چودھری بیمار ہوگیا تو میراثی کے بچے نے ماں سے پوچھا کہ بیمار چودھری جانبر نہ ہوا تو اگلا چودھری کون ہوگا۔ ماں نے بتایا کہ اس کا بیٹا۔ بچے نے پوچھا، وہ بھی مر گیا تو پھر؟ ماں نے کہا پھر اس کا بیٹا۔ پرامید بچے نے پوچھا وہ بھی مر گیا تو… میراثن نے کہا کہ سارا گائوں بھی مر جائے تو تم کبھی چودھری نہیں بن سکتے۔ 1947ء سے لے کر اب تک پاکستانی عوام اس آس پر بیٹھے ہیں کہ ایک دن وہ بھی پاکستان کے حکمران بنیں گے‘ لیکن لگتا ہے پاکستان کے سارے سردار اور نواب بھی رخصت ہوجائیں تو عوام کی باری پھر بھی نہیں آئے گی۔ پریکٹس کے لیے برطانیہ سے حکمران منگوانے شروع کیے جا چکے ہیں۔ جنگل کی سب سے چست مخلوق جنگل کی بادشاہ بن گئی۔ کئی دن گزر گئے اس نے نظام مملکت میں کوئی دلچسپی نہ لی۔ ایک دن سب جانور اکٹھے ہو کر اس کے حضور گئے۔ بادشاہ سلامت درخت کی ایک شاخ پر بیٹھے تھے۔ وفد کو دیکھا تو کود کر ساتھ والے درخت کی ٹہنی پر جا بیٹھے۔ وہاں سے چھلانگ لگائی تو واپس پہلے درخت کی کسی اور ٹہنی پر براجمان ہوگئے۔ وفد نے مطالبات پیش کیے تو فرمانے لگے، ان مسائل کو چھوڑیے، آپ حضرات میری آنیاں جانیاں تو دیکھیے۔ مسلم لیگ نون عوام میں کس قدر دلچسپی لے رہی ہے؟ اس سوال کو چھوڑیے۔ اس کے پسندیدہ سیاست دان تو دیکھیے۔ سندھ میں اس وقت مسلم لیگ نون کے ’’بیس کمانڈر‘‘ جناب ممتاز بھٹو ہیں۔ ان کے مائنڈ سیٹ اور عوام دوستی کا اندازہ اس سے لگائیے کہ وفاقِ پاکستان کو نحیف کرنے کے لیے جب بھی پریس میں مضمون لکھتے ہیں، نام کے ساتھ نواب لکھنا نہیں بھولتے۔ یہ اور بات ہے کہ سابقے لاحقے مسلم لیگ نون کے لیے کوئی نئی چیز نہیں۔ جنوبی پنجاب کے ایک بزرگ سیاستدان جو مسلم لیگ نون کا ماضی میں اہم ستون رہے ہیں اور آج کل صرف ستون ہیں، میڈیا کے نمائندوں پر اس لیے غضب ناک ہوتے تھے کہ نام کے ساتھ ’’سردار‘‘ کیوں نہیں لگایا۔ نواب ممتاز بھٹو قومی یکجہتی پر اندھا یقین رکھتے ہیں۔ اس قدر کہ ستر کے عشرے میں کراچی میں بالخصوص اور سارے سندھ میں بالعموم لسانی فسادات انہی کے ہمایونی دور میں برپا ہوئے۔ سندھیوں اور غیر سندھیوں میں فرق ملحوظ رکھتے ہیں مگر سندھیوں کو بھی دو حصوں میں منقسم کرتے ہیں۔ طبقۂ بالا کے سندھی اور طبقۂ زیریں کے سندھی۔ کچھ عرصہ پہلے ہی ایک انتخابی حلقے کے ضمن میں فرمایا کہ یہ تو ہماری خاندانی نشست ہے۔ 1985ء میں لندن میں تھے تو ’’سندھی بلوچ پشتون فرنٹ‘‘ بنایا تاکہ سندھی بلوچ اور پشتون، سندھی بلوچ اور پشتون ہی رہیں۔ خدانخواستہ کہیں پاکستانی نہ بن جائیں۔ پھر 1989ء میں سندھ نیشنل فرنٹ (S.N.F) تشکیل دیا۔ اب بھی اس کے مدارالمہام ہیں۔ مسلم لیگ نون انہیں وفاقِ پاکستان کا صدر بنانا چاہتی تھی۔ کالم نگاروں نے وفاق سے ان کی ’’محبت‘‘ کی داستانیں عام کر دیں۔ بہر طور ’’ہنوز شب درمیان است‘‘ صدارت نہ سہی، تزک و احتشام والی کوئی اور مسند پیش کر دی جائے گی! بلوچستان میں مسلم لیگ نون سردار ثناء اللہ زہری کے کاندھوں پر کھڑی ہے۔ یہ کاندھے کتنے مضبوط ہیں اس کا اندازہ شہزاد احمد کے ایک شعر سے لگایا جاسکتا ہے ؎ وہ کہیں جان نہ لے ریت کا ٹیلہ ہوں میں میرے کاندھوں پہ ہے تعمیر عمارت اس کی لیکن اطمینان بخش امر یہ ہے کہ شاعر کے معشوق کی طرح مسلم لیگ نون کو بھی کاندھوں کی ’’مضبوطی‘‘ کا کوئی ادراک نہیں۔ اگر دامن میں کوئی نظریہ نہ ہو، دور کی بینائی ضعیف ہو، وژن کے ہجے تک نہ آتے ہوں تو پھر ہم رکاب بھی ایک سے ایک بڑھ کر ہوتا ہے۔ کہیں کوئی مشرف کا تربیت یافتہ اور کہیں کوئی مسلم لیگ قاف کے قافلے سے بچھڑا ہوا مسافر! جیسے ہمارے ریستورانوں میں قیمے اور آملیٹ کے اجزا ’’صاف ستھرے‘‘ ہوتے ہیں! سردار زہری صاحب کے پچیس محافظ ہیں اور وہ ان تمام محافظوں اور ان کے اسلحہ سمیت صوبائی اسمبلی کو زینت بخشنا چاہتے تھے۔ پولیس نے مزاحمت کی تو مڈل کلاس وزیراعلیٰ نے سردار صاحب کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے پولیس کے افسر اعلیٰ ہی کو معطل کر دیا۔ بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی تعداد (غالباً) 39 ہے۔ اگر ہر رکن پچیس مسلح محافظ ہمراہ لائے تو محافظوں کی کل تعداد پچیس کم ایک ہزار بنتی ہے! امن و امان کی حالت تو کراچی سے لاہور، پشاور اور اسلام آباد تک یکساں ابتر ہے تو پھر ہر اسمبلی کا ہر رکن اتنے ہی گارڈ کیوں نہ رکھے؟ فوجی جوان، سول افسر، عوام ہر جگہ رات دن گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں۔ سیاست دانوں نے اس صورتحال کا بہترین حل یہ نکالا ہے کہ درجنوں محافظ رکھ لیے ہیں۔ رہا ملک تو وہ جلتا رہے، پگھلتا رہے! اور یہ جو گورنر پنجاب کے پرکشش منصب کے لیے وائسرائے صاحب سمندر پار سے منگوائے جارہے ہیں تو صدر آصف زرداری خوب ہنستے ہوں گے اور لنگوٹیے یاروں کے ہاتھوں پر ہاتھ مار کر ہنستے ہوں گے۔ پانچ سال ان پر طعن و تشنیع کے تیر چلائے جاتے رہے کہ جیل کے ساتھیوں کو نوازتے رہے لیکن ز مانے کی ستم ظریفی دیکھیے کہ ہر حکمران اپنا ڈاکٹر سومرو اور اپنا ڈاکٹر عاصم ساتھ لے کر آتا ہے خواہ دساورہی سے کیوں نہ لانا پڑے۔ جن لوگوں نے جدہ اور لندن میں دلجوئیاں کیں اور دامے درمے سخنے دستگیری کرتے رہے، اب ان کے احسانات چکانے کا وقت آگیا ہے۔ خدا ہمیشہ آباد رکھے پاکستان کے سرکاری خزانے کو، آخر اور کس دن کام آئے گا! ویسے پاکستانی تارکین وطن کی نفسیات عجیب و غریب ہے۔ ہجرت کرکے جن ملکوں میں آباد ہوئے ہیں، وہاں کے جمہوری نظام سے خوب خوب فائدے اٹھاتے ہیں۔ لیکن ’’بیک ہوم‘‘ اس جمہوریت کو قائم کرنے میں ذرا دلچسپی نہیں لیتے بلکہ آمرانہ سیاسی جماعتوں کے دم چھلے بنے رہتے ہیں۔ چودھری محمد سرور صاحب ہی کو لیجیے، ساری زندگی برطانیہ میں سیاست کرتے رہے۔ لیبر پارٹی سے تعلق رہا۔ ان سے کوئی پوچھے کہ کیا لیبر پارٹی میں وہی کچھ ہوتا ہے جو مسلم لیگ نون میں ہوتا ہے؟ آخر وہ میاں صاحب کو کیوں نہیں قائل کرتے کہ پارٹی کے اندر اسی طرح انتخابات ہونے چاہئیں جیسے برطانیہ کی سیاسی پارٹیوں میں ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارے تارکین وطن ’’جہاں جیسا بھی ہے‘‘ کے فلسفے پر یقین رکھتے ہیں۔ ملک کے باہر جمہوریت کی گائے دوہیں گے اور ملک کے اندر شخصی سیاست سے کچھ حاصل ہوجائے تو وہ بھی برا نہیں! پاکستانی عوام کی حکمرانی ابھی دور ہے۔ بہت دور۔ مصطفی زیدی نے کہا تھا ؎ ابھی تاروں سے کھیلو چاند کی کرنوں سے اِٹھلائو ملے گی اُس کے چہرے کی سحر آہستہ آہستہ کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ عوام کی حکمرانی کئی نوری سال دور ہے۔ سردار، نواب، چودھری، خان، مخدوم، چھائے ہوئے ہیں۔ ہر حکمران ان کا محتاج ہے۔ یہ نام نہاد حکمران آتے ہیں، چلے جاتے ہیں لیکن سرداروں، نوابوں، چودھریوں، خانوں، مخدوموں کی حکومت ہمیشہ رہتی ہے اور لگتا ہے ہمیشہ رہے گی۔