روم کی سیر ڈاکٹر رحیم رضا کرارہے تھے۔ رحیم رضا‘ مشرقی زبانوں کی یونیورسٹی میں‘ جو نیپلز میں ہے‘ فارسی کے شعبے کے سربراہ تھے۔کلکتہ سے تعلق رکھنے والے رحیم رضا نے تہران سے فارسی میں ڈاکٹریٹ کیا۔ روانی سے فارسی بولنے والی اطالوی خاتون سے شادی کی اورروم میں آباد ہوگئے۔ویٹیکن سے لے کر ہسپانوی سیڑھیوں تک۔ بہت سے مقامات دکھانے کے بعد ڈاکٹر رحیم رضا ایک ریستوران میں لے گئے '' یہاں ہم کافی پیئں گے لیکن یہ کوئی عام ریستوران نہیں ہے۔ یہ ریستوران سیاسی گپ شپ اور بحث کے لیے مشہور ہے۔ خاص کر انتخابات کے ایام میں یہاں بیٹھنے کو جگہ نہیں ملتی۔ خاص بتانے کی بات یہ ہے کہ لوگوں سے بھرے اس ریستوران میں جب سیاست پر گفتگوعروج پر ہوتی ہے۔ مکھیوں کی بھنبھناہٹ سے زیادہ آواز نہیں سنائی دیتی۔ اونچی آواز سے کوئی نہیںبولتا۔ چیخنے ، گلے کی رگیں سرخ کرنے‘ آستینیں چڑھانے اور ناراض ہونے کا تصور ہی کوئی نہیں۔ مخالف سیاسی جماعتوں کے حلیف کئی کئی گھنٹے بحث کرنے کے بعد بھی ایک دوسرے سے مسکرا کر بات کرتے ہوئے باہر نکلتے ہیں۔‘‘
جس قوت برداشت کی تفصیل ڈاکٹررحیم رضا نے روم کے ریستوران میں کھڑے ہوکر بتائی، وہ قوت برداشت تمام مہذب جمہوری ملکوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔نیوزی لینڈ اور سنگا پور سے لے کر کینیڈا اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ تک یہ قوت برداشت ، یہ رواداری، یہ نرم گفتاری عام ہے۔ پاکستان کو بدبختی کے جن اندھیروں نے اپنی سیاہ آغوش میں لے رکھا ہے ان میں عدم برداشت سرفہرست ہے۔ یہ عدم برداشت دو حوالوں سے نمایاں ہے۔ ایک مذہبی اور دوسرے سیاسی حوالے سے۔مذہبی عدم برداشت پر اکثر و بیشتر اظہار خیال کیا جاتا رہا ہے۔ یہ عدم برداشت گلے کی رگیں سرخ کرنے اور آستینیں چڑھانے سے آگے بڑھ کر قتل و غارت تک پہنچ چکی ہے۔ اس قوم کی بدبختی کی انتہا یہ ہے کہ اب سیاسی حوالے سے بھی عدم برداشت روز بروز خطرناک تر ہوتی جارہی ہے۔ گزشتہ تین ہفتوں میں عدم برداشت کا گراف مسلسل اوپر جارہا ہے۔ تحریک انصاف اور نون لیگ کے حمایتی گھروں ، دفتروں، بازاروں اور شاہراہوں پر ایک دوسرے سے الجھ رہے ہیں۔ آپس میں گفتگو کے سلسلے منقطع ہورہے ہیں۔ بلڈ پریشر ماپنے کی سوئیاں اوپر کا ر خ کررہی ہیں۔ چند دن پہلے ایک تعلیم یافتہ خاتون سے گفتگو ہوئی تو فرمانے لگیں‘ فلاں فلاں واجب القتل ہے۔ سیاسی گفتگو سے بات آگے بڑھ کر ذاتی طعنوں تک جا پہنچتی ہے۔ ایک دوسرے کے ماضی کریدے اور کھودے جاتے ہیں۔ اس کے بعد تعلقات ختم ہوجاتے ہیں۔
عدم برداشت کے ساتھ دوسری بدقسمتی انفرادی اور قومی سطح پر انصاف سے روگرانی ہے۔ حالیہ دنوں میں انصاف سے روگردانی کی بے شمار مثالیں سامنے آئی ہیں۔ ایک شخص کی وہ باتیں پسند کی جاتی ہیں جو ہمارے خیالات سے مناسبت رکھتی ہیں اور جو باتیں ہمیں راس نہیں آتیں وہ رد کردی جاتی ہیں۔ جاوید ہاشمی کی پارلیمنٹ میں تقریر اس بے انصافی کی ادنیٰ مثال ہے۔جاوید ہاشمی کی وہ باتیں خوب خوب ہائی لائٹ کی جارہی ہیں جو عمران خان اور تحریک انصاف کے خلاف ہیں لیکن ان باتوں پر توجہ نہیں دی جارہی جو اسی جاوید ہاشمی نے اسی تقریر میں حکومت وقت کی پالیسیوں کے خلاف کی
ہیں۔ جہاں جاوید ہاشمی نے یہ کہا کہ تحریک انصاف میں جمہوری نظام نہیں پنپ سکا اور عمران خان کو '' ادھر ادھر ‘‘ سے اشارے مل رہے ہیں وہاں اس نے پارلیمنٹ کے فلور پر کھڑے ہوکر یہ بھی پوچھا کہ وزیراعظم چودہ ماہ سینٹ میں کیوں نہیں آئے؟ قومی اسمبلی کو کیوں نظر انداز کیاگیا؟ جاوید ہاشمی نے یہ بھی کہا کہ عوام کی مشکلات کا ازالہ نہیں کیاگیا۔ ماڈل ٹائون کا واقعہ چھوٹا واقعہ نہیں‘ چودہ افراد کی لاشیں گریں اور اسّی کو گولیاں لگیں۔ وزیراعظم سوچیں عمران نے انہیں اپنے گھر بلایا پھر کیا ہوا کہ وہ ناراض ہوگئے ۔ یہ عمران خان کی نہیں وزیراعظم کی ناکامی ہے۔ جاوید ہاشمی نے یہ بھی کہا کہ وزیراعظم کی ٹیم تھرڈ کلاس ہے اور حکومت کی کارکردگی صفر ہے۔ نون لیگ میں ایک وزیر دوسرے وزیر سے ہاتھ نہیں ملاتا۔ نظام کس طرح چلے گا؟
اعتزاز احسن کی تقریر بھی حکومت وقت کے خلاف چارج شیٹ کے مترادف تھی۔ انہوں نے جہاں یہ کہا کہ پستول دکھا کر استعفیٰ نہیں لیا جاسکتا اور یہ دھرنے جز وقتی دھرنے ہیں۔ وہاں یہ بھی برملا کہا کہ لیگی حکومت نے ماڈل ٹائون میں گولیاں برسا کر مظالم ڈھائے ۔ انتخابات میں بدترین دھاندلی کی گئی۔ حکومتی وزرا کے تکبر اوررعونت کے باعث آج نون لیگ کو یہ دن دیکھنے پڑرہے ہیں۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ ان پر پیپلزپارٹی کے کارکنوں کا شدید دبائو ہے کہ آپ شریف برادران کی حکومت کیوں بچارہے ہیں؟ حالانکہ نون لیگ نے پنجاب میں پیپلزپارٹی پر ظلم کیے ۔ جو لشکری باہر آئے ہیں‘ ان کے الزامات میں بڑی صداقت ہے۔ عمران خان کے کرپشن کے الزامات میں بھی بڑی صداقت ہے۔ کل پانچ ستمبر کو وزیر داخلہ کے الزامات کے جواب میںاعتزاز احسن نے جو تقریر پارلیمنٹ میں کی اس میں تو انہوں نے عمران خان کو وہ خراج تحسین پیش کیا جو تحریک انصاف کے جوشیلے کارکن بھی شاید نہ کرسکیں۔ اعتزاز احسن کے الفاظ کچھ یوں تھے: ''اگر عمران خان واپس بھی چلا گیا تو یہ اس کی پسپائی نہیں ہوگی۔ لوگ کہیں گے عمران خان بہادر تھا مگر ہارے ہوئے لشکر میں تھا۔‘‘
عمران خان اور طاہرالقادری کے مارچ سے جو حالت حکومت کے وزراء کی تھی‘ اس پر اعتزاز احسن نے اپنی تقریر میں اس کالم نگار کا یہ شعر پڑھا ؎
غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر
محل پہ ٹوٹنے والا ہو آسماں جیسے
کاش ! اعتزاز احسن عمران خان کے بارے میں بھی کوئی شعر پڑھتے ۔ مثلاً ؎
میرا دکھ یہ ہے میں اپنے ساتھیوں جیسا نہیں
میں بہادر ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہوں
یا سلیم احمد کا یہ شعر پڑھتے ؎
پرانی کشتیاں ہیں میرے ملاحوں کے حصے میں
میں ان کے بادباں سیتا ہوں اور لنگر بناتا ہوں
یہ جو اعتزاز احسن نے ، جو ایک نامی گرامی دانش ور بھی ہیں، کہا ہے کہ عمران خان واپس چلے گئے تو یہ ان کی پسپائی نہیں ہوگی، تو یہ آدھا سچ ہے۔ پورا سچ یہ ہے کہ عوام و اپس چلے گئے تو یہ عوام کی پسپائی نہیں ہوگی !
اس ہنگامے میں ایک بات یہ بھی دیکھنے میں آئی کہ پارلیمنٹ میں مدلل تقریریں دو ہی تھیں۔ ایک شاہ محمود قریشی کی‘ جنہوں نے ان حالات کا تفصیل سے ذکر کیا جو دھرنے پر منتج ہوئے اور دوسری اعتزاز احسن کی جنہوں نے اپنی شخصی اور خاندانی تاریخ سیاسی حوالے سے بیان کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شاہ محمود قریشی نے چودہ ماہ کی جو داستان مرحلہ وار بیان کی، اس کا ''متحدہ ‘‘ پارلیمنٹ کے کسی رکن نے کوئی جواب نہیں دیا۔ کسی نے طعنہ دیا کہ فلاں کو فلاں کا پی اے کیوں کہا گیا، کسی نے دھمکی دی کہ میں اتنے لاکھ کا ہجوم لاسکتا ہوں لیکن ماڈل ٹائون کا ذکرہوا‘ نہ دھاندلی کا۔ ایف آئی آر کا‘ نہ کرپشن کا۔ ''استقامت‘‘ کا یہ عالم ہے کہ ارکان پارلیمنٹ پر جو سب سے بڑا الزام ہے کہ ان کی اکثریت ٹیکس نہیں دیتی، اس کا ذکر بھی کوئی نہیں کرتا۔ گویا کرپشن ، ٹیکس چوری ایسے معمولی مسئلے ہیں کہ عظیم المرتبت ارکان ان کا ذکر کرنا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں۔
پارلیمنٹ کی دیوار پر یقینا گھڑی آویزاں ہوگی۔ اگر معزز ارکان اسے ایک ثانیے کے لیے غور سے دیکھیں تو یہ ضرور نوٹ فرمائیں کہ سوئیاں آگے کی طرف جارہی ہیں! پیچھے نہیں پلٹتیں!