ٹھیکے پر دے دیجیے

کیا کسی اور ملک میں بھی ایسا ہو رہا ہے؟ کیا خطّے کے دیگر دارالحکومت ایسا منظر پیش کر رہے ہیں؟ ڈرون حملے؟ طالبان کے ساتھ معاملات؟ آسمان سے باتیں کرتی گرانی کا سدباب؟ کراچی میں ہر روز برپا ہونے والی قیامت کا علاج؟ یہ تو بڑے بڑے معاملات ہیں۔ جس ریاست کا دارالحکومت بے یارومددگار ہو اور جنگل کا سماں پیش کر رہا ہو‘ اُس سے اور کیا امید باندھی جا سکتی ہے؟ پاکستانی دارالحکومت کی کل آبادی چھ لاکھ ہے۔ ایک سال میں 689 گاڑیاں چوری ہوئی ہیں۔ تہران کی آبادی اسّی لاکھ ہے۔ دہلی کی (مضافات کو چھوڑ کر) ایک کروڑ ہے۔ 74 لاکھ گاڑیاں چل رہی ہیں۔ آٹھ ہزار سالانہ چوری ہوتی ہیں جن میں سے اکثر تلاش کر لی جاتی ہیں۔ اس نسبت تناسب کو سامنے رکھیں تو اسلام آباد سے سالانہ چوری تین سو سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ وزیر صاحب بتاتے ہیں کہ ان تقریباً سات سو گاڑیوں میں سے صرف 75 کا سراغ مل سکا۔ یہ کالم نگار دعوے سے کہتا ہے کہ مقابلہ کر لیجیے‘ تہران اور دہلی کی نسبت پولیس کی تعداد اسلام آباد میں کہیں زیادہ ہے۔ فی کس حساب سامنے رکھ لیجیے۔ چھ لاکھ آبادی کے اوپر گریڈ بائیس کا انسپکٹر جنرل پولیس بیٹھا ہے۔ نیچے کے افسروں کا شمار ہی نہیں۔ تزک و احتشام‘ تام جھام‘ شان و شوکت‘ گاڑیوں کے قافلے اس پر مستزاد ہیں۔ ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جانا ہو تو گارڈ متحرک ہو جاتی ہے۔ ان کے محلات پر پہرہ دینے والے جوانوں اور افسروں کا شمار کر کے اطلاع دی جائے تو نیم مردہ عوام پر سکتہ طاری ہو جائے۔ قوم کے خون پسینے کی کمائی کہاں کہاں کس کس طرح خرچ ہو رہی ہے‘ کیسے اڑائی جا رہی ہے؟ وزیر صاحب نے چوری کی گاڑیوں کی سالانہ تعداد بتائی ہے۔ ایک اور کرم فرمائی کریں‘ اسلام آباد میں تعینات پولیس کے افسروں اور جوانوں کی کل تعداد بھی بتا دیں۔ ان پر ہر سال اٹھنے والے اخراجات سے بھی قوم کو آگاہ فرمادیں‘ جوانوں کی جو تعداد ان افسروں‘ ان کے اہلِ خانہ ا ور ان کے عشرت کدوں کی حفاظت پر مامور ہے‘ اس سے بھی مطلع کردیں۔ آپ بھی شرمسار ہوں۔ قوم کو بھی شرمسار کریں! سب جانتے ہیں کہ چوری کی اس بلند ترین شرح کی کیا وجہ ہے؟ کون کس کے ساتھ ملا ہوا ہے؟ دودھ کی رکھوالی کس کے سپرد ہے؟ تاریں کہاں کہاں جُڑی ہوئی ہیں۔ جہاں چرواہا بھیڑوں کو پکڑ پکڑ کر بھیڑیے کے حوالے کر رہا ہو؟ جہاں باڑ خود کھیت کو تر نوالہ بنا رہی ہو؟ اُس خدا کی قسم! جس کے حضور دارالحکومت کے بے بس باشندے فریاد کر رہے ہیں‘ آج اگر وہ جو حفاظت پر مامور ہیں‘ مافیا سے تعلق توڑ لیں اور عزم کر لیں کہ اپنے بچوں کے منہ میں حلال کی چوگ ڈالیں گے تو یہ شرح حیرت انگیز حد تک کم ہو سکتی ہے۔ لیکن مافیا اس قدر طاقت ور ہے کہ سکندر حیات جیسا دیانت دار اور نیک نام سربراہ بھی بے بس ہے۔ شارجہ میں سالِ رواں کے آغاز میں گاڑیوں کی چوری زیادہ ہونے لگی تو پولیس نے سخت ترین اقدامات کیے۔ یہ اقدامات مریخ سے نہیں اتارے گئے۔ کوئی بھی پولیس جو اپنے عوام کے ساتھ مخلص ہوگی‘ اپنی ریاست کی وفادار ہوگی اور جس کی ملازمت کا مقصد صرف اور صرف اکلِ حلال ہوگا یہی اقدامات کرے گی! شارجہ کے باشندے امن و ا مان کی صورتِ حال سے اتنے شادکام تھے کہ انہوں نے گاڑیوں کو پارک کرنے کے بعد مقفّل کرنا ترک کردیا۔ یہاں تک کہ انجن چلتے ہوئے چھوڑ جاتے تھے۔ چوروں کی حوصلہ افزائی کے لیے یہ صورتِ حال کارآمد ثابت ہوئی۔ اب پولیس نے قانون بنایا ہے کہ ایسا کرنے والے شخص پر تین سو درہم جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ چوری کی وارداتیں صرف شارجہ میں زیادہ ہوئیں لیکن پورے متحدہ عرب امارات میں پولیس کی نقل و حرکت میں اضافہ کردیا گیا۔ پارکنگ والی جگہیں رات دن‘ چوبیس گھنٹے‘ کنٹرول روم سے جوڑ دی گئی ہیں جہاں ہر لحظہ‘ ہر ثانیہ نگرانی کی جا رہی ہے۔ پولیس کی مستعدی کی انتہا دیکھیے کہ چابیاں تیار کرنے والے ایک ایک دکاندار کی نگرانی شروع کردی گئی کہ کون کون جعلی چابیاں بنا رہا ہے۔ اس محنتِ شاقہ اور اس اخلاص کا نتیجہ یہ نکلا کہ سال کے اختتام پر چوری کی تعداد حیرت انگیز حد تک کم ہوگئی۔ ظلم کی انتہا دیکھیے کہ پاکستان کے دارالحکومت میں پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم نہ ہونے کے برابر ہے۔ بسوں کا وجود ہی نہیں۔ ویگنیں اور سوزوکیاں مسافروں سے وہی سلوک کر رہی ہیں جو ان کے بھائی پولیس کی وردی پہن کر گاڑیوں کے مالکان سے کر رہے ہیں۔ ایسے میں ایک شخص خون پسینے کی کمائی سے‘ بچوں کا پیٹ کاٹ کر‘ گاڑی خریدتا ہے تاکہ اس کے اہل و عیال ٹریفک کی ذلت آمیز صورتِ حال میں آرام کا سانس لے سکیں۔ لیکن افسوس! صد افسوس! وہ کار چوری ہو جاتی ہے۔ اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کار چوری ہونے کے بعد مالک پولیس کو چوری کی رپورٹ کرتے ہوئے ڈرتا ہے کہ کار تو گئی‘ جو سازو سامان گھر میں بچ گیا ہے‘ اس سے بھی محروم نہ ہو جائے۔ اس کالم نگار نے تاشقند جیسے پسماندہ شہر میں زیر زمین ریلوے کا چاق و چوبند نظام دیکھا ہے۔ ہر چند منٹ کے بعد ریل گاڑی آتی ہے۔ خودکار دروازے کھلتے ہیں‘ مسافر اترتے اور چڑھتے ہیں۔ دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ شہر بھر میں بسیں دوڑتی پھرتی ہیں۔ چلیے‘ یہ تو روسی استعمار کا تحفہ تھا۔ دلی میں تو انگریز انڈر گرائونڈ ریلوے بنا کر نہیں گئے تھے۔ چھ لائنوں پر مشتمل یہ نظام ایک سو نوے کلو میٹر لمبی پٹڑیوں پر قائم ہے۔ ایک دن میں دو ہزار سات سو پھیرے لگانے والی ٹرینیں ہر دو منٹ چالیس سیکنڈ بعد میسر آ رہی ہیں۔ صبح چھ بجے سے رات گیارہ بجے تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ بیس لاکھ مسافر ہر روز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس کی منصوبہ بندی 1984ء میں آغاز ہو گئی تھی۔ یہ 1984ء ہمارے ہاں بھی آیا تھا اور پورے تین سو پینسٹھ دن موجود رہا۔ تعمیر 1998ء میں ابتدا ہوئی۔ 2002ء میں پہلی انڈر گرائونڈ ریل چل پڑی۔ منافع پہلے سال ہی آنا شروع ہوگیا۔ جیسا کہ تمام بڑے ملکوں میں ہو رہا ہے‘ دہلی میں بھی ہر سٹیشن پر اے ٹی ایم‘ چائے خانوں‘ سپر سٹوروں کی سہولت موجود ہے۔ لیکن دوسری طرف بھارت کے حکمرانوں نے اپنی دولت دساور نہیں بھیجی۔ اب تو وہاں Reverse-Brain-Drain شروع ہو چکا ہے۔ یعنی بھارتی دوسرے ملکوں کی ملازمتیں چھوڑ چھوڑ کر واپس آ رہے ہیں۔ سید منور حسن نے کل پاکستان کے وزیراعظم سے اپیل کی ہے کہ بیرون ملک ان کی جو دولت جمع ہے اور جو اربوں روپے کے اثاثے ہیں وہ ملک میں لے آئیں تو ملک معاشی لحاظ سے ترقی کر سکتا ہے کیونکہ خالی بیانات دینے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ اگر میاں محمد نوازشریف اور آصف علی زرداری اپنی دولت گھر واپس لے آئیں‘ اس سے ملک کے بڑے شہروں میں زیر زمین ریلوے پر سرمایہ کاری کریں اور بے شک پانچ سال تک سارا منافع خود لے لیں تو ان کی دولت میں کئی گنا اضافہ ہو جائے گا اور عوام کو فائدہ اس کے علاوہ ہوگا۔ بات دور نکل گئی۔ قصہ دارالحکومت میں گاڑیوں کی بے تحاشا چوریوں سے شروع ہوا تھا۔ چھ لاکھ آبادی کے شہر میں سالانہ سات سو گاڑیاں چوری ہو رہی ہیں۔ ہمارے انگریز آقائوں نے ایک لفظ ’’آئوٹ سورس‘‘ ایجاد کیا ہے۔ عوام پر رحم کیجیے اور دارالحکومت کی حفاظت کا کام کسی کو ٹھیکے پر دے دیجیے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں