کیا آپ نے کبھی سٹک ڈانس دیکھا ہے؟ اسے ڈنڈیا ڈانس بھی کہتے ہیں۔ یہ پورے برصغیر میں یکساں مقبول ہے۔ مرد بھی کھیلتے ہیں عورتیں بھی، الگ الگ بھی اور مرد اور عورتیں مل کر بھی۔ دونوں ہاتھوں میں ڈنڈیاں ہوتی ہیں۔ مختلف طریقوں سے اچھل کود ہوتی ہے۔ کبھی ایک اپنی ڈنڈی کو دوسرے کی ڈنڈی پر مارتا ہے اور کبھی اپنے ہی دونوں ہاتھوں میں پکڑی ڈنڈیوں کو ایک دوسرے پر مارتے ہیں۔ ڈنڈی دوسری ڈنڈی پر پڑتی ہے تو ایک خفیف سی ، لطیف سی، آواز پیدا ہوتی ہے جو رقص کرتے اعضا کی حرکت کو اور نغمے کے زیرو بم کو اور بھی سرور انگیز کرتی ہے۔ یہ رقص، یہ اچھل کود، گھنٹوں جاری رہتی ہے۔ اس قصے کو اب ہم یہیں چھوڑ دیتے ہیں۔
بنوامیہ کی سلطنت کا خاتمہ ہوا تو عباسیوں نے طرح طرح کے اچھوتے طریقوں سے انتقام کی آگ ٹھنڈی کی۔ اس ضمن میں دو روایات دلچسپ ہیں۔ ایک ایرانی جرنیل عبداللہ نے بنوامیہ کے اسی سرکردہ افراد کو دعوت پر بلایا۔ ان سب کو قتل کردیاگیا۔ عبداللہ نے ان کی لاشوں کے سامنے مزے سے کھانا کھایا۔ عبداللہ کو زعم ہوگیا ۔ اس نے خلیفہ بننے کی کوشش کی۔ عباسی حکمران نے اسے قید کردیا۔ سات سال بعد رہا کرکے اسے یقین دلایا گیا کہ وہ تو ہیرو اور محسن ہے۔ جلوس کی صورت میں اسے ایک محل میں لایاگیا جو خصوصی طور پر اس کے لیے تعمیر کیاگیا تھا۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ محل کی بنیادیں نمک کی تھیں۔ جب بھی بارش ہوتی، تھوڑی سی گل جاتیں۔ یہ بات اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔ ایک دن محل زمیں بوس ہوکر اس کا مقبرہ بن گیا۔ دوسری روایات کے مطابق پہلے عباسی خلیفہ ابو العباس السفاح نے بنوامیہ کے چیدہ چیدہ عمائدین کو کھانے پر بلایا۔ جب وہ بیٹھے ہوئے تھے تو خراسانی سپاہیوں اور خدام نے ان پر لاٹھیوں سے حملہ کردیا۔ ان میں سے اکثر منہ کے بل گر پڑے ۔ انہیں اس قدر مارا پیٹا گیا کہ ان کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں۔ کچھ مرگئے ۔ کچھ تڑپنے لگے۔ ابو العباس نے ان کے اوپر قالین بچھانے کا حکم دیا۔ پھر اس قالین کے اوپر بیٹھ کر اس نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اطمینان سے سیر ہوکر کھانا کھایا۔ قالین کے نیچے سے آہوں اور کراہوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ ابو العباس السفاح کا کہنا تھا کہ اس نے ساری زندگی اس قدر مزیدار کھانا نہیں کھایا۔ اس قصے کو ہم یہیں چھوڑ دیتے ہیں۔
شدید اور ظالم موسم گرما عروج پر ہے۔ ساتھ رمضان بھی ہے۔ وزیرستان کے بنجر میدانوں اور سیاہ خوفناک پہاڑوں میں ہمارے عساکر اپنی زندگیاں ہتھیلیوں پر رکھے، ہماری زندگیوں کو محفوظ کررہے ہیں۔ ہمارے خوبرو سپاہی‘ ہمارے ذی وقار افسر دہشت گردوں کا مقابلہ کررہے ہیں۔ ان دہشت گردوں کی لغت میں نرمی اور رحم کے الفاظ مفقود ہیں۔ ہمارے ہزاروں فوجی پہلے ہی ان کے ہاتھوں شہید ہوچکے ہیں۔ وہ وفادار بیویاں جنہوں نے اپنے مجاہد شوہروں کا سامان اپنے ہاتھوں اٹیچی کیسوں میں بند کرکے انہیں پرنم آنکھوں کے ساتھ رخصت کیا تھا دروازوں پر دستک کی آواز سن کر دوڑ پڑتی ہیں لیکن ایک پیغام بر سلیوٹ کرکے شہادت کی خبر دیتا ہے۔ ہمارے شہید فوجیوں کے ننھے منے پھول سے بچے باپ کی ٹانگوں سے لپٹنے کی حسرت میں بڑے ہوجاتے ہیں۔ ہمارے بوڑھے اپنے نوجوان بیٹوں کے جنازے پڑھ رہے ہیں۔ سفید سروں والی باوضو مائیں یتیم پوتوں پوتیوں کو دیکھ دیکھ کر اندر اندر ہی کڑھتی ہیں۔ آنسوئوں کی بارش رخساروں پر نہیں، دلوں پر گرتی ہے۔ ہمارے فوجیوں نے کہاں کہاں خون کے نذرانے نہیں دیے۔ کارگل سے لاشیں آئیں۔ سیاچن سے تابوت اترے۔ سوات سے جنازے اٹھے ۔ پاکستان کا کوئی فوجی آج تک میدان سے نہیں بھاگا۔ یہ پیٹھ پر نہیں، سینوں پر گولیاں کھانے والے سپوت ہیں۔
یہ خون کے دریا کس لیے بہے؟ یہ جنازے، یہ تابوت، یہ کفن پوش میتیں، یہ قربانیاں تھیں تو عوام کی خاطر لیکن افسوس ! صد افسوس! ان سے فائدہ ہمارے رہنمائوں نے اٹھایا۔ رہنما وہی ہیں، فقط ان کے لبادے تبدیل ہوتے ہیں۔ کبھی نون، کبھی قاف، کبھی پ۔
لیکن ہمارے شہیدوں کی لاشوں کے ساتھ جو کچھ اب ہورہا ہے کبھی نہیں ہواتھا۔ ان لاشوں کے اوپر قالین بچھا کر ڈنڈیا ناچ کیاجارہا ہے۔ ڈنڈیا ناچ کرنے والو ںمیں تین سیاسی جماعتیں نمایاں نظر آرہی ہیں۔ آپ '' امداد باہمی‘‘ کی بدترین (یا بہترین) مثال دیکھیے۔ یوسف رضا گیلانی پر بدعنوانی کے بارہ مقدمات دائر ہیں۔ عدالت نے ان کی ضمانت منظور کی تو ایف آئی اے نے حسب قواعد ضمانت منسوخ کرنے کی درخواست پیش کی‘ لیکن وفاقی حکومت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو خصوصی طور پر عدالت بھیجا تاکہ ایف آئی اے کی مخالفت کی جائے۔ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا کہ ایف آئی اے نے متعلقہ حکام سے منظوری نہیں لی لہٰذا اس درخواست کو قبول نہ کیاجائے( جیسے ایف آئی اے کو قواعد کا علم ہی نہ تھا اور یہ تاریخ میں پہلی درخواست تھی جو ایف آئی اے نے دائر کی تھی !!) مخدوم امین فہیم بھی ایک درجن مقدموں میں ماخوذ ہیں۔ ان کی گرفتاری بھی رک گئی ہے۔ ضمانت میں توسیع ہوگئی ہے۔
دوسری طرف سید خورشید شاہ نے مولانا فضل الرحمن سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی ہے۔ دونوں میں اس امر پر ''اتفاق ‘‘ ہوا کہ موجودہ جمہوری '' نظام‘‘ کو کمزور کرنے کی ممکنہ کوششوں کو ناکام بنایا جائے گا اور کسی کو بھی ملک کے ''مستقبل‘‘ سے کھیلنے اور سیاسی اور پارلیمانی '' نظام‘‘ کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس گفتگو میں اہم ترین نکتہ یہ تھا کہ سید خورشید شاہ اور مولانا فضل الرحمن اس سلسلے میں اپنا '' اثرورسوخ ‘‘ استعمال کریں گے۔
آپ ڈنڈیا ناچ کا نقطہ عروج دیکھیے اور گیت کی آہنگ کے ساتھ رقص کا زیرو بم ملاحظہ کیجیے کہ دو سو ڈاکٹروں کوفارغ کردیاگیا ہے۔ ان کا قصور یہ تھا کہ ہڑتال کے دوران انہیں ایڈہاک پر تعینات کیاگیا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہسپتالوں میں میڈیکل افسروں کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے۔ بائیس مزید ڈاکٹر راولپنڈی کے ہسپتالوں میں ملازمت کی منسوخی کا شکار ہونے والے ہیں، جبکہ دوسری طرف ایک اعلیٰ شخصیت کے ذاتی وفادار ریٹائرڈ بیورو کریٹ کو ، جس کی عمر پچھتر سال سے کم کیا ہوگی اور جس کی ہمیشہ پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں رہا ہے‘ ایک بڑے ادارے کا چیئرمین لگادیاگیا ہے جہاں مراعات کی ریل پیل ہے۔ آپ ماشاء اللہ پہلے ہی ایک گیس اینڈ آئل کمپنی کے سربراہ ہیں۔ایک اور خبر کے مطابق وزیراعلیٰ سندھ سے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا ، ڈاکٹر فہمیدہ مرزا اور پیر مظہرالحق کی ''اہم‘‘ ملاقاتیں ہوئی ہیں جن میں ان کے فرزندان گرامی کو '' اہم ذمہ داریاں ‘‘ دینے کے حوالے سے بات چیت ہوئی ہے۔ یہ وہ اصحاب ہیں جو کبھی ''ایڈہاک‘‘ پر نہیں ہوتے۔ انہیں کبھی باہر نہیں نکالا جاتا ۔ والد اور والدہ اقتدار کے دائرے سے ایک انچ ہی باہر ہوتے ہیں کہ فرزندان گرامی کو ذمہ داریاں سونپنے پر غور شروع ہوجاتا ہے۔ دوسو ڈاکٹروں کو فارغ کرکے دوسو گھرانوں کے چولہے اس لیے بجھائے گئے کہ ان غریب اور روابط نہ رکھنے والے ڈاکٹروں کے ماں باپ بڑے لوگ نہیں ورنہ وہ بھی کسی وزیراعلیٰ سے ملتے۔ انہیں بھی پروٹوکول ملتا اور پھر ان ڈاکٹروں کو بھی وفاق یا کسی صوبے میں '' اہم ذمہ داریاں ‘‘ سونپ دی جاتیں!
گرما کا موسم عروج پر ہے۔ ہمارے فوجی روزے رکھ کر بارودی سرنگوں کا سامنا کررہے ہیں۔ اسلحہ بنانے کی شیطانی، ملک دشمن، فیکٹریاں تباہ کررہے ہیں۔ ہمارے غازیوں کے بچے گھروں میں ان کی کامیابی کے لیے چھوٹے چھوٹے نازک ہاتھ پھیلا کر دعائیں مانگ رہے ہیں۔ کیوں ؟ عوام کے لیے ؟ قانون کی حکمرانی کی خاطر ؟ ان کے دلوں میں تو یہی جذبہ موجرن ہے لیکن یہاں تو اور ہی کھیل کھیلا جارہا ہے۔ ایک خاندان کی واری ختم ہوتی ہے تو دوسرے کی شروع ہوجاتی ہے۔ پہلے بہنیں تھیں‘ ایامِ اسیری کے رفقا تھے اور آکسفورڈ پلٹ صاحبزادہ تھا۔ اب بھائی ہے، بھتیجا ہے اور صاحبزادی ہے۔ کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ کسی صوبے کا حکمران کسی دوسرے ملک میں جاکر وہاں کے وزیر خارجہ سے مل کر وفاق کی نمائندگی کررہا ہو اور تین دوسرے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ گھگھوئوں کی طرح چپ بیٹھے ہوں۔ جیسے سب کچھ آئین کے مطابق ہورہا ہو! ایک صوبائی حکمران چین کے وزیر خارجہ سے دو دن پیشتر ملا ہے اور گوادر منصوبے پر بات کی ہے جس کا اس کے صوبے سے کوئی تعلق ہی نہیں! وزیراعلیٰ ''ملک‘‘ کے حوالے سے شمسی توانائی ، کراچی اور اقتصادی پیکج کے وفاقی اور دوسرے صوبوں کے معاملات بھی دوسرے ملک کے وزیر خارجہ سے ڈسکس کرتے ہیں!
آپ نے اپنی زندگی میں کئی قسم کے رقص دیکھے ہوں گے۔ بھنگڑا بھی اور لڈی بھی۔ خٹک ڈانس بھی۔ تیرہ تالی بھی! لیکن قالین کے اوپر اچھل کود کے ساتھ جو ڈنڈیا ناچ ہورہا ہے۔ اس سے لطف اندوز ہونا نہ بھولیے گا۔