میں ہوں ناں

2002ء میں یورپ میں سیلاب آیا تو یورپی یونین کے ملکوں کے نمائندے کوپن ہیگن میں اکٹھے ہوئے۔ ناروے اور سوئٹزرلینڈ یورپی یونین کا حصہ نہیں لیکن انہیں بھی مدعو کیا گیا۔ وہ ممالک جو ابھی رکن نہیں بنے اور محض رکنیت کے امیدوار ہیں، انہیں بھی بلایا گیا۔ ان میں سے ہر ایک ملک نے اپنے ہاں ایک ڈائریکٹرمقرر کررکھا ہے جسے '' واٹر ڈائریکٹر‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ تمام ڈائریکٹر موجود تھے ۔اس بات پر اتفاق ہوا کہ سیلاب کی پیشین گوئی ، احتیاطی تدابیر اور سیلاب کے بعد کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ سطح پر منصوبہ بندی کی جائے۔ چنانچہ فرانس اور ہالینڈ کے نمائندوں پر مشتمل ایک گروپ تشکیل دیاگیا۔ اس گروپ نے ایک دستاویز تیار کی جس کا نام '' بیسٹ پریکٹس ڈاکومنٹ‘‘ (بہترین عملی دستاویز) رکھا گیا۔2003ء میں ان تمام نمائندوں کا اجلاس یونان میں منعقد ہوا ،جہاں یہ دستاویز پیش کی گئی۔
یہ دستاویز (بیسٹ پریکٹس ڈاکومنٹ) اس وقت دنیا میں سیلاب کے حوالے سے جامع ترین دستاویز ہے۔ اسے زندہ (Living)دستاویز بھی کہا جاتا ہے ،اس لیے کہ اس میں مسلسل ترامیم کی جارہی ہیں۔ یہ تین حصوں پرمشتمل ہے ۔ حصہ اول میں طریق کار اور بنیادی اصول طے کیے گئے ہیں۔حصہ دوم میں ان اصولوں اور طریق کار کو عملی جامہ پہنانے کی تدابیر بیان کی گئی ہیں۔ تیسرے حصے میں نتائج بیان کیے گئے ہیں۔
تیس صفحات پر مشتمل کرۂ ارض کی اس انتہائی اہم دستاویز میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے ،اس کی مدد سے یورپ میں سیلابوں پر بہت حد تک قابو پالیاگیا ہے۔ مندرجہ ذیل پہلوئوں پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔
1۔ دریائوں کے طاس کے متعلق ان تمام ملکوں اور صوبوں کی متحدہ منصوبہ بندی جہاں جہاں سے یہ دریا گزرتے ہیں۔
2۔ عوامی شعور کی بیداری، عوامی شمولیت اور سیلاب سے متعلقہ بیمہ پالیسیاں۔
3۔ پانی کو جمع کرنے کی تدابیر۔
4۔ غیر تعمیراتی اقدامات۔
5۔ سیلاب کے حوالے سے زمین کے مختلف زون مقرر کرنا اور نقصانات کا پیشگی تخمینہ لگانا۔
6۔ تعمیراتی اقدامات، ان میں بند باندھنا اور ڈیم بنانا سرفہرست ہے۔
7۔ ایمرجنسی میں کیے جانے والے اقدامات کی پیشگی تیاری۔
8۔ سیلاب کے بعد پھوٹنے والی بیماریوں اور آلودگی سے نمٹنے کے لیے ہر ممکن تیاری۔
یورپی یونین نے جو بنیادی اصول طے کیا وہ یہ تھا کہ سیلاب کے حوالے سے جو کوشش بھی کی جائے گی اس میں مقامی، علاقائی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر تمام متعلقہ حلقے ضرور شامل ہوں گے۔
سیلاب کا مقابلہ کرنے کے لیے جاپان نے حیرت انگیز نظام بنایا۔ جاپانیوں نے کام کو تین حصوں میں تقسیم کردیا۔ حکومت نے بڑے بڑے کاموں کا ذمہ لے لیا۔ علاقائی بنیادوں پرطویل المدت منصوبہ بندی کی۔ دریائوں کے کناروں کو بلند کیا اور مضبوط تر بنایا۔ شہری علاقوں میں نکاس کے نظام کو ازسرنو درست کیا۔ جگہ جگہ پانی کے اخراج کے لیے پمپ سٹیشن قائم کیے۔ لوگوں کو تعلیم دی کہ سیلاب روکنے کے اقدامات کون کون سے ہیں اور کس طرح سرانجام دینے ہیں۔پھر جب سیلاب سر پر آجائے تو آبادی کا انخلا کیسے ہوگا۔ رضا کاروں کے گروہ کس طرح منظم ہوں گے۔ تربیت کیسے دی جائے گی۔ سیلاب اترنے کے بعد بحالی کا کام کس طرح ہوگا۔ مالی اور مادی مدد کیسے فراہم کی جائے گی۔ ''سیلاب انشورنس‘‘ پر بھی کام کیاگیا۔ سماجی حوالے سے متاثرین میں خود اعتمادی پیدا کی گئی۔
مقامی تنظیموں کے ذمے یہ کام لگایا گیا کہ وہ بارش کے پانی کا زیادہ سے زیادہ ذخیرہ کریں۔ سیلاب کو جذب کرنے کے لیے جنگل اگائیں۔ تباہی کو کم کرنے کے لیے ریت کی بوریاں فراہم کریں۔ مقامی باشندوں کو اکٹھا کرکے انسدادی تدابیر کے متعلق بحث مباحثہ کریں۔ افواہوں کا مقابلہ کریں اور رضا کاروں کو منظم کریں۔
انفرادی سطح پر لوگوں کو تربیت دی گئی اور سمجھایا گیا کہ زمین کی نوعیت کو سمجھیں، مکانوں کے ارد گرد زیادہ سے زیادہ شجرکاری کریں۔ سیلاب آنے کی صورت میں ہرشخص کو بتایا گیا کہ اس نے کدھر کا رخ کرنا ہے اور کیا کرنا ہے۔ گھر کے سازو سامان کو کس طرح بچانا ہے اور قیمتی اشیا کی کیسے حفاظت کرنی ہے۔ سیلاب کے امور سے نمٹنے کے لیے الگ وزارت قائم کی گئی۔ یہ وزارت اپنے وزیر کی قیادت میں سال کے بارہ ماہ اور مہینے کے تیس دن سیلاب کا موسم آنے سے پہلے ہر ممکن تیاری کرتی ہے۔
ہالینڈ میں سیلاب تباہی مچاتا تھا۔ ہالینڈ کی حکومت نے دریائوں پر زیادہ اونچے بند باندھے۔ دریائوں کے پانی کو تقسیم کرنے اور اس کا زور گھٹانے کے لیے نئی نہریں کھودیں۔ سمندر کے آگے بند باندھے گئے ،یوں کہ صرف جہاز رانی کے لیے رستہ چھوڑا گیا۔ ڈیم اتنی کثیر تعداد میں تعمیر کیے گئے کہ سیلاب آنے بند ہوگئے۔
اب ہم پاکستان کی طرف آتے ہیں جہاں ہر سال سیلاب آتے ہیں۔ آج کل اخبارات میں حکومت پنجاب کی طرف سے اپیل نما اشتہارات شائع ہورہے ہیں ۔ان اشتہارات میں وزیراعلیٰ کہتے ہیں۔
'' میں اس دوران سیلاب سے متاثر ہونے والے علاقوں کے کونے کونے میں جارہا ہوں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے سیلاب کی تباہ کاریوں کے جو درد ناک مناظر دیکھے ہیں ،میرے پاس وہ الفاظ نہیں کہ ان کی تفصیل بیان کرسکوں۔‘‘
نو سطروں کے اس اشتہار میں چار دفعہ '' میں ‘‘ کا لفظ آیا ہے ۔ یہ ہے اس ساری '' منصوبہ بندی‘‘، '' کوشش ‘‘ اور تعمیراتی اور غیر تعمیراتی اقدامات کالب لباب جو علاقائی اور قومی سطح پر یہ ملک کررہا ہے!! وزیراعلیٰ ہر جگہ جارہے ہیں۔ بالکل درست ! لیکن متعلقہ محکموں کے سربراہ کہیں بھی نہیں نظر آتے ! یوں لگتا ہے کہ سیلاب کے امور کے وزیر کا تو ذکر ہی کیا، کابینہ ہی کا شاید وجود نہیں ! سیلاب کی تباہ کاریوں سے بے حال ہونے والے متاثرین کس سے پوچھیں کہ صوبائی اور قومی سطح پر کون کون سی وزارتیں ،کون کون سے ادارے اور کون کون سے محکمے پورا سال سیلاب کے انسداد کے لیے کام کرتے ہیں ؟ دریائوں کے طاس گہرے اور چوڑے کرنے کے لیے اب تک کیا گیا ہے؟ یہ دریا بھارت ، پاکستان اور پھر پاکستان میں پنجاب اور سندھ سے گزرتے ہیں۔ اس ضمن میں بین الاقوامی اور صوبائی سطحوں پر کتنے اجلاس ہوئے ہیں اور کہاں کہاں ہوئے ہیں ؟ اب تک کتنے بند باندھے گئے ؟ دریائوں کے کون کون سے کنارے بلند کیے گئے ؟ کتنے ڈیم بنائے گئے ؟ عوامی شمولیت اور عوامی بیداری کے لیے کتنی تنظیمیں کام کررہی ہیں ؟ پیشگی وارننگ دینے کا کیا سسٹم ہے ؟ غیر تعمیراتی اقدامات کون کون سے کیے گئے ہیں ؟ اس ضمن میں تحقیقاتی (ریسرچ کا) کام کون کون سا ہوا ہے؟ یورپ جاپان اور دوسرے ملکوں سے ہماری کون کون سی ٹیمیں تربیت حاصل کرچکی ہیں اور ان کی کارکردگی کیا ہے؟ زمین کو سیلاب کے حوالے سے کتنے اور کون کون سے زون میں تقسیم کیاگیا ہے؟ بیماریوں اور آلودگی کے انسداد کے لیے کیا کیاگیا ہے ؟ جن جن بستیوں اور شہروں میں سالہا سال سے سیلاب آرہے ہیں،وہاں کے مردوں ، خواتین اور نوجوانوں کو ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے کتنی تربیت دی گئی ہے ؟ کتنے تربیتی مراکز کام کررہے ہیں؟ اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ہمارے '' واٹر ڈائریکٹر‘‘ کون صاحب ہیں اور صوبوں اور وفاق میں امور سیلاب کے وزرا کون کون ہیں اور کہاں پائے جاتے ہیں ؟
سوشل میڈیا پر بہت دنوں سے ایک تصویر گردش کررہی ہے۔ وزیراعلیٰ پانی میں کھڑے ہیں۔ اونچے کناروں والے لمبے بوٹ نمایاں ہیں۔ان کے پیچھے چھ سات فدوی نما افسر نصف دائرہ بنائے ، پائنچے چڑھائے پانی میں کھڑے ہیں۔ سب کے چہرے ملازمت کے خوف سے لرزاں نظر آرہے ہیں۔ وزیراعلیٰ کی مشہور و معروف انگلی اٹھی ہوئی ہے۔ اس تصویر پر جو جو کمنٹ ہیں وہ احاطۂ تحریر میں نہ ہی لائے جائیں تو بہتر ہے۔ 
ہم سمجھیں یا نہ سمجھیں، دنیا میں سیلابوں پر شخصیات اور کیمروں سے نہیں ، بلکہ اداروں نے قابو پایا ہے !

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں