وطن اور اہلِ وطن کی خوش بختی ہے کہ علمائے کرام کا سایۂ شفقت ہمارے سروں پر قائم ہے۔ ان مقدس ہستیوں کا وجود ایسے ہی ہے جیسے کڑکتی ، چلچلاتی دھوپ میں شیشم کی گھنی ٹھنڈی چھائوں‘ جیسے بے کسی میں سر پر کسی کا ہاتھ‘ جیسے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں چمکتے ستارے۔۔۔ ہمیں اپنی خوش نصیبی پر ناز کرنا چاہیے !
جہاں بھی ہم بھٹکتے ہیں، یہ بزرگانِ کرام فرشتوں کی طرح نمودار ہوتے ہیں، ہمارا ہاتھ تھامتے ہیں اور راہِ راست پر لے آتے ہیں۔ ِادھر ہمارے قدم ڈگمگائے، لڑکھڑائے، اُدھر علمائے کرام ہمارا سہارا بن کر سامنے آ گئے۔ ہم اُن کے مضبوط کندھوں پر ہاتھ رکھتے ہیں اور اپنے آپ کو پھر سے مستحکم کر لیتے ہیں۔
ویلنٹائن ڈے ہی کو دیکھ لیجیے۔ یہ کفریہ دن جیسے ہی نزدیک آتا ہے اور ہمارے دین و ایمان پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے ہمارے علمائے کرام فوراً الرٹ ہو جاتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ مغرب میں جتنی بھی بے حیائی اور فحاشی ہے ‘یہ ویلنٹائن ڈے کی وجہ سے ہے ، ورنہ ویلنٹائن ڈے سے پہلے تو پورا مغرب اخلاقی اقدار میں کمر کمر تک بلکہ گلے گلے تک ڈوبا ہوا تھا۔ ہر عورت حجاب میں محجوب تھی‘ ہر مرد کی نگاہیںچلتے میں زمین پر ہوتی تھیں۔ جیسے ہی ویلنٹائن ڈے کا آغاز ہوا، سب کچھ ختم ہو گیا اور مغرب بے شرمی میں غرق ہو گیا۔ یہی حال بسنت کا ہے۔ بسنت کا منانا کفر کے برابر ہے۔ ہمارے بزرگ نہیں چاہتے کہ ہم راہِ راست سے بھٹکیں۔ جامعہ بنوریہ عالمیہ کے مہتمم حضرت مولانا مفتی محمد نعیم نے قوم کو بروقت خبردار کیا اور فرمایا کہ مغرب نے امتِ مسلمہ کی نوجوان نسل کو تباہ کرنے کے لیے ویلنٹائن ڈے‘ بسنت اور اپریل فول منانے میں مبتلا کر دیا ہے۔ آپ نے مزید فرمایا کہ مغربی کلچر کو فروغ دینے والے ملک کی نظریاتی سرحدوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔ یہ ملک کو مفلوج کرنے کی کوشش ہے۔ آپ نے حکومت کو ہدایت فرمائی کہ ویلنٹائن ڈے اور بسنت جیسے غیر اسلامی ‘فحاشی و عریانیت پھیلانے والے پروگراموں پر پابندی عائد کرے۔
حضرت مولانا سید منور حسن نے بھی اس خطرناک موقع پر اپنے فرائض سے غفلت نہیں برتی۔ آپ نے اُن نوجوانوں کو مبارک باد دی جنہوں نے مغربی بے حیائی پر مبنی ویلنٹائن ڈے کے مقابلے میں ''یوم حیا‘‘ منا کر قومی اقدار کا تحفظ کیا۔
ہمارے علمائے کرام اسی قبیل کے خطروں سے میڈیا کے ذریعے با خبر رہتے ہیں۔ اُن کی نظر یں میڈیا پر ہوتی ہیں اور ہاتھ قوم کی نبض پر؛ چنانچہ جو حرکات شریعت کے خلاف ہوتی ہیں ان پر فی الفور گرفت کرتے ہیں اور جو مذہبی نقطہ نظر سے مضر نہیں ان پر سکوت اختیار فرماتے ہیں۔ اب مہینہ ڈیڑھ پہلے جو کچھ مظفر گڑھ میں ہوا، اُسی کو لے لیجیے۔ مظفر گڑھ سے 80میل کے فاصلے پر احسان پور کا قصبہ ہے۔ اس کی قریبی بستی میں پنچایت نے ایک ''مقدمے‘‘ کا فیصلہ کیا۔''مقدمہ‘‘ یہ تھا کہ مجید نامی ایک شخص نے پنچایت کے آگے فریاد کی کہ اجمل نامی شخص کے اس کی بیوی کے ساتھ ناروا تعلقات ہیں۔ پنچایت نے فیصلہ کیا کہ اجمل سے اس بے عزتی کا بدلہ لیا جائے ؛ چنانچہ حکم دیا گیا کہ اجمل اپنی بہن کو پیش کرے۔ چالیس سالہ بہن پیش کی گئی۔ پنچایت نے دس منٹ غور کرنے کے بعد رولنگ دی کہ متاثرہ پارٹی خاتون سے ''بدلہ‘‘ لے۔ خاتون سے ''بدلہ‘‘ لے لیا گیا۔ دونوں فریق مطمئن تھے کہ جھگڑا ''پرامن‘‘ طریقے سے اختتام پذیر ہو گیا‘ لیکن میڈیا کو معلوم ہو گیا اور آناً فاناً ''انصاف‘‘ کی یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح ملک اور بیرون ملک میں پھیل گئی۔ اس پر کچھ لوگوں نے ''صفائیاں‘‘ پیش کیں‘ جن میں پولیس بھی شامل تھی کہ ''بدلہ‘‘ لیا گیا تاہم ''پوری طرح‘‘ نہیں لیا گیا۔ چالیس سالہ بہن کو فقط برہنہ کیا گیا اوراسے تھپڑ مارے گئے۔ جو کچھ بھی ہوا اس پر بہر طور سب ''متفق ‘‘ تھے کہ عورت کو برہنہ ضرور کیا گیا ‘کمرے میں بھی لے جایا گیا ‘لیکن انتقام ''پورا‘‘ نہ لیا گیا۔
یہ خبر سارے قومی اخبارات میں شائع ہوئی۔ سارے ٹیلی ویژن چینلوں پر نشر ہوئی‘ یہاں تک کہ مشرق وسطی سے نکلنے والے روزنامہ خلیج ٹائمز میں بھی تفصیل سے شائع ہوئی۔ وہاں سے بین الاقوامی میڈیا میں بھی چلی گئی۔ ظاہر ہے کہ ہمارے با خبر علمائے کرام کو بھی واقعہ کی خبر پہنچی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کراچی‘ ملتان‘لاہور ‘اسلام آباداور پشاورسے شائع ہونے والے تمام اخبارات پر خبر چھپے اور بزرگان عظام کو معلوم نہ ہو۔ تاہم نکتہ یہ ہے کہ اگر اس میں شریعت کی خلاف ورزی ہوتی اور اگر یہ ظلم ہوتا تو ہمارے علمائے کرام کیسے خاموش رہ سکتے تھے۔ جو واجب الاحترام مقدس ہستیاں ڈرون حملوں کا سن کر سراپا احتجاج بن جاتی ہیں‘ جو ویلنٹائن کی وحشتوں اور بسنت کی زرد مستیوں سے پوری طرح باخبر رہتی ہیں وہ اتنے بڑے واقعہ سے کیسے لاتعلق رہ سکتی تھیں۔ یقیناً مظفر گڑھ میں جو کچھ ہوا اس میں علماء کے نزدیک کوئی قباحت نہیں تھی! اس سے منطقی طور پر یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ ایسی پنچایتوں کا جال پورے ملک میں بلکہ پورے عالم اسلام میں پھیلا دیا جائے تاکہ عوام کو انصاف ملنے میں صرف دس منٹ لگیں اور شریعت کی خلاف ورزی بھی نہ ہو۔ اس طرح اگر کوئی بدبخت یہ کہتا ہے کہ کاروکاری ‘ ونی یا سوارہ کی رسوم خلاف شریعت ہیں تو اسے اپنے دماغ کا علاج کرانا چاہیے اس لیے کہ کیا اس نے کسی عالم دین سے کبھی سنا ہے کہ یہ ٹھنڈی میٹھی رسمیں جن سے پہنچایتیں عوام کو فیض یاب کرتی ہیں اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں؟
بعینہ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو نذر آتش کرنا اور غیر مسلموں کو یہ وارننگ دینا کہ مسلمان ہو جائو ورنہ مرنے کے لیے تیار ہو جائو... شریعت کے عین مطابق ہے۔ اگر اس میں شریعت کی خدانخواستہ خلاف ورزی ہوتی ہے تو علمائے کرام جو ہر غلطی پر گرفت فرماتے ہیں ‘کیسے خاموش رہ سکتے تھے؟ ایک اندازے کے مطابق مسلمان ملکوں میں دس کروڑ سے زیادہ غیر مسلم رہ رہے ہیں‘ اگر یہ سارے جان بچانے کے لیے اسلام قبول کرلیں تو اندازہ لگائیے ہم مسلمانوں کی آبادی میں کس قدر اضافہ ہو جائے گا اور دنیا پر ہمارا کتنا رعب پڑے گا!