ظاہر کی آنکھ

پاکستانی خاتون صحافی نے اروند کِجری والا کی بھد اُڑائی۔ قصور خاتون صحافی کا نہیں! اس تزک و احتشام کا ہے جو پاکستان کے حکمرانوں کا خاصہ ہے۔ جسے خاتون دیکھتی آئی ہیں۔ 
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ایک سوٹ دوسری بار نہیں پہنتے تھے۔ اس میں مبالغہ بھی ہو تو حقیقت بہرطور یہ ہے کہ ٹرکوں کے ٹرک اور کارٹنوں کے کارٹن ملبوسات سے بھرے باہر سے آتے تھے اور ان کے ڈیفنس لاہور والے محل میں اتارے جاتے تھے۔ خلیج کے اخبار نے پوری کہانی چھاپی تھی۔ پنجابی کا محاورہ ہے کہ غریب کسان کو خوبصورت کٹورا ملا تو پانی پی پی کر جان دے دی۔ گیلانی صاحب پر ایک وقت وہ بھی تھا کہ گھر کا نان و نفقہ چلانے کے لیے ہاتھ کی گھڑی فروخت کردی تھی! 
مشرف صاحب کے بارے میں بھی یہی کچھ پریس میں آیا۔ کبھی تردید نہ ہوئی۔ چین گئے تو گرم ''انڈر گارمنٹس‘‘ خریدنے کے لیے کسی ہم سفر سے ادھار لیا۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ کنالی کے سوٹ پہننے لگے جو شروع ہی ڈیڑھ لاکھ روپے سے ہوتے ہیں۔ شیخ رشید سے لے کر مشاہد حسین تک... جو بھی وزارت کا قلم دان سنبھالتا ہے‘ خوش لباس ہو جاتا ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کا دوسرا گھر دبئی میں ہوتا تھا۔ اب پہلا گھر دبئی‘ جدہ یا لندن ہوتا ہے۔ یہ لطیفہ نہیں واقعہ ہے کہ ایک پاکستانی افسر ٹریننگ کے لیے امریکہ گیا۔ روز سوٹ بدل بدل کر کلاس میں جاتا تھا۔ بالآخر ادارے میں کسی ذمہ دار فرد نے سمجھایا کہ میاں یہاں تم کسی کارپوریشن کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے میٹنگ اٹینڈ کرنے نہیں آتے۔ باقی ہم درس جس طرح ربڑ کے جوتے اور جین کی پتلون پہنتے ہیں‘ ایسا ہی کرو۔ 
اور تو اور تعلیمی اداروں میں بھی سوٹ کی قیمت اور کار کی لمبائی لائق یا نالائق بناتی ہے۔ اچھی طرح یاد ہے کہ فنانشل ٹائمز لندن نے متحدہ پاکستان کے زمانے میں پاکستان نمبر نکالا تو تقریباً سارے مضامین مشرقی پاکستان کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور طلبہ کے لکھے ہوئے تھے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی نے مشرقی پاکستان کا مقدمہ لڑا اور چھ نکات لے کر اُٹھی۔ مغربی پاکستان کی یونیورسٹیاں کہاں تھیں؟ قدیم ترین یونیورسٹی میں طلبہ زیادہ وقت نہر کے کنارے گزارتے تھے۔ امارت جتاتے تھے یا معاشقہ لڑاتے تھے۔ اب تو خیر‘ یوں بھی جس گروہ کے پنجے میں ہے‘ وہ گروہ اسے جنوبی ایشیا کا بے کار ترین تعلیمی ادارہ بنا چکا ہے! 
پاکستانی خواتین کسی اجلاس میں شریک ہونے کے لیے ایک بار دہلی گئیں تو ایک عینی شاہد بلکہ شاہدہ‘ بتا رہی تھیں کہ وہ دن میں تین بار ملبوسات بدلتی تھیں اور بھارتی مندوبین دیکھ دیکھ حیران ہوتی تھیں! 
اس پس منظر میں اروند کِجری وال کا ٹھٹھا اڑانا ہرگز باعثِ تعجب نہیں ع 
فکرِ ہرکس بقدرِ ہمت اوست! 
فرماتی ہیں ''یقین نہیں آتا کہ بیرونی دنیا کے بارے میں اس کی معلومات اس قدر کم ہیں! اس کی قسمت اچھی تھی کہ کسی نے نیٹو افواج کے انخلا کے متعلق کچھ نہ پوچھا‘‘۔ 
اس کے بعد فخر سے کہتی ہیں کہ اُن کے سارے عہدِ صحافت کے دوران ہر پاکستانی سیاست دان نہ صرف یہ کہ اڑوس پڑوس سے واقف تھا بلکہ جو کچھ دنیا بھر میں ہو رہا تھا‘ اس کے متعلق بھی جانتا تھا! اس پر بہترین تبصرہ اخبار کے ایک قاری نے موصوفہ کا مضمون پڑھ کر کیا۔ دیکھیے اور سر دھنیے۔ گھڑوں پانی پڑتا ہے۔ 
''بالکل درست! پاکستانی سیاست دان سمارٹ ہیں۔ خوش لباس ہیں۔ حاضر جواب ہیں۔ گفتگو کے ماہر ہیں اور بھارتیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ صاحبِ علم اور کئی اور لحاظ سے بہتر ہیں۔ بس ذرا یہ دیکھ لیجیے کہ وہ وہ پاکستان کو کس مقام پر لے آئے ہیں‘‘! 
راجہ پرویز اشرف‘ یوسف رضا گیلانی‘ مصطفی جتوئی مرحوم‘ بلخ شیر مزاری‘ بین الاقوامی سیاست پر کس نوعیت کی گفتگو کر سکتے تھے‘ ہم سب جانتے ہیں۔ یہ فہرست خاصی طویل ہے لیکن اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھانے سے کیا حاصل! 
حاشا وکلاّ‘ اس تحریر سے یہ ثابت کرنا مقصود نہیں کہ بھارتی سیاست دان مثالی ہیں۔ تعمیم یہاں والوں کے بارے میں ہو سکتی ہے نہ وہاں کے حوالے سے۔ لیکن یہ ہمارا قومی شعار بن گیا ہے کہ ہم صرف ظاہر دیکھتے ہیں‘ عکس پر مرتے ہیں۔ اصل چھوڑ دیتے ہیں ؎ 
غنیم نے مجھے ظاہر کی آنکھ سے دیکھا 
نظر نہ آئے اُسے اسپ اور سپاہ مری 
یہ عکس ہے جو نظر آ رہا ہے اصل نہیں 
کہ شب سفید ہے اور روشنی سیاہ مری 
یہی رویہ مذہب کے حوالے سے بھی ہم میں سرایت کر چکا ہے۔ اچھا مسلمان ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ دروغ گوئی‘ وعدہ خلافی اور اکلِ حرام سے اجتناب کیا جائے۔ صلہ رحمی کی جائے اور صبح سے شام تک کوئی کام ایسا نہ کیا جائے جس پر پکڑ ہو۔ اچھا مسلمان ہونے کا یہ مطلب ہے کہ خاص قسم کا لباس ہو‘ مخصوص وضع قطع ہو‘ اور دور سے معلوم ہو جائے کہ حضرت تشریف لا رہے ہیں‘ یہی اندازِ فکر زندگی کے ہر شعبے میں ہے۔ لباس کیسا تھا؟ گاڑی کا سائز کیا تھا؟ انگریزی بولنے کا لہجہ کیسا تھا؟ کھانے میں کتنی ڈشیں تھیں؟ کوٹھی کتنی بڑی تھی؟ ملازم کتنے تھے؟ چھٹیاں کہاں گزاری جاتی ہیں؟ کلب کی ممبر شپ ہے یا نہیں؟ حکمرانوں میں سے کس کس نے ولیمے میں شرکت کی؟ سعدی کا واقعہ ہمارے ہی سیاق و سباق سے مناسبت رکھتا ہے۔ عمائدین میں سے کسی نے دعوت پر بلایا۔ عام لباس میں چلے گئے اور وہ بھی پیدل۔ محل کے دروازے پر دربان نے روک لیا۔ واپس گھر گئے۔ لباسِ فاخرہ زیبِ تن کیا۔ سواری پر براجمان ہو کر گئے۔ استقبال کیا گیا۔ کھانا شروع ہوا تو 
قمیض کی آستین شوربے میں ڈبوتے تھے۔ حاضرین نے تعجب کیا تو فرمایا‘ اسی کی دعوت ہے۔ میری تو پزیرائی ہی نہیں ہوئی تھی۔ 
اللہ کے بندو! یہ نہ دیکھو کہ کِجری وال مفلر کس طرح لپیٹتا ہے اور انگریزی بولتا ہے یا نہیں! اس پر رشک کرو کہ اس نے چند ہفتوں ہی میں بہت سے وعدے پورے کر دکھائے۔ ایک خاص حد کے اندر اندر بجلی خرچ کرنے والوں کو پچاس فی صد سبسڈی دے دی گئی ہے۔ پانی کے ٹینکر مافیا کو قانون کے پنجے میں جکڑ دیا گیا ہے۔ بجلی کے جو میٹر تیز چل رہے تھے‘ ان کی جانچ پڑتال غیر جانبدار پارٹی سے کرائی جا رہی ہے۔ ہر گھر کو چھ سو لیٹر کے لگ بھگ پانی مفت سپلائی کیا جانے لگا ہے۔ ہماری پوری تاریخ اس رفتار اور اس قبیل کی ظفریابی سے محروم ہے۔ 
اروند کِجری وال کو اُس کے پس منظر نے بے پناہ فائدہ پہنچایا ہے۔ ایک یہ کہ وہ کسی امیر کبیر گھرانے سے نہیں ہے۔ محلے کی پیداوار ہے۔ دوسرا یہ کہ مقابلے کا امتحان دے کر سول سروس میں آیا اور انکم ٹیکس کے محکمے میں کئی سال کام کر کے دکانداروں‘ تاجروں‘ سرکاری ملازموں اور عام شہریوں کے حالات کا بخوبی مطالعہ اور مشاہدہ کیا۔ 
محل رائے ونڈ کا ہو‘ لاڑکانے کا یا بنی گالہ کا‘ محل ہی ہوتا ہے۔ محلات کے رہنے والوں کو گلی کوچوں میں زندگی گزارنے والوں کا کیا علم! گونگے کی باتیں گونگے کی ماں ہی سمجھ سکتی ہے۔ حافظ شیرازی نے یوں ہی تو نہیں کہا تھا ؎ 
شبِ تاریک و بیمِ موج و گردابی چنین ھائل 
کجا دانند حالِ ما سبک سارانِ ساحل ہا 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں