گیارہ دن اور گیارہ راتیں وہ بے ہوش رہا۔
گیارہ دن اور گیارہ راتیں اس کے پیارے دعائیں مانگتے رہے‘ آنسو بہاتے رہے‘ بارہویں دن بے ہوشی ختم ہوئی اور اس کی جگہ موت نے لے لی۔ ایک چھوٹی سی خبر اور وہ بھی ایک آدھ اخبار میں! فیض نے کہا تھا ؎
نہ رزم گاہ میں برسا کہ معتبر ہوتا
کسی علم پہ رقم ہو کے مشتہر ہوتا
پکارتا رہا بے آسرا یتیم لہو
کسی کو بہر سماعت نہ وقت تھا نہ دماغ
نہ مدعی نہ شہادت‘ حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا
لیکن یہ لہو یتیم تو نہ تھا۔ فیض صاحب کا خیال تھا کہ رزم گاہ میں بہنے والا خون معتبر ہوتا ہے‘ پرچموں پر لکھا جاتا ہے اور مشتہر ہوتا ہے۔ خدا اس سرزمین پر رحم کرے‘ اب رزم گاہ میں بہنے والا خون بھی معتبر نہیں رہا۔ اب وہ خون بھی یتیم ہے جو میدانِ جنگ میں ہے۔ اب یہاں صرف وہ خون معتبر ہے جو کسی بڑے آدمی کا ہو۔ اب خون کا پاک صاف ہونا بھی ضروری نہیں۔ اب خون کا کسی شہید کا خون ہونا بھی لازم نہیں! بے شک گندا خون ہی کیوں نہ ہو‘ بس کسی گردن بلند کا ہو‘ کسی کج کلاہ کا ہو‘ کسی متکبر کا ہو‘ کسی مقتدر کا ہو‘ پھر دیکھیے‘ کیا توقیر اور کیا تکریم ہوتی ہے اُس کی!
غریب نواز صرف نام کا غریب نہیں تھا! اصل میں بھی غریب تھا۔ وہ کرنل شجاع خانزادہ شہید کا ڈرائیور تھا۔ 16 اگست کو جب نڈر کرنل (پنجاب پولیس‘ جس کا وہ سربراہ تھا! اُس کی حفاظت نہ کر سکی) خودکش حملے میں شہید ہوا تو غریب نواز کے سر پر بھی چوٹیں آئیں۔ وہ بے ہوش ہو گیا۔ گیارہ دن ہولی فیملی ہسپتال میں کوما میں رہا۔
المیہ یہاں ختم نہیں ہو رہا۔ یہاں سے کہانی شروع ہو رہی ہے۔ بے حسی‘ منافقت‘ سنگدلی‘ تکبر اور رعونت کی کہانی۔ ڈاکٹروں نے درخواست کی تھی کہ اسے امریکہ لے جایا جائے۔ پاکستانی ڈاکٹر بیرونِ ملک بھیجنے کی تجویز صرف اور صرف اُس وقت پیش کرتے ہیں جب انہیں وہاں جان بچنے کی امید ہو۔ خبر کا جو حصہ دل میں چھید کر دینے والا ہے یہ ہے کہ ''علاج امریکہ میں کروانے کی تیاری کی جا رہی تھی‘‘... اگر غریب نواز حاکم ہوتا‘ کسی صوبے کا وزیراعلیٰ ہوتا‘ کسی اسمبلی کا رکن ہوتا‘ کسی حکمران کا رشتہ دار ہوتا‘ حرام کے مال سے اُس کی تجوریاں اور بینک بھرے ہوئے ہوتے تو گیارہ دن تو ایک طویل عرصہ ہے‘ چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر ''تیاری‘‘ مکمل ہو جاتی۔ کاغذات بھی بن جاتے۔ بیرون ملک ہسپتالوں اور ڈاکٹروں سے بھی رابطے ہو جاتے‘ ایئر ایمبولینس کا بندوبست بھی ہو جاتا۔ مگر غریب نواز تو ایک غریب ڈرائیور تھا! ایسے ہی کسی سیاق و سباق میں کسی نے بددعا دی تھی ؎
ان ظالموں پہ قہرِ الٰہی کی شکل میں
نمرود سا بھی خانہ خراب آئے تو ہے کم
کیا کوئی وفاقی یا صوبائی اہلکار بتائے گا کہ اب تک کتنے حکمران اور حکمرانوں کے کتنے گماشتے سرکاری خرچ پر بیرون ملک علاج کرا چکے ہیں۔ یہاں تو کسی بڑے کو چھینک بھی آ جائے‘ زکام بھی لگ جائے‘ بسیار خوری کی وجہ سے دھماکہ خیز ڈکار بھی آ جائے تو فوراً سرکاری جہاز پر سوار ہو کر سرکاری خرچ پر بیرونِ ملک ''علاج‘‘ کے لیے چلا جاتا ہے۔ کل جب غریب نواز کی شہادت کی خبر آئی‘ تو ساتھ ہی ایک معروف سیاستدان اور سابق وزیر کے بارے میں بھی خبر چھپی ہے کہ لندن کے ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ اہل خانہ بھی پہنچ گئے ہیں۔ اگر ترازو میں اس ملک کے لیے ایک طرف غریب نواز کی خدمات رکھی جائیں اور دوسری طرف لندن میں علاج کروانے والے اس سیاستدان جیسے اشخاص کی ''کارکردگیاں‘‘ اور ''خدمات‘‘ رکھی جائیں تو کیا عجب غیب کی قوت ترازو کا ایک پلڑا کہاں اور دوسرا کہاں لے جائے!! پوری پوری زندگیاں اس ملک کو کھاتے بھنبھوڑتے کاٹتے‘ پھینکتے‘ روندتے گزر جاتی ہیں۔ کبھی ان کے بینک اکائونٹوں میں چار چار کروڑ روپے پراسرار طریقے سے جمع ہوتے ہیں‘ کبھی ان کی اولادیں بغیر کسی مقابلے کے امتحان کے اور بغیر کسی اہلیت اور میرٹ کے‘ بیرون ملک پاکستان کے سفارت خانوں میں بڑی بڑی افسریاں سنبھال کر بیٹھ جاتی ہیں۔ کبھی یہ خود وفاق میں ہوں تو ان کے فرزندانِ گرامی صوبوں میں ''موروثی‘‘ اقتدار سنبھال لیتے ہیں۔ پھر جب اس ملک کی خاک کو خون دینے والے غریب نواز‘ امریکہ لے جانے کی ''تیاری‘‘ کے دوران اپنے غریب بچوں کو چھوڑ کر آنکھیں موند لیتے ہیں تو اُس وقت‘ جی ہاں عین اُس وقت‘ ہمارے صبر کا امتحان لینے کے لیے‘ ہماری توہین کرنے کے لیے‘ یہ خبریں چھپتی ہیں کہ فلاں یورپ کے فلاں شہر میں زیر علاج ہے! اب بھی اگر دوپہر کے وقت اس ملک پر گھٹا ٹوپ اندھیرا نہیں چھا جاتا تو کب چھائے گا اور اب بھی اگر آسمان سے پتھر نہیں برستے تو کب برسیں گے!!
کرگس ہی کرگس ہیں جو پروں کو پھیلائے فضا پر چھائے ہوئے ہیں۔ اندازہ لگایئے‘ جام معشوق علی وزیراعظم کے مشیر لگائے جا رہے ہیں۔ یہ جام صاحب جام صادق کے نورِ نظر ہیں جن کی ''خدمات‘‘ بصورتِ کرپشن اس ملک کی تاریخ کا سرمایۂ افتخار ہیں۔ یہ جو وزیراعظم نے قوم کو خوشخبری دی ہے کہ ''اب خاندانی سیاست نہیں ہوگی بلکہ پارٹی سیاست ہوگی‘‘ تو یہ غیرخاندانی سیاست کا آغاز ہے! چلیں وزیراعظم صاحب نے کم از کم یہ اعتراف تو کر لیا کہ اب تک یعنی (پچیس تیس سال سے) خاندانی سیاست ہوتی رہی ہے!
کرگسوں کا ذکر ہو رہا تھا۔ ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری پر صفِ ماتم بچھ گئی ہے۔ سید خورشید شاہ کے اعلانِ جنگ پر تو کسی کو بھی تعجب نہیں ہو سکتا۔ اقبال نے یہ شعر یوں ہی تو نہیں کہہ دیا تھا ؎
جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے‘ اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
مگر تعجب کائرہ صاحب پر ہوتا ہے اور تعجب سے زیادہ افسوس! پیپلز پارٹی کے اُن چند رہنمائوں میں سے ہیں جن کا آج تک کوئی سکینڈل نہیں سنا۔ انہیں پیپلز پارٹی میں دیکھ کر اتنا ہی افسوس ہوتا ہے جتنا نصیر اللہ بابر کو اس پارٹی میں دیکھ کر ہوتا تھا۔ عرصہ ہوا‘ پہلی بار پبلک اکائونٹس کمیٹی کے رکن کے طور پر‘ اجلاس میں بولتے سنا تو حیرت ہوئی۔ ٹھوس دلیل‘ منطقی گفتگو‘ نپا تُلا انداز۔ مگر آہ! پاکستان جیسے ملکوں میں سیاست جبر کا دوسرا نام ہے۔ کیا کیا مجبوریاں ہیں! جو لوگ سیاست میں رہنا چاہتے ہیں‘ بعض اوقات بلکہ اکثر ان کے پاس چوائس ہی نہیں ہوتا۔ یہ جبر ہی تو ہے جو خواجہ آصف اور چودھری نثار علی جیسے سینئر اور سفید سر سیاستدانوں کو حمزہ شہباز جیسے بچوں کے سامنے بٹھا دیتا ہے اور کائرہ صاحب جیسوں کو ڈاکٹر عاصم‘ یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف اور امین فہیم جیسوں کا دفاع کرنا پڑتا ہے۔ دفاع کرتے وقت دل پر کیا گزرتی ہوگی!
پاکستان میں سیاسی جماعتیں گائے کی طرح ہیں۔ اُس گائے کی طرح جس کے لیے دو افراد مامور تھے۔ ایک اپنے پلے سے چارہ کھلاتا تھا اور دوسرا دودھ دوہ کر دودھ سے بھری بالٹی اپنے گھر لے جاتا تھا! بے چارے سیاستدان! کچھ صرف چارہ کھلانے کے لیے ہیں اور کچھ دودھ سے بھری بالٹیاں گھروں کو لے جانے کے لیے۔
قسامِ ازل نے بھی کیا تقسیم کی ہے!