جارج آر ویل کا شہرۂ آفاق ناول و اینیمل فارم، 1945ء میں شائع ہوا۔ یہ بنیادی طور پر سوویت یونین کی نام نہاد اشتراکیت پر چوٹ تھی۔ وہ اشتراکیت جو نام مزدوروں کا لیتی تھی لیکن اصل میں چند مراعات یافتہ لوگوں کی بادشاہی تھی، تاہم یہ ناول اور اس کے محاورے ہر صورتِ حال میں لکھنے والوں کے کام آتے ہیں۔' اینیمل فارم‘ کے جانوروں کو شروع میں یہ بتایا گیا تھا کہ ''سب جانور برابر ہیں‘‘۔ مگر بعد میں مراعات یافتہ جانوروں کے ساتھ جو امتیازی سلوک ہونے لگا، اُس کے جواز میں، اس محاورے میں ترمیم کر دی گئی۔ ترمیم شدہ محاورہ یوں تھا۔'' سب جانور برابر ہیں لیکن کچھ جانور، دوسرے جانوروں کے مقابلے میں زیادہ برابر ہیں‘‘۔
اینیمل فارم کی تازہ ترین یاد ایک بہادر اور جری وفاقی وزیر کا تازہ ترین بیان پڑھ کر آئی۔ وزیر صاحب نے کہا ہے کہ انہیں آمریت پر تنقید کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا اور یہ کہ انہوں نے ہر دور میں آمریت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔ آبائو اجداد 67سال سے آمریت کا مقابلہ کر رہے ہیں اور وہ بھی اس مشن کو جاری رکھیں گے۔
'اینیمل فارم‘ میں جانوروں کو برابری کا جو تصور دیا گیا تھا، آمریت اور جمہوریت کے تصورات بھی بالکل اُسی کی طرح ہیں یعنی تمام آمریتیں بُری ہیں لیکن کچھ آمریتیں، دوسری آمریتوں کی نسبت زیادہ بُری ہیں اور کچھ دوسری آمریتوں سے بہتر ہیں۔ جنرل ضیاء الحق بھی فوجی آمر تھے۔ جنرل غلام جیلانی ان کے تعینات کردہ گورنر تھے لیکن جنرل ضیاالحق بہتر آمر تھے اور جنرل غلام جیلانی بہتر جرنیل اور بہتر گورنر تھے۔ جنرل پرویز مشرف کے دورِ آمریت کے خلاف لکھنے اور بولنے والوں نے کبھی بھی جنرل ضیاالحق کی آمریت پر تنقید نہیں کی۔ ایک معروف صحافی نے کل ہی لکھا ہے کہ جدہ میں میاں صاحب نے کسی سے یہ کہا بھی تھا کہ جنرل ضیاالحق کو دوسرے جرنیلوں کے ساتھ بُرا بھلا کہنا درست نہیں۔ جنرل ضیاالحق نے قومی اداروں کو تہس نہس کر دیا۔ آج یہ ملک مسائل کے جن مگر مچھوں کا سامنا کر رہا ہے، اُن مگر مچھوں کی پرورش ضیاالحق ہی کے دور میں ہوئی تھی لیکن چونکہ کچھ آمریتیں بہتر ہوتی ہیں اس لیے دلدادگانِ جمہوریت، پاکستان کی اس بدترین آمریت کے متعلق دلوں میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔
تو پھر یہ طے ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی آمریت بدترین تھی۔ سوائے مارچ 2008ء کے آخری دن کے، جب اس آمر جنرل پرویز مشرف نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی پہلی کابینہ سے حلف لیا تھا۔ آمر پرویز مشرف سے حلف لینے والوں میں چوہدری نثار علی خان تھے جوسینئر وزیر تھے۔ اسحاق ڈار تھے جو وزیر خزانہ بنے تھے۔ خواجہ سعد رفیق نوجوانوں کے امور کے وزیر بنے تھے۔ احسن اقبال نے وزارت تعلیم سنبھالی تھی۔ خواجہ آصف پٹرولیم اور قدرتی وسائل کے وزیر بنے تھے۔ شاہد خاقان عباسی، تہمینہ دولتانہ، رانا تنویر حسین، ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے، سب اُسی زلف کے اسیر ہوئے۔ سب نے آمر کے کہے ہوئے الفاظ دہرائے تھے اور حلف اٹھایا تھا۔ چائے کا بائی کاٹ کیا گیا، بازوئوں پر کالی پٹیاں باندھی گئیں، پہروں کھڑے رہے تا کہ آمر ہال میں داخل ہو تو اٹھنا نہ پڑے مگر لیلائے وزارت قبول کرلی گئی۔
پھر جب مسلم لیگ نون کا حالیہ دور اقتدار شروع ہوا تو آمر اور اس کے ساتھ وابستہ ہر شخص ہر شے بری تھی، مگر کچھ لوگ کم برے تھے۔ ان کم بروں کے لیے مسلم لیگ کی آغوش وا ہوئی اور انہیںگلے سے لگا لیا گیا۔ کسی کو وزیر قانون بنا دیا گیا‘ کسی کو کچھ اور اعزاز پیش کیا گیا۔
یہی حال جمہوریت کا ہے‘ فوجی صدر کا اقتدار آمریت کا مظہر ہوتا ہے لیکن سیاسی پارٹی پر ایک خاندان کا قبضہ ہو تو وہ آمریت نہیں ہوتی۔ میراسی جوا کھیل رہا تھا جو کچھ جیب میں تھا اور جو کچھ گھر میں تھا‘ سب ہار گیا۔ کچھ نہ بچا تو بیوی کو دائو پر لگا دیا۔ بیوی نے کہا۔ بدبخت! ہار جائو گے تو وہ مجھے لے جائیں گے۔ میراسی نے جواب دیا‘ نیک بخت! کیسے لے جائیں گے؟ میں ہار مانوں گا تو وہ لے کر جائیں گے‘ مانوں گا ہی نہیں تو کیا کرلیں گے؟ سو‘ ہماری مرضی ہے ہم کسے آمریت قرار دیں اور کسے جمہوریت قرار دیں۔ 67 سال سے آمریت کا مقابلہ کرنے والے بہادر اور جری وزیر پارٹی کے اجلاس میں اٹھ کر یہ نہیں کہتے کہ یہ خاندانی آمریت نہیں چل سکتی۔ پارٹی کے اندر انتخابات کرائے جائیں‘ لیکن اس کی ضرورت ہی نہیں۔ جمہوریت وہ نہیں جو برطانیہ، امریکہ اور دوسرے ملکوں میں رائج ہے، جمہوریت وہ ہے جو ہماری سیاسی جماعتوں کو پسند ہے۔ ابھی کل کی بات ہے ایک ''ممبر قومی اسمبلی‘‘ نے راولپنڈی کے ہولی فیملی ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کی اور چیک تقسیم کیے۔ ایم این اے کے استقبال کے لیے مسلم لیگ کے ایم این اے‘ ایم پی اے اور ضلعی انتظامیہ کے بڑے بڑے افسر موجود تھے۔ 6-7 سال تک آمریت کا مقابلہ کرنے والے جواں مردوں کو جمہوریت کی یہی ادائیں پسند ہیں۔ آخر ساڑھے تین سو ایم این اے اور بھی تو ہیں، ان میں سے ایک خاص ایم این اے کیوں چیک تقسیم کر رہا ہے؟ اس لیے کہ وہ شاہی خاندانی کا فرد ہے۔ کل کو یہی نوجوان پارٹی کا سربراہ بنے گا تو آمریت کا مقابلہ کرنے والے بہادر اس کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوں گے کہ یہ بھی جمہوریت ہی کی ایک ادا ہے۔ یہ نوجوان جس کا پنجاب حکومت سے دور کا بھی سرکاری یا جمہوری تعلق نہیں‘ عملی طور پر پنجاب کی حکومت کا سربراہ ہے، لیکن اس کا نوٹس تو جمہوریت کے دلدادگان تب لیں جب آمریت کی نشانیوں کو مٹا لیں۔
جمہوریت کی کس کس ادا کا تذکرہ کیا جائے۔ ایک صوبہ‘ وفاقی حکومت کو مکمل طور پر پس پشت ڈال کر بیرونی ملکوں سے تجارتی ‘ صنعتی اور ترقیاتی معاہدے کر رہا ہے اور مسلسل کر رہا ہے۔ وزارت خارجہ اعتراض کر سکتی ہے نہ دوسری متعلقہ وفاقی وزارتیں چوں چرا کرنے کی تاب رکھتی ہیں۔ یہی کام اگر کوئی دوسرا صوبہ کرے تو غداری کا اور وفاق کو کمزور کرنے کا الزام لگے اور جینا دوبھر کردیا جائے۔ جب بھی وزیراعظم بیرونی دوروں پر جاتے ہیں‘ ایک ہی صوبے کا حکمران ان کے ہمراہ ہوتا ہے۔ جمہوریت کے لیے قربانیاں دینے والوں کو اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی۔ اسی طرح پیپلز پارٹی بری تھی لیکن اس کی باقیات پیاری لگتی ہیں۔ تقریباً نصف کروڑ روپیہ‘ غریبوں کے لیے مختص فنڈ سے عیدی کے نام پر لے کر جیب میں ڈالنے والا پیپلز پارٹی کی آنکھ کا تارا افسر‘ آج بھی وفاق کے عظیم الشان منصب پر فائز ہے لیکن جمہوریت کی ایک ادا یہ بھی تو ہے کہ من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو۔ یعنی تمہاری پیٹھ کھجانے کے لیے میں کھُرکُو بنوں گا اور میری پیٹھ کھجانے کے لیے تم کھُرکُو بنو۔ آمریت دوسروں کی ہو تو بری ہے لیکن ہماری اپنی ہو تو نہ صرف بری نہیں‘ بلکہ اصل جمہوریت ہے۔ واہ۔ جناب۔ واہ ؎
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے