ہم اُس کے وہ ہور کسی کا

دنیا ٹی وی کے کامران شاہد نے وفاقی وزیر کو ایک گوشے میں محصور کر رکھا تھا۔ اُس دن کی تازہ ترین خبر یہ تھی کہ وزیراعلیٰ نے فوج سے اپنی اور اپنے اہل خانہ کی حفاظت کے لیے بات کی تھی۔ کامران پوچھ رہا تھا کہ اپنی ہی پولیس پر بے اعتباری! عوام کے مورال کا کیا ہو گا! وفاقی وزیر آخر اس کا کیا جواب دیتے! کرے کوئی اور بھرے کوئی۔ آپا نثار فاطمہ کے فرزند اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ بات کو طول دے کر شائستگی سے طرح دے گئے۔ پولیس ایک ادارہ ہے۔ یہ ادارہ منہدم ہو چکا ہے۔ اس انہدام کا ذمہ دار کسی ایک حکومت کو ٹھہرانا ناانصافی ہو گا۔ حسبِ توفیق سب نے حصہ لیا۔ موجودہ حکمران، سارے دعووں کے باوجود، تھانہ کلچر بدل نہ سکے۔ ہاں وہ کام انہوں نے ضرور کیے جس سے تھانہ کلچر نہ صرف جاری رہا بلکہ مزید تباہی کی طرف رواں ہوا۔ایک اوسط درجے کا دماغ رکھنے والے پاکستانی کو بھی معلوم ہے کہ پولیس اگر آج وزیراعلیٰ کی حفاظت نہیں کر سکتی اور وزیراعلیٰ کو چھائونی کی طرف دیکھنا پڑا ہے تو اس عبرت ناک زوال کے اسباب کیا ہیں؟ اس کا سب سے بڑا سبب پولیس کی سیاست زدگی ہے۔ یہ ادارہ سیاست دانوں کے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی ہے۔ تعیناتیاں ہیں یا ترقیاں، کوئی کام ترتیب سے نہیں ہوتا۔ ضابطہ ہے نہ قاعدہ قانون! Tenureکا کوئی تصور ہی نہیں! صرف ایک مثال۔ گزشتہ حکومت نے پاسپورٹ کے نظام کو تہس نہس کر دیا تھا۔ نیک نام پولیس افسر ذوالفقار چیمہ کو سربراہ بنایا گیا۔ اس نے رات دن ایک کر کے، بھیس بدل بدل کر خود صورتِ احوال کا جائزہ لے لے کر سرپٹ بھاگتی بدنظمی کو کنٹرول کیا۔ ہزاروں کا بینک لاگ نکالا۔ موجودہ حکومت آئی تو ذوالفقار چیمہ کو وہاں سے ہٹا دیا گیا۔ کیوں؟ مدت(Tenure) پوری نہیں ہوئی تھی۔ ترقی بھی نہیں ہو رہی تھی۔ اس کے خلاف شکایت بھی کوئی نہیں تھی۔ صرف اس لیے کہ سسٹم کوئی نہیں۔ بادشاہت ہے۔ اعلیٰ شخصیت یا شخصیات کے منہ سے نکلا ہوا لفظ آئین کا درجہ رکھتا ہے۔ بھرتیاں میرٹ پر نہیں ہوتیں۔ پورا ملک ڈاکوئوں کے قبضے میں ہے۔ پرانے وقتوں میں نیرو بانسری بجایا کرتا تھا۔ آج حکمران حبیب جالب کے اشعار گاتے پھرتے ہیں، شاہراہیں محفوظ ہیں نہ گھر، بینک نہ سرکاری دفاتر۔ جو تم نے بویا ہے، وہی کاٹ رہے ہو۔ پوری دنیا ٹیلی ویژن پر دیکھ اور سُن رہی ہے کہ وزیراعلیٰ حفاظت کے لیے پولیس کی طرف نہیں، چھائونی کی طرف دیکھ رہا ہے۔ اگر احساس زندہ ہو تو بہت بڑی شرمندگی ہے۔ بہت بڑی ناکامی! ہاں احساس جاتا رہے تو اور بات ہے۔ کسی نے دوسرے کو شرمندہ کرنے کے لیے کہا کہ تمہاری پیٹھ پر درخت اُگ آیا ہے۔ احساس سے عاری شخص نے جواب دیا کہ اچھا ہے ٹھنڈی چھائوں میں بیٹھیں گے۔ تمہیں کیا!
مسلح افواج کو چھوڑ کر سارے ادارے منہدم ہو چکے ہیں۔ افواج اس لیے بچی ہوئی ہیں کہ بھرتیاں، تعیناتیاں اور ترقیاں عوامی نمائندوں اور سیاست دانوں کے دندانِ آز سے دور ہیں۔ آج انہیں موقع ملے تو وہ تیرہ تالی کھیلیں کہ زمین سے گرد اُٹھ کر آسمان کو ڈھانپ لے۔ لاکھوں غیر ملکیوں کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ‘ پاسپورٹ اور ڈومی سائل سرٹیفکیٹ ہیں۔ متعلقہ اداروں کی تباہی کا اور کیا ثبوت چاہیے! صحت ایک محکمہ ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں قینچیاں ہیں نہ دوائی۔ تحصیل سطح کے ہسپتال، خدا جھوٹ نہ بلوائے، مرگھٹ لگتے ہیں۔ تعلیم ایک الگ ادارہ ہے۔ لاکھوں سکول چھتوں کے بغیر ہیں۔ بیٹھنے کے لیے بچے ٹاٹ کے ٹکڑے گھروں سے لاتے ہیں۔ پینے کا پانی تو دور کی بات ہے، استاد ہی نہیں ہیں۔ 
قریوں قصبوں صوبوں کو بھی چھوڑیے، وفاقی دارالحکومت کے اداروں کی تباہی دیکھیے۔ ایک بہت بڑا ادارہ چیف کمشنر اسلام آباد ہے۔ضلعی انتظامیہ اور پولیس اس کی تحویل میں ہے اس کی بغل میں عظیم الجثہ و ترقیاتی ادارہ(سی ڈی اے) ہے۔ ہر ٹیلی ویژن چینل اور ہر روزنامہ چیخ چیخ کر، گلا پھاڑ پھاڑ کر بتا چکا ہے کہ وفاقی دارالحکومت محاصرے میں ہے۔ ترنول اور بارہ کہو افغانستان بن چکے ہیں۔ روات سے لے کر سوہان تک۔ پوری پٹی منی وزیرستان بن چکی ہے۔ کیا چیف کمشنر اور سی ڈی اے کے سربراہ ان علاقوں میں بنفس نفیس گئے؟ کیا انہیں ترنول اور بارہ کہو کی آبادی کے اعداد و شمار معلوم ہیں؟ محاصرے کو بھی جانے دیجیے۔ وفاقی دارالحکومت کے وسط میں ایک پورا سیکٹر ''جی بارہ‘‘ کچی آبادی پر مشتمل ہے۔ یہ ایک ناسور ہے جو شہر کے ماتھے پر نمایاں ہے۔ نام کی اس کچی آبادی کے اندر محلات، کوٹھیاں اور حویلیاں ہیں۔ کیا کوئی بتائے گا کہ اس میں غیر ملکی کتنے ہیں؟ پاکستانی کتنے ہیں؟ اسلحہ کن کن کے پاس ہے؟ آبادی کتنی ہے؟ کس کس پیشے سے کتنے کتنے لوگ منسلک ہیں؟ رات کو کون لوگ آتے ہیں اور یہاں سے رات کے اندھیروں میں نکلنے والے کہاں جاتے ہیں؟
فوج کا جوان اور افسر وزیرستان کے تپتے سلگتے پہاڑوں اور دغا دینے والی گھاٹیوں میں برسرِ پیکار ہے۔ دشمن وہاں سے بھاگتا ہے اور ہمارے شہروں میں مقیم ہو جاتا ہے یوں جیسے بتیس دانتوں کے درمیان زبان!سول ادارے اپنے فرائض سے غافل ہیں۔ مکمل غافل۔ مجرمانہ حد تک غافل۔ ہر طرف مدرسوں کے جال بچھے ہیں۔ کیا علما بتا سکتے ہیں کے ان کے شہر کے کس مدرسہ میں کتنے کتنے طالب علم غیر ملکی ہیں اور باقی ملک کے کس کس علاقے سے ہیں، کیا پس منظر رکھتے ہیں، کن کن رووں میں بہہ رہے ہیں؟ اور ان کے پاس آنے جانے والے کون ہیں؟
یہ جنگ دہشت گردوں سے نہیں ہے۔ یہ جنگ انتہا پسندوں سے ہے۔ آبادی کے اُس حصے سے ہے جو عقیدے کی بنیاد پر گردن مارنا جائز سمجھتا ہے۔ جو جمہوریت کو کفر گردانتا ہے۔ جو اختلافِ رائے کو زندگی اور موت کا مسئلہ قرار دیتا ہے۔ جو ہر دوسرے شخص کا حساب کتاب روزِ حشر کے بجائے دنیا ہی میں کرنا چاہتا ہے۔ جو قرآن جیسی مقدس کتاب کو ملکی آئین کی سطح پر لانا چاہتا ہے۔ قرآن پاک آخرت کی ابدی فلاح کا نسخہ ہے۔ آئین میں صوبوں اور وفاق کے اختیارات کی تقسیم، مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے فرائض اور آڈیٹر جنرل کا دائرہ کار درج ہے۔ یہ جنگ اُس ذہنیت سے ہے جو قرآن پاک ہاتھ میں لے کر لہراتا ہے لیکن خود اُس پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں اور اپنے آپ کو کسی بھی قسم کے محاسبے سے ماورا سمجھتا ہے۔ اگر کوئی اس خوشی فہمی میں ہے کہ یہ جنگ صرف توپ اور ہوائی جہاز سے لڑی جائے گی تو وہ ایک افسوسناک غلط فہمی کے شکنجے میں جکڑا ہے۔ یہ جنگ سول انتظامیہ کے کندھوں پر اتر چکی ہے اور اس سوال کا جواب ہم سب کو معلوم ہے۔جو بیورو کریسی، گلو بٹ کو گلے سے لگا لگا کر شاباش دے اُس کی قابلیت کیا ہو گی اور کیا حرمت؟ ؎
جس آب رُود کی اوقات چند قطرے ہو
تو اس میں تیرنا کیا‘ اُس میں پائوں دھرنا کیا
قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران اگلی نشستوں پر بیٹھنے والے وفاقی وزیر کو وزیراعظم کا رشتہ دار پچھلی نشستوں پر بلواتا ہے۔ اُسے ڈکٹیشن دیتا ہے۔'' وفاقی وزیر اُن کے سامنے مودب کھڑے اُن کی بات سنتے رہے...‘‘ یہ لوگ کس کو دھوکہ دے رہے ہیں؟ یہ جمہوریت نہیں، جمہوریت کی خاک ہے جو اُڑ اُڑ کر عوام کے منہ میں جا رہی ہے۔!
پس نوشت۔ آخر عقدہ کھُل گیا کہ اصلی شیر کون ہے۔ جس شخصیت کو لوگ شیر کہتے ہیں وہ کسی اور کو شیرِ پنجاب کہتی ہے۔ بقول ظفر اقبال ؎
ہم اُس کے‘ وہ ہور کسی کا‘ پکّی پختہ ڈوری
اپنا دل‘ اپنا مذہب‘ کیا جھگڑا چوں چناں کا

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں