2005 ء میں زلزلہ آیا تو دنیا کی باقی طبی امداد کے ساتھ ساتھ ‘کیوبا سے بھی ڈاکٹر آئے۔ ان کی تعداد دو ہزار کے لگ بھگ تھی۔نامساعد حالات اور دشوار گزار علاقوں میں ان ڈاکٹروں نے جانفشانی کے ساتھ کام کیا۔ان کی کارکردگی پاکستان بھر میں اور بیرون ملک بھی سراہی گئی۔رابطے کا سلسلہ چلا تو کیوبا نے پاکستانی طلبہ کے لیے میڈیکل تعلیم کی پیشکش بھی کی۔چنانچہ کثیر تعداد میں ہمارے ہاں سے طلبہ ڈاکٹری کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے وہاں گئے۔ اس سال مئی میں تین سو ڈاکٹروں پر مشتمل پہلا گروہ تعلیم مکمل کر کے واپس آیا۔ ان میں سے 145طلبہ نے گولڈ میڈل حاصل کیا تھا۔
کچھ عرصہ سے کیوبا میں زیر تعلیم یہ ڈاکٹر مسلسل رابطہ کر رہے ہیں۔واپس آنے کے بعد ہائر ایجوکیشن کمیشن اور پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل(پی ایم ڈی سی) کی طرف سے ان ڈاکٹروں کو مشکلات کا سامنا ہے۔کیوبا سے ڈگری حاصل کرنے والے یہ ڈاکٹر نیشنل ایگزامی نیشن بورڈ کے ٹیسٹ سے استثنیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔متعلقہ حلقوں پر لازم ہے کہ اس ضمن میں ان ڈاکٹروں کے نمائندوں سے مذاکرات کریں۔مثبت رویے اور فراخ دلی کا مظاہرہ کریں اور جس رعایت کی بھی قانون اجازت دیتا ہے وہ مرحمت کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہزاروں کی تعداد پر مشتمل یہ ٹیکنو کریٹ سرخ فیتے اور گھٹن کے ماحول سے تنگ آ کر وطن چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں۔
پاکستانی معاشرے میں ایک کالم نگار ہمیشہ اس مخمصے کا شکار رہتا ہے کہ کیا کسی طبقے یا گروہ کی طرف سے اٹھایا گیا مسئلہ میڈیا میں ہائی لائٹ کرنے کے قابل ہے؟ اس ایشو کے کئی پہلو ہیں اور یہ ایک کثیر الجہات مسئلہ ہے۔ایک پہلو یہ ہے کہ ایک پاپولر روزنامے کو معاشرے کے مختلف طبقات پڑھتے ہیں۔ہر طبقے کے اپنے اپنے مسائل ہیں۔ کیا یہ مناسب ہو گا کہ ایک طبقے کے مسائل سارے طبقات کے سامنے لائے جائیں؟دوسری طرف اس نکتے میں بھی وزن ہے کہ صرف ایسے مشترکہ مسائل جو قارئین کے تمام گروہوں کے لیے برابر کی اہمیت رکھتے ہوں پیش کئے جائیں۔غالباً اعتدال کا راستہ دونوں انتہائوں کے درمیان سے گزرتا ہے۔ کچھ گروہ اس قدر زیادہ اہمیت کے حامل ہیں کہ ان کے مسائل نہ حل کیے جائیں تو پورا معاشرہ متاثر ہو تا ہے۔جیسے تاجر‘ ڈاکٹر اور واپڈا کے ملازمین !تمام گروہوں کے مشترکہ مسائل شاید تعداد میں بھی بہت کم ہوں۔
ایک نکتہ نظر یہ بھی ہے کہ کالم نگار کو ہمیشہ حالات حاضرہ(کرنٹ افیرز ) پر قلم اٹھانا چاہیے۔یہاں سخن گسترانہ بات یہ آن پڑتی ہے کہ حالات حاضرہ سے کیا مراد ہے؟مشہور ظریفانہ شاعر دلاور فگار مرحوم نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ع
حالات حاضرہ کو کئی سال ہو گئے
تاہم ہمارے ہاں ایک غلط خیال (Fallacy)یہ پایا جاتا ہے کہ حالات حاضرہ سے مراد صرف سیاست ہے۔دنیا کے تمام معروف انسائیکلو پیڈیاز اور لغات میں حالات حاضرہ سے مراد سیاسی‘معاشرتی(سوشل) اور ثقافتی(کلچرل) مسائل ہیں ؛مثال کے طور پر روزنامہ نیو یارک ٹائمز کے تازہ ترین شمارے میں کلچرل اور سوشل موضوعات پر کالم شائع ہوئے ہیں۔یہی عالم روزنامہ ہندو (بھارت) اور روزنامہ دی ایج آسٹریلیا کا بھی ہے۔ مثلاً ایک کالم اس موضوع پر ہے کہ آپ اپنے سمارٹ فون کا خیال کس طرح رکھیں گے؟ ایک معروف کالم نگا ر نے عمر رسیدہ قارئین کو آگاہ کیا ہے کہ موت کی صورت میں سوشل سکیورٹی کے حوالے سے انہیں کن کن فوائد کی توقع کرنی چاہیے۔نیو یارک ٹائمز نے تو ایک کالم ارنسٹ ہیمنگوے کی خودکشی کے بارے میں بھی چھاپا ہے جو 1961ء کا واقعہ ہے ۔
یہ غلط خیال کہ حالات حاضرہ سے مراد سیاست اور صرف سیاست ہے، قارئین کو ایک مشکل میں بھی ڈالتا ہے۔ ہم میں سے کچھ پورا کالم بعض اوقات اپنے پسندیدہ یا ناپسندیدہ سیاست دان کے بارے میں لکھ دیتے ہیں۔ اب اصطلاح کی رو سے ایسا کالم سیاسی ہوتا ہی نہیں۔یہ تو انشائیہ بن جاتا ہے۔ سقراط سے منسوب قول ہے کہ کمزور دماغوں والے شخصیات پر لکھتے ہیں،درمیانے دماغ کے لوگ مختلف تقاریب پر تنقید کرتے ہیں جب کہ عالی دماغ صرف خیالات اور نظریات پر بحث کرتے ہیں‘ یہ اور بات کہ سقراط کے عہد میں صحافت کا وجود ہی نہ تھا۔ اخبارات تھے ،نہ ہفت روزہ جریدے اور نہ الیکٹرانک میڈیا کی دنیا ۔آج کے دور میں جو سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ یہ بھی توقع کرتے ہیں کہ انہیں ان کے پسندیدہ یا نا پسندیدہ سیاست دانوں کی نجی زندگیوں کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں۔
بہر طور‘ ایک بات طے ہے اور اس میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں کہ قارئین ہر روز سیاست کے بارے میں پڑھنا ہی نہیں چاہتے۔ہم سب کالم نگار جانتے ہیں کہ جب ہم ان موضوعات پر لکھتے ہیں جن کا سیاست کے موضوعات سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہوتا تو تعریف و تحسین کے انبار لگ جاتے ہیں۔ اس کی وجہ بہت سادہ ہے اور قابل فہم۔اخبار پڑھنے والا باپ بھی ہے بیٹا بھی ہے‘ پس ماندگان میں بھی شامل ہے اور بھوک پیاس جیسے عناصر کے نرغے میں بھی ہے۔اس کالم نگار نے جب بیٹی کی رخصتی یا نواسی کے پیار پر لکھا تو دنیا بھر سے پسندیدگی کے پیغامات ملے۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کے مشہور اخبارات اپنے OP-EDصفحات پر سوشل اور کلچرل موضوعات کا متواتر احاطہ کرتے ہیں یہاں تک کہ لباس اور کھانوں کے بارے میں بھی ادارتی صفحات پر مضامین شائع کیے جاتے ہیں۔
ہمارے چند سینئر کالم نگار‘ جو مسلسل سیاسی کالم لکھتے ہیں‘ سچ پوچھیے تو قارئین کے ساتھ زیادتی بھی کرجاتے ہیں۔ جو خوبصورت اسلوب نذیر ناجی ،ہارون الرشید یا عبدالقادر حسن کو قسامِ ازل نے ودیعت کیا ہے‘ کیا قارئین کا حق نہیں کہ اس حوالے سے تنوع اور بوقلمونی سے بھی حظ اٹھا سکیں؟آخر ہفتے میں ایک یا دو کالم ادبی‘سماجی یا روز مرہ کے موضوعات پر لکھنے میں کیا حرج ہے؟نذیر ناجی جب طنز اور Satireلکھتے ہیں تو مارک ٹوین کی یاد تازہ کر دیتے ہیں۔ ہارون الرشید شعر کا اعلیٰ ذوق رکھتے ہیں اور قارئین میں شعر پسند حضرات کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں!! عطاء الحق قاسمی دوسری انتہا پر ہیں انہوں نے خوبصورت ادبی کالم بہت زیادہ لکھے ہیں اور غیر سیاسی کالموں کے بابے ہیں اگرچہ کچھ عرصہ سے وہ سیاسی کالم نسبتاً زیادہ لکھنے لگے ہیں اور یہ تبدیلی ان کے میرے جیسے دلدادگان کو زیادہ پسند بھی نہیں!!
انسان من و سلویٰ جیسی آسمانی نعمتوں کے تسلسل سے اکتا گیا تھا!ہر روزسیاسی کالم کون پڑھے گا!