کھڑکیاں بند کر لو

اکبر پیدا ہوا تو غریب الوطنی کا عجیب سماں تھا! پیدائش کی خوشخبری لانے والے کو کچھ دینے کے لیے مُشک کے ایک ٹکڑے کے سوا ہمایوں کے پاس کچھ بھی نہیں تھا! ہرات تک کا سفر تو اتنا کٹھن تھا کہ گھوڑے کے گوشت کو ابالنے کے لیے گارڈ کے خود (ہیلمٹ) کو دیگچی کے طور پر استعمال کرنا پڑا ؎
دہلیز دلاسا ہے نہ دیوار اماں ہے
اے دربدری! میرے ٹھکانے کا پتہ دے
اطمینان کا سانس ایرانی دارالحکومت میں نصیب ہوا۔ شاہ طہماسپ صفوی نے خدمت خاطر میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ یہ اور بات کہ مسلک تبدیل کرنے کے لیے دبائو بھی ڈالتا رہا۔
قیامِ ایران کے دوران ہی شاہ طہماسپ نے ہمایوں کو وہ نصیحت کی جس نے مغلوں کی قسمت بدل ڈالی۔ دونوں بادشاہ شکار کے لیے گئے۔ سستانے کا وقت آیا۔ قالین بچھائی گئی۔ قالین کی جو جگہ ہمایوں کے حصے میں آئی وہ کنارے پر تھی۔ آلتی پالتی مار کر بیٹھتے وقت زانو‘ برہنہ زمین پر آ رہا تھا۔ مگر اس سے پہلے کہ ہمایوں کا زانو زمین کو چھوتا‘ اس کے ایک محافظ نے بجلی کی تیزی سے تلوار سے ترکش کو پھاڑا اور یہ چمڑا تھا یا دبیز پارچہ‘ زمین پر بچھا دیا یوں کہ ہمایوں کا زانو اُس پر آیا۔ طہماسپ یہ سب دیکھ رہا تھا۔ اس نے تعجب کا اظہار کیا‘ ''ایسے ایسے چست اور وفادار نوجوانوں کے باوجود سلطنت کیسے چھن گئی؟‘‘ ہمایوں نے جو جواب دیا اس کا لبِ لباب یہ تھا کہ مغل بادشاہ اپنے ان تورانی اور افغان سرداروں پر تکیہ کرتے ہیں جو ساتھ آئے تھے اور ان میں سے اکثر ناقابل اعتبار ہیں۔ اس پر طہماسپ نے نصیحت کی کہ مقامی آبادی کو ساتھ ملائو۔ اس کے بغیر بات نہیں بنے گی۔ ہمایوں نے سلطنت دوبارہ حاصل کی تو ایک سال بعد وفات پا گیا۔ گمان غالب یہ ہے کہ اکبر نے ہندوستانیوں خاص طور پر راجپوتوں پر بھروسہ کیا تو اس کی تہہ میں طہماسپ کی یہ نصیحت ہی کارفرما تھی۔ راجپوتوں نے مغلوں کے ساتھ وفا کی۔
چار سو سال گزر چکے بلکہ اس سے بھی زیادہ! تو رانی اور افغان سردار ضم ہو گئے‘ کچھ تاریخ میں اور کچھ مقامی قبیلوں میں۔ مگر وفاداریاں بدلنے کی ریت جاری ہے۔ وہ سیاست دان جو رات کے اندھیرے میں‘ ہمایوں کے کیمپ سے شیرشاہ سوری کو ملنے جاتے تھے اور پو پھٹنے سے پہلے واپس آ جاتے تھے اور وہ جو اورنگ زیب کا پلہ بھاری دیکھ کر‘ اس کے بھائیوں کو چھوڑ گئے تھے‘ سارے کے سارے تقسیم کے بعد ہمارے حصے میں آئے۔ ری پبلکن پارٹی میں یہی تو تھے! پھر انہوں نے ایوب خان کو خوش آمدید کہا۔ کونسل مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔ یہ وہی تھے جنہوں نے بھٹو کو جیل جاتا دیکھا تو الٹے پائوں واپس ہوئے اور صدر ضیاء الحق کے دسترخوان کا رُخ کیا۔ جسے شک ہو‘ اس زمانے کی مجلس شوریٰ کے ارکان کے اسمائے گرامی دیکھ لے! ان خلعتوں کا کیا ہی کہنا جو اندھیرے میں ملیں اور روشنی میں دعویٰ کیا جائے کہ ہم تو ہمیشہ ہی سے ایسے تھے!
پھر جنرل مشرف کا دور آیا۔ سیاستدانوں نے وضو کیا اور اس کا نام لیتے وقت نہ صرف سید کا لاحقہ لگایا بلکہ ہاتھ بھی سینے پر باندھ لیے۔ اس کی وردیاں استری کیں۔ شُو ہارن بن کر اُس کی ایڑیاں جوتوں میں ڈالیں۔ یہ شُو ہارن ایسے تھے کہ بیک وقت کُھرکو بھی تھے۔ ان کا دوسرا سرا آمر کی پشت سہلاتا تھا! جسے یقین نہ ہو کیبنٹ ڈویژن جا کر ریکارڈ چیک کر لے کہ کون کون سی ذات ہائے شریف ڈکٹیٹر کے چرنوں میں بیٹھ کر وزارتوں کے مزے اڑاتی رہیں۔ مسلم لیگ نے ایک اور حرفِ تہجی نورانی قاعدے سے نکالا اور طالع آزمائوں کا گروہ حسب روایت پھر حکومت کرنے لگا۔
پھر جنرل مشرف گئے۔ پیپلز پارٹی آئی اور یہ سردار جتھوں کی صورت میں پلٹے۔ سیالکوٹ سے لے کر مظفر گڑھ تک وفاداریاں بدل گئیں۔ مسلم لیگ نون کی حکومت آئی اور جنرل مشرف کے پروانے نئی شمع کے گرد منڈلانے لگ گئے۔ کیا ہزارہ‘ کیا سیالکوٹ کیا فیصل آباد! بقول وحید احمد ع
کیا اونچی شرق شمالیاں‘ کیا گہرے غرب جنوب
جنہوں نے ریوالور تحفے میں پائے تھے‘ اسلحہ رکھ کر ہاتھ اٹھا لیے!
اب یہ فصلی بٹیرے‘ یہ مرغ ہائے بادنما‘ یہ Turn coat یہ ڈبل کراسر‘ تحریک انصاف کا رُخ کر رہے ہیں۔ ٹوڈی خاندانوں کے چشم و چراغ جو عمران خان کی آستینوں میں پہلے سے گھُسے ہوئے ہیں‘ گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والوں کو گروہ در گروہ اندر لا رہے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے جاگیرداروں اور گدی نشینوں نے جو یادداشت ملکہ برطانیہ کو پیش کی تھی اور جس میں گزارش کی تھی کہ خدا کے لیے ہندوستان چھوڑ کر نہ جایئے‘ تاریخ کا حصہ ہے! دریا کے پار‘ خیمے بدلنے والوں کو اب ان جاگیرداروں اور گدی نشینوں کے وارث ہاتھوں کے اشاروں سے بُلا رہے ہیں کہ آئو! بُور لگنے والا ہے‘ ٹہنیوں پر بروقت بیٹھ کر چہچہانا شروع کر دو تاکہ پھل پکیں تو تمہارے تنور نما معدوں کے ساتھ ساتھ تمہاری وہ جھولیاں بھی بھر جائیں جو ازل سے پھیلی ہوئی ہیں اس لیے کہ خدا نے سیرچشمی تمہارے مقسوم میں لکھی ہی نہیں!
آج یہ رو رہے ہیں کہ پارٹی وٹو لیگ بن کر رہ گئی ہے۔ کیا وٹو صاحب آسمان سے اترے تھے کہ جب پارٹی ان کے سپرد کی گئی تو رونے والوں کو وٹو صاحب کا ماضی معلوم نہیں تھا؟ یہ معززین اُس وقت کیوں نہ روئے جب پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں کرپشن کے گھٹاٹوپ اندھیرے نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ ان کی رگِ حمیت اُس وقت نہ پھڑکی جب حاجیوں کے احرام بیچ کھائے گئے‘ جب ایم بی بی ایس کا مطلب ''میاں بیوی بچوں سمیت‘‘ ہو گیا۔ جب گھڑیاں بیچ کر گھروں کے اخراجات چلانے والوں کے گھر چالیس چالیس کارٹن ڈیزائنر ملبوسات کے اتر رہے تھے۔ سرے محل سے لے کر فرانس کے محلات تک اور نیویارک کے اپارٹمنٹوں سے لے کر دبئی کے قصرِ عالی شان تک ‘اس ملک کے عوام کا خون پیا جاتا رہا مگر ان پشتینی وفاداروں کی آنکھیں نم نہ ہوئیں! خدا کی قسم! ان کے آنسو اگر مگرمچھ کے نہیں‘ ان کے اپنے ہیں تب بھی ملک و قوم کے لیے نہیں‘ اپنی ذات‘ اپنے مفاد اور اپنے خاندان کے لیے ہیں! افواہ یہ بھی ہے کہ جنوبی پنجاب سے ملکہ کا ایک اور وفادار
خاندان بھی‘ جو ہوا کا رُخ پہچاننے میں حیرت انگیز صلاحیت رکھتا ہے‘ تحریک انصاف کے سر پر دستِ شفقت رکھنے والا ہے!
اکبر اور جہانگیر کو ایرانی بادشاہ کی نصیحت سمجھ میں آ گئی اور انہوں نے نے مقامی طاقتوں کو اپنے ساتھ ملایا مگر عمران خان کی سمجھ میں یہ بات غالباً نہیں آ سکتی کہ اصل طاقت یہ مرغانِ بادنما نہیں‘ عوام ہیں۔ کیا بیس کروڑ عوام میں ان پیشہ ور سیاست دانوں کا کوئی نعم البدل نہیں؟ کیا ایسے افراد اس ملک میں ناپید ہو گئے ہیں جن میں صلاحیت ہے اور وہ پہلے کسی بھی آزمائی ہوئی پارٹی سے منسلک نہیں رہے؟ کہاں گئے نوجوانوں کے وہ گروہ جو مڈل کلاس سے تھے‘ جنہیں یہ جاگیردار‘ حقارت سے ممی ڈیڈی گروپ کہا کرتے تھے‘ جو اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے‘ جو تحریک انصاف میں تبدیلی کا نشان بن کر آئے تھے۔ جنہوں نے تحریک انصاف کے لیے رات دن کام کیا تھا!
افسوس! امید کا ایک اور بادل‘ برسے بغیر‘ بے رحم ہوائوں کے دوش پر اُڑتا‘ آنکھوں سے اوجھل ہو رہا ہے! پارٹیاں بدلنے والے ایک بار پھر اس ملک پر مسلط ہونے کے لیے دندانِ آز تیز کر رہے ہیں! چند ہی دن میں کیا قریشی‘ کیا گیلانی‘ کیا لغاری‘ کیا مزاری‘ کیا چودھری‘ کیا خان‘ کیا ملک‘ کیا راجے‘ کیا مہاراجے‘ سب ری پبلکن پارٹی‘ کونسل مسلم لیگ اور مسلم لیگ قاف کی تاریخ دہرا رہے ہوں گے! نئے پاکستان کی امید میں دھرنے دینے والو! تمہارے بخت کا ستارا ٹوٹ چکا ہے! تمہارے مقدر کا ماتھا تنگ ہو چکا ہے! تم نے جسے چاند سمجھا تھا‘ وہ ابر کا ٹکڑا نکلا ہے۔ تم نے جسے پانی سمجھ کر‘ ریگستان کا پرصعوبت سفر طے کیا تھا وہ سراب تھا! محض سراب!!
کھڑکیاں بند کر کے کونوں کھدروں میں دبک جائو! ابن الوقتی کی تیز آندھی ایک بار پھر چلنے والی ہے!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں