، تلیر اور مٹروے کہلواتے رہتے ؟ آج جو لوگ اعتراض کررہے ہیں کہ الطاف حسین نے اپنے پیروکاروں سے کہا کہ ٹیلی ویژن اور وی سی آر فروخت کرو اور بندوقیں کلاشنکوفیں خریدو، انہیں یہ یاد نہیں کہ اکبر بگتی اسلام آباد آتے تھے تو اڑھائی سو کلاشنکوف بردار محافظ ان کے ساتھ ہوتے تھے۔ اور یہ گوارا تھا۔ اس پر کوئی معترض نہ تھا۔ اندرون سندھ سے وڈیرے کراچی جاتے تھے تو ان کی گاڑیوں کے ساتھ اور ان کے محلات پر ایسی ایسی ہیئت کذائی والے اسلحہ بردار ہوتے تھے کہ دیکھ کر وحشت ہوتی تھی۔ ہمیں یہ تو معلوم ہے کہ ایک گروہ اپنے حقوق مانگتے وقت جارحیت پراترآتا ہے لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اندرون سندھ سے ان امیدواروں کو گھروں سے بلابلا کر افسریاں پیش کی گئیں جو مقابلے کے امتحان میں فیل ہوچکے تھے۔ ہم انصاف نہیں کرتے ۔ ہم انصاف پسند ہوتے تو ایک گروہ پر نہیں، سب گروہوں پر یکساں اعتراض کرتے۔ اگر یہ نعرہ لگے کہ جاگ پنجابی جاگ، تیری پگ نوں لگ گیا داغ، اگر مشرقی پنجاب سے آنے والے چیف منسٹروں سے آئے دن جپھیاں ڈالی جاتی رہیں، جو بستیاں چھوڑ کے آئے تھے، انہی کے نام پر یہاں پھر بستیاں بسالی جائیں، غلام مصطفی کھر اور اچکزئی صاحب چادریں ایک خاص سٹائل میں اوڑھتے رہیں۔ صوبے کا نام تبدیل کرکے ایبٹ آباد سے لے کر ڈیرہ اسماعیل خان تک کے لوگوں کواجنبیت کی دیوار کے اس پار دھکیل دیا جائے، بلوچستان میں زبانوں اور قومیتوں کی بنیاد پر درجنوں سیاسی جماعتیں وجود میں آجائیں، اگر اس سب کچھ پر اعتراض نہیں تو پھر ایک گروہ کے چوڑی دار پاجامے پہننے اور مہاجر کہلانے پر کس طرح اعتراض کیا جاسکتا ہے ؟ میں اگر سوختہ ساماں ہوں تو یہ روز سیاہ خود دکھایا ہے مرے گھر کے چراغاں نے مجھے جودوست تمسخراڑاتے ہیں کہ الطاف حسین کے ٹیلی فونک خطابوں کو سننے والے روبوٹ لگتے ہیں۔ وہ یہ بھی تو بتائیں کہ ان کے پاس متبادل کیا ہے ؟ کیا وہ سندھ کارڈ کھیلنے والی پیپلزپارٹی میں قبول کرلیے جائیں گے ؟ ایک بار پھر معاف فرمائیے گا، حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ گلے میں لٹکانے والے پنجاب میں تو آکسیجن بھی اس بنیاد پر تقسیم ہوتی ہے کہ آرائیں کون ہے، کشمیری کون ہے ،جاٹ کون ہے، اس سانحہ کو ہم پی جاتے ہیں کہ چند ماہ پہلے پی این اے کے کارکنوں نے اسفند یارولی کو اردو بولنے کی اجازت نہیں دی اور اس نے منتیں کرکے انہیں سمجھایا کہ میڈیا کے نمائندوں کو پشتو نہیں آتی۔ آج اگر کراچی اور حیدر آباد کے عوام الطاف حسین جیسی سیماب صفت شخصیت کی قیادت قبول کرنے پر مجبور ہیں تو اس حدتک انہیں خود ہم لوگوں نے دھکیلا ہے۔ ہم پنجابی سندھی پٹھان بننے کے بجائے صرف پاکستانی رہتے تو وہ بھی مہاجر نہ بنتے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ایم کیوایم سے ڈھیروں غلطیاں ہوئیں۔ الطاف حسین نے جب مہاجر کا لفظ اپنی جماعت سے ہٹایا تو چڑیاں کھیت چگ چکی تھیں۔ چھاپ لگ چکی تھی۔ اگر وہ پاکستان بھر کے پسے ہوئے طبقات کو ساتھ لے کر پہلے دن ہی سے وڈیرہ شاہی کے خلاف محاذ بناتے تو آج پورے ملک کی مڈل کلاس ان کے ساتھ ہوتی! اب بھی وقت ہے کہ ایم کیوایم زیادہ اہمیت اپنے عوام کو دے۔ اس الزام پر ہنسا ہی جاسکتا ہے کہ برطانوی اسٹیبلشمنٹ الطاف حسین کے خلاف سازش کررہی ہے۔ وہی سیاسی جماعتیں زندہ رہتی ہیں جو سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہتی ہیں اور ایک مقام پر اٹک کر نہیں رہ جاتیں بلکہ رکاوٹ دورکرکے آگے بڑھتی ہیں۔ پیراہن کو خون میں ترکرکے لہرانے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ایم کیوایم مانے یا نہ مانے، اسے نئی قیادت کی ضرورت ہے۔ !