ہم نے ہجر اوڑھا اوراس راستے پر بیٹھ گئے جہاں اوپر سے اُڑتے ہوئے قالین نے گزرنا تھا۔ ہم راتوں کو جاگے اور راستہ بنانے کیلئے ستارے تک کاٹے۔ ہم نے جب بھی شام ہوئی، دل میں باغ کھلایا اور صبح تک آنسوئوں میں ڈوبی روشوں پر چہل قدمی کی۔ چلنا پھرنا دوبھر ہوگیا تو ہم نے فراق کو عصا بنایا۔ امید کو بینائی میں تبدیل کیا اور گوشہ تنہائی سے باہر نکلے۔ ہم نے گرتی ہوئی چھت کے نیچے اندیشوں کے ستون کھڑے کیے تاکہ ان سے لپٹ کر روئیں۔ پھر ہم نے سرخ، سوجی ہوئی آنکھیں خالی ہتھیلیوں سے ملیں اور دھندلی نظر سے جدائی کو بُنا۔ جب وہ مکمل ہوئی تو اس کو فرش پر بچھایا۔ اس پر بیٹھ کر گریہ کیا اوراسی پر پڑ کر سو رہے۔
ہم نے درختوں پر رشک کیا۔ اس لئے کہ ان کے پائوں نہیں۔ وہ اس زمین سے جدا نہیں ہوتے جس میں ان کی جڑیں ہوتی ہیں لیکن ہیہات! ہیہات! ان کے چاہنے والے ان سے جدا ہو جاتے ہیں۔
ہم نے ان زمانوں کو یاد کیا جب فولادی پرندے تھے نہ اڑن کھٹولے۔ تب اپنے پیاروں کو رخصت کرنے کے بعد شاعر ہاتھ مل مل کر یہ نہیں کہتا تھا ؎
ہوا میں تخت اڑتا جا رہا ہے اس پری رو کا
محبت دل میں پھر قصہ کہانی بن کے اٹھی ہے
تری ہمزاد شب اے مشعل جاں ڈھل چکی کب کی
مگر طاقِ ہوا پر ،تو ابھی تک ٹمٹماتی ہے
پانیوں کے سینے پر شہر چلتے تھے۔ عظیم الجثہ، قوی پیکر، بحری جہاز، مذہبی فرائض ادا کرنے کیلئے لوگ ان بحری عفریتوں پر سوار ہوتے تھے۔ قرضے ادا کرکے ،غلطیاں معاف کروا کر، رو دھو کر۔
یا وہ تاجر سوار ہوتے جن کے پاس مال تجارت ہوتا۔ زربفت کے تھان، ترکی گھوڑے، زنگی پہریدار، جزائر شرق الہند کے گرم مصالحے، ترکی کے فانوس اورچین کے ظروف جو پورس لین کے بنے ہوئے ہوتے تھے۔ اور بادشاہوں اور نوابوں کے دسترخوانوں پر اپنی دمک دکھاتے تھے۔ یہ جو آج ترکی جانے والا ہر سیاح وہاں سے فانونس، جھاڑ، اور بلور (کرسٹل) خریدتا ہے تو یہ ان کارخانوں سے نکل رہے ہیں جو پہلے صرف سلطنت عثمانیہ کے شاہی خاندانوں کیلئے کام کرتے تھے۔
مذہبی زائر اور تاجر...بس... یہ نہیںہوتا تھا کہ روز مرہ کی ملازمتوں کیلئے لوگ ترک وطن کریں۔ بحری جہازوں کا وقت تھا نہ ٹائم ٹیبل۔ کوئی ساحل پر آ لگتا تھا تو تر سے ہوئے پسماندگان کو چٹھیاں مل جاتی تھیں ورنہ... ایک لمبی چپ اور تیز ہوا کا شور، اس لمبی چپ اور مرگ آسا انتظار کا شکار ،بہت سی خلقت رہی ہوگی لیکن شہرئہ آفاق ناول نگار شیرلٹ برونتے نے اپنے محبت ناموں میں قلم توڑ کر رکھ دیا۔ دونوں بہنیں انگریزی ادب کے آسمان پر ستارے بن کر چمک رہی ہیں۔ ایملی برونتے، ود رنگ ہائٹس لکھ کر اور شیرلٹ برونتے جین آئرلکھ کر امر ہوگئیں۔ شیرلٹ برونتے برسلز سے پڑھائی ختم کرکے واپس انگلستان آئی تو اپنے شادی شدہ استاد ہیگرکی محبت کا زخم دل میں سجا ہوا تھا۔ کل چار یا چھ خطوط اس نے ہیگر کو لکھے جنہیں لوگ ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑھتے تھے اور اب بھی دل تھام کر پڑھتے ہیں۔ کئی کئی ہفتے، کئی کئی مہینے جہاز کا انتظار کرتی تھی۔ جہاز ساحل پر لگتا تھا تو عشق زدہ جنون جا کر پوچھتا تھا کہ برسلز سے کسی نے خط تو نہیں دیا۔ شیرلٹ کے خطوں سے معلوم یہی ہوتا ہے کہ ہیگر جواب نہیں دیتا تھا۔ خط نہ پا کر ایک اور خط لکھتی تھی اور بھیجنے کے بعد اگلے جہاز کا انتظار شروع ہو جاتا تھا۔
پھر ٹرین آ گئی اور ساتھ ہی لام۔ پہلی اور پھر دوسری۔ پہلی جنگ عظیم نے ہجر وچھوڑوں کے جو زخم لگائے، لوک ادب انہیں ابھی چاٹ ہی رہا تھا کہ دوسری لام چھڑ گئی۔ عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کاگیت ''متاں اسی گڈی تے آ جاویں‘‘ تو اب پھیلا ہے‘ اشک آلود ماہیوں کو صدی ہونے کو ہے۔ ریل گاڑی نے واپس لانے کا کام کم اور لے جانے کا زیادہ کیا۔ مائوں کے بچَڑے، بہنوں کے بھائی اور پتلی مٹیاروں کے معشوقوں کو ریل گاڑی نے نگلا۔ کسی کو برما کے جنگلوں میں جا اُگلا، کسی کو عراق اور عدن اورکسی کو شمالی افریقہ کے جنگ کے میدانوں میں۔ بہت سے واپس نہ آئے۔پنجاب کے گائوں آنسوئوں میں ڈوب گئے۔ بیری کی خشک ٹہنیوں سے لے کر بے ہنگم تالابوں کے کناروں پر ٹوٹی ہوئی اینٹوں سے بنے ہوئے چولہوں تک... راکھ ہی راکھ بکھر گئی۔ رونے والے ٹوکے سے چارہ کُترتے تھے تو ٹوکے کے ہروار پر دل باہر آ جاتا تھا۔ آہستہ آہستہ دل میں اترتی شام کے وقت منگیترگلی میں کھڑی کچی دیوار سے بھوسے کا تنکا بے خیالی میں توڑتی تھی اور آنکھوں سے آنسو چھلک پڑتے تھے۔ پہاڑی ندیاں اپنے کناروں پر جنگلی پھولوں کو لئے چلتی رہیں، روتی رہیں، راستہ دیکھتی رہیں، جو برما ،عراق ،عدن ، مصر اور لیبیا میں جان ہار گئے تھے کبھی واپس نہ آئے، آئے تو پنشنوں کے کاغذ اور تمغے آئے جو آج بھی گھروں میں دیواروں پر سجے ہیں۔ ان چابیوں کی طرح جو اندلس سے ہجرت کرنے والوں نے مراکش آ کر نئے گھروں میں لٹکا دی تھیں کہ واپس جائیں گے اور چھوڑے ہوئے گھر کھولیں گے ۔لیکن ابھی تک اسی طرح لٹکی ہوئی ہیں۔
چار دن پہلے چار سالہ حمزہ سے ایئرپورٹ پر پوچھاکہ کیوں واپس جا رہے ہوتو بحرالکاہل کی آغوش میں پرورش پانے والے بچے نے فتح جنگ کی ٹھیٹھ زبان میں مختصر اور منطق سے بھرپور جواب دیا۔ اس واسطے کہ ''مینڈے ابا وینے پین‘‘۔ ابا بلکہ ابے کیوں جا رہے ہیں؟ اس لئے کہ قصہ اور ہے۔ اس قصے میں پردہ نشینوںکے نہیں، مجرموں کے نام آتے ہیں۔ مجرم جو ڈنکے کی چوٹ کہتے پھر رہے ہیں کہ ہاں! ملک چھوڑ کر جو جانا چاہتے ہیں، چلے جائیں، کس نے روکا ہے!
ہم بحری جہازوں اور ٹرینوں کے زمانے سے گزرے اور ہوائی جہازوں کے زمانے میں آئے۔ ہم نے بحری جہازوں اور ریل گاڑیوں سے ہجر کے شکوے کیے۔ لیکن ہجر اور ہجرتوں کے شکوے ہوائی جہازوں سے کیوں کریں؟ ہم ان کو گریبانوں سے کیوں نہ پکڑیں جو اس ملک میں جو ہمارا اور ہماری آئندہ نسلوں کا ہے، سفارش، رشوت اقربا پروری اور دوست نوازی کا زہر بکھیر رہے ہیں۔ یہ زہر اس قدر سرایت کرچکا ہے کہ ہمارے ہیرے ،ہمارے جواہر اور ہمارے لعل ملک چھوڑ چھوڑ کر باہر جا رہے ہیں۔ باہر انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا جا رہا ہے۔ ایک دن آئے گا کہ کچرا... صرف کچرا... یہاں رہ جائے گا۔ یہ کچرا یہاں کے بلاولوں، حمزہ شہبازوں، مونسوں کے آگے پیچھے پھرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرے گا۔ ان صاحبزادگان کو معلوم ہے کہ یہ باہر جائیں تو کوئی انہیں کوڑیوں کے مول بھی نہیں رکھے گا۔ موروثی تاخت و تاراج اور غارت گری پر گل چھرے اڑانے والے اپنے دست و بازو سے کچھ نہیں کرسکتے!! کچھ بھی نہیں!!
ہوا کا قصور ہے‘ نہ ہوا میں اڑنے والے طائر نما جہازوں کا... یہ ہوائی جہاز تو پڑوس کے ملک میں بھی آتے اور جاتے ہیں‘ لیکن وہاںکے حکمرانوں اورسیاسی مسخروں نے کروڑوں اربوں کا کیش اور کروڑوں اربوں کی جائیدادیں بیرون ملک نہیںرکھی ہوئیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ پچھلے کچھ سالوں میں تین لاکھ ڈاکٹر، انجینئر اور آئی ٹی ماہرین وہاںواپس آ چکے ہیں اور مزید آ رہے ہیں۔ بڑی بڑی کمپنیاں صرف اس لئے کھل چکی ہیں کہ بیرون ملک سے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو واپس آنے میں مدد دیں۔ یہاں واپس تو کوئی کیا آئے گا‘ گزشتہ ہفتے لاہور میں ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی جو شرق اوسط میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہے۔ چھٹی آیا تھا۔ بیوی کے ساتھ رکشے پر کسی عزیز کو ملنے جا رہا تھا (صوبے کا ستر فیصد بجٹ کھا جانے والے شہر میں ٹیکسی دیکھنے کو بھی نہیں ملتی)‘ موٹرسائیکل سوار آئے۔ بیوی کے بازو سے زیور، موبائل فون، بٹوہ سب کچھ لے گئے۔ پولیس ان جرائم کی بیخ کنی کیلئے جیسے وجود ہی نہیں رکھتی۔ اگر وہ جاتے وقت یہ عزم کرلے کہ اب نہیں آئے گا تو تعجب ہی کیا ہے!!
جب تک بادشاہوں ،نوابوں ،سرداروں اور ان پڑھ پجارو سواروں کا اقتدار قائم ہے، سفارت خانوں کے باہر قطاریں لگتی رہیں گی۔ تمہارے جگر گوشے سمندرکے اس پار جاتے رہیں گے۔ تمہارے پھول بچھڑتے رہیں گے۔ تمہارے اردگرد جنگلی دھتورے اور زاغ و زغن ہی نظر آئیں گے ؎
اڑ گئے شاخوں سے یہ کہہ کر طیور
اس گلستاں کی ہوا میں زہر ہے
تم میں ہمت ہے تو غاصبوں کو گریبانوں سے پکڑلو۔اپنی دھرتی پر اپنا حق وصول کرو۔!