الطاف سے قرابت تھی۔ ہم گائوں میں پڑوسی تھے اور ہمجولی بھی۔ جولائی کی چلچلاتی دوپہروں میں کبوتروں کے بچے ڈھونڈنے دور چلے جاتے اور گھر والوں سے پٹتے۔ اس نے گیس اور تیل کے نیم خود مختار ادارے میں ملازمت کرلی اور دور افتادہ مقامات پر رہا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد فتح جنگ میں گھر بنالیا۔ غالباً دس سال پہلے کی بات ہے جب اسے دل کے عارضے نے آگھیرا۔ اس کا محکمہ ریٹائرڈ ملازمین کے حق میں فیاض ہے۔ راولپنڈی کے ایک بڑے نام اور وقار والے ہسپتال میں داخل ہوا۔محکمے نے ساڑھے پانچ لاکھ روپے ادا کیے اور اس کا بائی پاس آپریشن ہوا۔ آپریشن کے بعد ہفتہ اور پھر کئی ہفتے گزرگئے۔ یہی بتایا جاتا رہا کہ بحالی ہورہی ہے۔کچھ وقت لگے گا اور یہ کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں۔جب بھی خبرگیری کے لیے ہسپتال جانا ہوا، اس کا بیٹا ظفر برآمدے میں اس بڑے کمرے کے سامنے کھڑا ہوتا جس میں بحالی والے مریض رکھے جاتے تھے اور لواحقین کے لیے اندر جانا منع تھا۔جب تین چار ہفتے مزید گزر گئے تو ایک دن ہسپتال کے عملے سے '' مل ملاکر‘‘ یہ نویسندہ اندرگیا۔ الطاف کو دیکھ کر جھٹکا لگا۔ سخت جھٹکا۔ اس کا پیٹ بہت زیادہ سوج چکاتھا۔ آنکھیں دونوں کھلی تھیں لیکن بات نہیں کرسکتا تھا۔ ہاں اس نے پہچانا اور ایک لمحے کے لیے میرے بازو پر اپنا ہاتھ رکھا۔ دہشت اورخوف میں لیٹا۔ باہر آیا توظفر سے یہی کہہ پایا کہ بیٹے اللہ خیر کرے۔ جس بے بسی اور بیچارگی سے اس نے کہا کہ چاچا جی! ہسپتال والے کچھ بتا ہی نہیں رہے کہ کیا پوزیشن ہے ، یوں لگا جیسے یہ بے چارگی یہ کسمپرسی آسمان میں چھید کرڈالے گی۔
چند دن بعد خبر ملی کہ الطاف کا انتقال ہوگیا۔ بھاگم بھاگ ہسپتال پہنچا۔ جسدخاکی ایمبولینس میں رکھاجارہا تھا۔ ظفر گلے سے لپٹ کر ہچکیاں لینے لگا۔ بار بار ایک ہی فقرہ کہتا، چاچا جی، میں ابو سے کوئی بات ہی نہیں کرسکا۔ ان ظالموں نے مجھے کسی مرحلے پر کچھ نہیں بتایا۔
آج تک الطاف کی یاد جب بھی آتی ہے یا مشترکہ عزیزوں سے اس کا ذکر چھڑتا ہے تو اس کی ایک ہی تصویر دماغ کے پردے پر ابھرتی ہے۔ کھلی آنکھیں،سوجا ہوا پیٹ اور بازو پر رکھا ہاتھ۔ ایک ثانیے کے بعد یہ تصویر محو ہوجاتی ہے۔ پھر ظفر کی ہچکی سنائی دیتی ہے۔ چاچا جی ان ظالموں نے مجھے کچھ بھی نہیں بتایا۔ میں ابو سے مل سکا نہ بات ہی کی۔
گزشتہ ہفتے آسٹریلیا میں ایک دوست کے ساتھ ہسپتال میں ایک دن گزارنے کا اتفاق ہوا۔ اس پاکستانی دوست کا آپریشن ہونا تھا۔ آپریشن بہت بڑا نہیں تھا لیکن بے ہوش پورا کیاجانا تھا۔ آپریشن سے دو دن پہلے ڈاکٹر کے پاس گئے۔ ہمیں انتظار گاہ میں بٹھایا گیا۔ جیسے ہی ہماری باری آئی، ڈاکٹر اپنے کمرے سے نکلا، ہنس کر ہاتھ ملایا اپنے کمرے کا دروازہ ہمارے لیے کھولا اور اندر لاکر کرسیوں پر بٹھایا۔ اگر ہمارے سامنے کسی اور مریض اور اس کے لواحقین کو اس طرح لایا جاتا تو ہمیں یقین ہوجاتا کہ یہ لوگ بڑے لوگ ہیں ، وی آئی پی یا ڈاکٹر کے جاننے والے ہیں۔ ڈاکٹر کی سیکرٹری لائونج میں اپنے ڈیسک پر بیٹھی تھی۔ ایک لمحے کے لیے خیال آیا کہ اتنے بڑے سرجن کو اٹھ کر استقبال کرنے اور اپنے کمرے سے باہر آنے کی کیا ضرورت تھی۔ سیکرٹری کو حکم دیتا کہ اگلا مریض اندر بھیجو۔
ڈاکٹر نے بتایا کہ دو دن بعد آپ کے لیے وقت مقرر کیا ہے۔ اس کے بعد اس نے اس کارروائی کی مکمل تفصیل بتانا شروع کی جو دو دن بعد ہونا تھی۔کہاں آنا ہے ؟ وہاں کا ایڈریس کیا ہے؟کیسے پہنچنا ہے؟ ڈاکٹر کے آنے سے پہلے سٹاف کیا کر ے گا۔ کون کون سے ٹیسٹ ہوں گے ، پھر آپریشن میں کتنی دیر لگے گی۔ بے ہوشی سے کتنی دیر میں بحالی ہوگی، کس وقت گھر بھیج دیاجائے گا۔ اس کے بعد کون سے ٹیسٹ ہوں گے۔ بیج میں کرسمس کی تعطیلات آنے کی وجہ سے کتنی تاخیر کا امکان ہوگا۔ مکمل تفصیلات بیان کرنے کے بعد اس نے مریض سے اور دونوں لواحقین سے الگ الگ پوچھا کہ آپ کچھ مزید پوچھنا چاہتے ہیں ؟ اس کے بعد وہ اٹھا، خود دروازہ کھولا اور یوں رخصت کیا، جیسے یہ ایک سماجی ملاقات تھی۔
مقررہ دن اور وقت پر ہم پہنچ گئے۔ کائونٹر پر چند سیکنڈ لگے۔ ایک یا دو منٹ بعد ایک نرس آئی اور کمرے میں لے گئی۔ کمرہ نہیں تھا۔ پردوں کی اوٹ میں کمرہ بنایا گیا تھا۔ سب سے پہلے اس نے تعارف کرایا، میرا نام یہ ہے، میری ڈیوٹی آپ کو آپریشن سے پہلے تیار کرنا ہے۔ پھر اس نے ہسپتال کا مخصوص لباس دیا ایک ٹوکری دی کہ اپنا لباس اتار کر اس میں رکھیں۔ پھر بلڈ پریشر چیک کیا اور بتایا کہ اتنا ہے۔ مریض کے جوتے اپنے ہاتھوں سے اٹھائے اور دراز میں رکھے۔ تھوڑی دیر میں ایک اور خاتون آئی۔ سب سے پہلے اپنا نام بتایا۔ پھر کہا کہ آپ نے کچھ پوچھنا ہے؟ یا کوئی بھی مسئلہ محسوس ہورہا ہے؟ مریض نے سردی لگنے کی شکایت کی۔ مجھے یقین تھا کہ اضافی کمبل کے لیے دوبارہ کہنا پڑے گا یا جانا پڑے گا۔ ایک منٹ سے کم وقت کے بعد ایک اور ہی خاتون نمودار ہوئی۔ اس نے بھی پہلے اپنا نام بتایا۔ پھر ایک کمبل، جو اتنا گرم لگ رہا تھا جیسے آگ پر سینکا گیا ہو، مریض کے اوپر پھیلایا، پھر اس کے اوپر ایک اور کمبل، جونسبتاً پتلا تھا۔ دیا پھر پوچھا کہ کیا مریض بہتر محسوس کررہا ہے؟پھر دو اشخاص آئے۔ دونوں نے اپنے اپنے نام بتائے اور بتایا کہ ان کی ڈیوٹی سٹریچر کو آپریشن تھیٹر تک لے جانے کی ہے۔ پھر ایک صاحب آئے، انہوں نے اپنا تعارف کرایا کہ وہ ڈاکٹر ہیں۔ مریض سے نام پوچھا ۔ پھر کہا کہ سادہ لفظوں میں بتائیے آپ کو کیا تکلیف ہے۔ اندازہ ہوا کہ اس امر کا پختہ یقین کیا جارہا ہے کہ یہی وہ مریض ہے جس کا آپریشن کرنا ہے۔
مریض کو آپریشن تھیٹر میں لے گئے تو ہم دونوں تیماردار دوسری منزل سے گرائونڈ فلور پر آئے اور ہسپتال کی کینٹین میں بیٹھ گئے۔ ہم نے چائے پی اور ایک ایک سینڈوچ کھایا۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ ایک گھنٹہ سے زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ ایک گھنٹہ گزرا تو دوسرے دوست سے پوچھا کہ ہمیں کیسے معلوم ہوگا کہ آپریشن ہوچکا ہے یا نہیں اور یہ کہ مریض کیسا ہے۔ یہ صاحب آسٹریلیا میں بہت عرصہ سے تھے ۔ مسکرا کر بولے کہ فکر نہ کیجیے ، ڈاکٹر یہاں آئے گا اور بتائے گا۔ تعجب ہوا، اس پر بتایاگیا کہ ڈاکٹر ہر آپریشن کے بعد لواحقین سے ملتے ہیں اور پوری تفصیل بتاتے ہیں۔ کچھ دیر کے بعد ڈاکٹر کینٹین میں موجود تھا۔ وہ سبز رنگ کی یونیفارم پہنے تھا اور پلاسٹک کی سفید ٹوپی۔ وہ ہمارے ساتھ ، کرسی پر بیٹھ گیا۔ پوری تفصیل بتائی۔ طبی نکتہ نظر سے اور ذاتی نکتہ نظر سے ایک ایک پہلو پر روشنی ڈالی۔ جب ہم مطمئن ہوگئے تو مسکرا کر ہاتھ ملایا اور واپس دوسری منزل پر چلاگیا۔ ایک گھنٹہ اور گزرگیا پھر ٹیلی فون آیا کہ مریض کو مل سکتے ہیں۔ ایک کمرے میں لے جایاگیا۔ چار مریض بستر نما کرسیوں پر نیم دراز تھے۔سامنے میز تھے ۔ کوئی چائے پی رہا تھا کوئی کچھ کھا رہا تھا۔ ہم اپنے مریض کے پاس بیٹھ گئے۔ ایک خاتون آئی جس نے دو تین بار مریض سے حال پوچھا۔ یہ بھی پوچھا کہ نیند تو نہیں آرہی ؟ چکر تو نہیں آرہے؟ پھر ہم دونوں تیمار داروں کو بتایا کہ گھر جاکر کتنی دیر بعد نیند آئے گی۔ شام کو کیا کھانا ہے۔ درد کتنے دن تک رہ سکتا ہے۔ یہ خاتون جاکر دوبارہ آئی اور تقریباً وہی باتیں دہرائیں۔
جب ہم مریض کو ہسپتال سے باہر لے جارہے تھے تو دیکھا کہ اس کی کلائی پر کپڑا بندھا ہے جس پر اس کا نام لکھا ہے۔ ہسپتال والوں کو یاد دلایا کہ یہ تو آپ نے اتارا ہی نہیں۔ کائونٹر پر بیٹھی ہوئی عورت نے بہت سکون اور دل جمعی کے ساتھ بتایا کہ کچھ مریض اکیلے بھی یہاں سے رخصت ہوتے ہیں۔ اگر ہسپتال کے اندر ، گرائونڈ فلور پر یا پارکنگ ایریا میں کوئی مریض گرپڑے یا بے ہوش ہوجائے تو اس ٹیگ سے نام اور تفصیلات معلوم ہوجاتی ہیں اور اس طرح وقت ضائع کیے بغیر طبی امداد پہنچائی جاسکتی ہے۔ یہاں یہ بتانا نامناسب نہ ہوگا کہ مجموعی ترقی کے حوالے سے آسٹریلیا یورپ اور امریکہ سے بہت پیچھے ہے!
دماغ کی سکرین پر ایک ہچکی ابھر رہی ہے۔'' چاچا جی ان ظالموں نے مجھے کچھ بتایا ہی نہیں۔ میں ابو سے ملا نہ بات ہی کی‘‘
ایک سوال ہے۔ صرف ایک سوال ۔ صرف ایک ۔ کیا ہمارے ڈاکٹر آپریشن کے بعد مریض کے لواحقین کو مل کر تفصیلات سے آگاہ کرسکتے ہیں؟کیا وہ ایسا کریں گے؟