رشتے کے لیے پیغام بھیجا تو لڑکی والوں کا پہلا سوال تھا: لڑکا برسرِروزگار ہے یا نہیں؟
لیکن یہ پہلا سوال تھا، آخری نہیں تھا! جب بتایا گیا کہ لڑکا ماشاء اللہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے اور معقول ملازمت کر رہا ہے تو انہوں نے والد کا پیشہ پوچھا، پھر دادا کا، پھر خاندان کی مجموعی لحاظ سے مالی حیثیت کا پتا کیا، شہر کے کس حصے میں رہتے ہیں؟ گھر کیسا ہے؟ رشتہ دار کون کون ہیں؟ پھر اللہ کے بندوں نے یہ تفتیش بھی کرائی کہ لڑکے کے خاندان کی عمومی شہرت کیا ہے؟ جہاں رہ رہے ہیں، وہاں کے لوگوں کا ان کے بارے میں کیا تاثر ہے؟ کیا انہیں شریف، نجیب اور بھلے مانس سمجھا جاتا ہے؟ یا اکثر لوگوں کی رائے یہ ہے کہ فراڈ قسم کا خاندان ہے، چھچھورے ہیں، نمود و نمائش میں لگے رہتے ہیں، شیخی باز ہیں، ناقابل اعتماد ہیں، قرض مانگ کر غائب ہو جاتے ہیں، ان کے بوڑھے دوسروں سے الجھتے رہتے ہیں!
کون بے وقوف ہو گا جو اپنی بیٹی کا رشتہ، یہ سب کچھ معلوم کیے اور کرائے بغیر دے دے؟ دُنیا بہت سیانی ہو چکی ہے۔ لوگ دیوار کے پار بھی دیکھنا سیکھ گئے ہیں۔ ذرائع مواصلات، الیکٹرانک میڈیا اور انٹرنیٹ نے علم اور عقل دونوں میں اضافہ کر دیا ہے! اب اڑتی چڑیا کے پر ہی نہیں، اس کی نسل بھی جانچ لی جاتی ہے!
یہی حال کسی حکومت(یا ریاست) کے سربراہ کے بیرونی دورے کا ہے! آپ کے ملک کا سربراہ اگر کسی بڑے، ہوشیار اور ترقی یافتہ ملک کے دورے پر جا رہا ہے تو بس یوں سمجھیے کہ میزبان ملک وہ سارے پہلو جانچے گا جو لڑکی والے رشتہ قبول کرنے سے پہلے دیکھتے ہیں۔ اور پھر امریکہ! ہم امریکہ کو جتنی گالیاں دے لیں جتنا چاہیں برا بھلا کہہ لیں، جلوس نکال لیں، تقریروں میں اس کے پرخچے اڑا دیں، اس کے صدر کے پتلے جلا دیں، حقیقت یہی ہے کہ وہ بڑا ملک ہے۔ حد درجہ چست و چالاک، الرٹ! چوکنا! معیشت، سیاست مالیات، بین الاقوامی تعلقات، دفاع ہر پہلو سے پوری دنیا پر برتری رکھنے والا!
امریکہ، جیسے ملک میں کسی حکومت کا سربراہ سرکاری دورے پر جائے تو اس دورے کی کامیابی کا انحصار کم از کم چار عوامل پر ہے! اول دورہ کرنے والی شخصیت کے ملک کی اقتصادی حالت کیسی ہے؟ کیا یہ ملک اپنی معیشت الل ٹپ طریقے سے چلا رہا ہے یا کسی مضبوط اور ٹھوس سسٹم کے تحت! کیا یہ عالمی اداروں کا دست نگر ہے یا خود کفیل ہے؟ اس کی برآمدات اور درآمدات کا تناسب کیسا ہے؟ بین الاقوامی منڈی میں اس کا مقام کیا ہے، ساکھ کیا ہے اور شہرت کیسی ہے؟ ترقی کی شرح کیا ہے؟ قرضوں کا اور قومی آمدنی کا تناسب کیا ہے؟دوم، ملک کا سیاسی استحکام کس درجے کا ہے؟ کیا آئے دن جرنیل تختے الٹتے ہیں یا جمہوری تسلسل موجود ہے؟ کیا سول حکومت پالیسیاں بناتے وقت آزاد ہے یا کہیں اور دیکھتی ہے؟ کیا سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت موجود ہے یا خاندانی قبضے ہیں؟ کیا جمہوریت کی جڑیں عوام تک جارہی ہیں یا چند خاندان پشتینی نشستیں سنبھالے ہاریوں اور مزارعوں سے پرچیوں پر ٹھپے لگواتے ہیں؟ کیا جمہوری نظام تازہ خون کی پذیرائی کر رہا ہے یا پرانی سوکھی مڈیاں(لکڑی کے بے جان ٹکڑے) ہی اوپر آتے ہیں۔ سوم، نظام حکومت کیسا ہے؟ کیا میرٹ کا بول بالا ہے؟ یا ادارے شخصی بنیادوں پر چل رہے ہیں؟ کیا بیورو کریسی خصوصاً پولیس آزاد ہے یا سیاسی مداخلت کا شکار؟ بیرون ملک تعیناتیاں کیسے ہوتی ہیں؟۔ چہارم، دورہ کرنے والی شخصیت کی تعلیم کتنی ہے؟ آئی کیو کتنا ہے؟ کتنا ذہین ہے؟ کتنی سمجھ بوجھ رکھتا ہے؟ اجلاس کے دوران بحث ہو تو کتنی گہرائی تک جا سکتا ہے؟ کیا فائلوں کو غور سے پڑھ کر ان پر تفصیلی رائے دیتا ہے؟ کیا اپنے نوٹس(Notes) خود تیار کرتا ہے؟ بین الاقوامی سیاست کا کتنا علم اور کتنا شعور رکھتا ہے؟ اقتصادیات پر کتنا عبور ہے؟ زبان پر کتنی دسترس ہے؟ کیا اپنا مافی الضمیر مؤثر اور با عزت طریقے سے ادا کر سکتا ہے؟ یا اجلاسوں میں اس کی کارکردگی قابل رشک نہیں؟
یہ چار وہ بنیادی سوال ہیں جن کے جواب میزبان ملک تیار کرتا ہے۔ آج زمانہ وہ آ گیا ہے کہ ایک اوسط درجے کی کمپنی کے سربراہ سے ملنے جائیں تو وہ اپنے سٹاف کو حکم دے گا کہ ملاقات کے لیے آنے والے صاحب کے بارے میں جو معلومات میسر آ سکتی ہیں، پیش کی جائیں! آپ کے جانے سے پہلے ایک فائل اسے دی جا چکی ہو گی جس میں آپ کی تعلیم، کیریئر، خاندانی پس منظر اور عمومی شہرت کے بارے میں ضروری معلومات درج ہوں گی! آپ کا کیا خیال ہے کہ امریکی صدر، امریکی حکام اور امریکی کانگریس کے ارکان سے ملنے والے کے متعلق مکمل معلومات جمع نہ کی جاتی ہوں گی؟ آپ کا کیا خیال ہے، امریکی صدر اور کانگریس کے ارکان پاکستانی حکومت کے سربراہ کو اتنی ہی اہمیت دیں گے جتنی وہ بھارت، جاپان یا جرمنی کے سربراہ کو دیتے ہیں؟
امریکیوں کو معلوم ہے کہ پاکستان ایک ''کیلا ریاست‘‘ (Banana Republic) ہے۔ یہاں کوئی نظام ہے نہ ضابطہ، پارلیمنٹ بے جان پتلوں کا عجائب گھر ہے۔ حکومت کا سربراہ سیاہ و سفید کا مالک ہے۔ جو چاہے کرے۔ چاہے تو اپنی جماعت کے لیڈر کے تین بھائیوں کو نیویارک، لندن اور پیرس تعینات کر دے۔ چاہے تو اپنے بھائی کے پسندیدہ افسر کو بین الاقوامی تجارت کے ادارے میں بیک جنبشِ قلم سفیر مقرر کر دے۔ امریکہ کو معلوم ہے کہ پاکستان اتنا گائودی اور احمق ملک ہے کہ خسارے میں چلنے والی حکومتی ایئر لائن میں قانونی مشیر چوبیس لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ وصول کر سکتا ہے۔ امریکہ جانتا ہے کہ یہ ملک اتنا نالائق اور منصوبہ بندی میں اتنا بے جان ہے کہ پچاس سال میں دارالحکومت کے مرکزی ہسپتال کی توسیع نہیں ہو سکی اور عملی طور پر اس کا کثیر حصہ کھوکھوں، کوٹھریوں اور چھپروں پر مشتمل ہے۔ عشرے گزر گئے، یہ طے نہیں ہو رہا کہ ارجنٹائن پارک اس ہسپتال کو ملے گا یا نہیں؟ وزارتیں، محکمے، سٹیئرنگ کمیٹیاں سالہا سال سے سر جوڑے بیٹھی ہیں اور کوئی فیصلہ نہیں ہو رہا۔ امریکیوں کو معلوم ہے کہ تین سال میں شاہراہوں کا ٹول ٹیکس 290 روپے سے بڑھا کر 510 روپے کر دیا گیا اور کوئی چوں تک نہیں کرتا!
امریکیوں کو نہیں معلوم تو اور کسے معلوم ہے کہ ہماری حکومت کے معزز سربراہ خود فائلیں نہیں پڑھتے؟ ان کا کوئی پسندیدہ ااہلکار فائلیں سامنے رکھ کر ان سے "Discuss" کرتا ہے اور واپس اپنے کمرے میں جا کر احکام جاری کر دیتا ہے۔ امریکیوں کو معلوم ہے کہ آج تک صاحب نے تین صفحے کسی فائل پر نہیں لکھے۔ انہیں معلوم ہے کہ جوہری توانائی پر، بھارت کے ساتھ تعلقات پر، افغانستان پر، غرض کسی مسئلے پر آپ دس پندرہ منٹ تو کیا، پانچ منٹ کی مؤثر، قائل کرنے والی، متاثر کرنے والی گفتگو نہیں کر سکتے! امریکیوں کو معلوم ہے کہ اٹھارہ کروڑ کی آبادی میں اس ملک کو وزیر خارجہ نہیں مل رہا! امریکیوں کو یہ بھی پتا ہے کہ بھارتی افواج کے سربراہ، وزیر دفاع سے وقت لے کر حاضر ہوتے ہیں اور سیکرٹری دفاع اصل میں بھی سیکرٹری دفاع ہوتا ہے۔ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ اس کے مقابل پاکستان میں کیا ہوتا ہے؟ امریکیوں کو معلوم ہے کہ پاکستان کے بارڈر کھلے ہیں۔ لاکھوں افغان پاکستانی پاسپورٹوں پر ساری دنیا میں نقل و حرکت کر رہے ہیں۔ کراچی غیر قانونی طور پر رہنے والے غیر ملکیوں سے اٹا پڑا ہے۔ امریکی جانتے ہیں کہ دہشت گردی ختم کرنے کے لئے پاکستان کھربوں ڈالر لے لے تب بھی وہ نرسریاں پاکستانی حکومت کے کنٹرول سے سراسر باہر ہیں جن میں رات دن دہشت گردی کے نئے پودے پھل پھول رہے ہیں اور جہاں حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں!
کیا ہمیں نہیں معلوم کہ امریکی صدر بننے والا شخص کتنی بھٹیوں سے گزرنے کے بعد کندن بن کر نکلتا ہے! اُسے زبان و بیان پر قدرت حاصل ہوتی ہے۔ وہ لا تعداد مباحثوں کے بعد امیدوار بنایا جاتا ہے۔ اسے قوم کے سامنے اپنے مخالف امیدوار سے مناظرہ کرنا پڑتا ہے۔ وہ راتوں کو جاگ کر کتابیں پڑھتا ہے، فائلیں دیکھتا ہے۔ اُسے جو بریف دیئے جاتے ہیں انہیں وہ صرف ازبر نہیں کرتا، ان میں غلطیاں بھی نکالتا ہے اور ان کے بارے میں اپنے معاونین سے بحث بھی کرتا ہے۔ اس سے کوئی اہلکار من مانا فیصلہ نہیں کرا سکتا۔ اسے اُلّو بنانا اتنا ہی مشکل ہے جتنا انسان کے لیے اُلّو تخلیق کرنا مشکل ہے۔ کانگریس کا ایک ایک رکن اپنی پشت پر تحقیقی ادارہ رکھتا ہے۔ ہر موضوع پر اسے تازہ ترین معلومات ہر وقت میسر ہیں اور ملاقات اور مذاکرات کرتے وقت وہ با خبر ترین فرد ہوتا ہے!
ہم سب نے وہ تصویر دیکھی ہے جس میں صدر ایوب خان امریکی صدر کے گال تھپتھپا رہے ہیں جیسے کسی بچے کے گال تھپتھپائے جاتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو بین الاقوامی لیڈروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرتے تھے، اس لیے کہ وہ لوگ فائلوں کا مطالعہ کرتے تھے، یوں کہ نکات ان کی انگلیوں کی پوروں پر ہوتے تھے۔ زبان و بیان پر قدرت تھی۔ ان کے ما تحت فائل بھیجتے وقت چار مرتبہ پڑھتے اور دس بار سوچتے تھے۔ امریکی صدر ایک نکتہ نکالتا تھا تو وہ آگے سے چار جواب دیتے تھے۔ شافی جواب!
پھر بھی ہمیں یقین ہے کہ وزیر اعظم کا دورہ کامیاب ہو گا۔ واپس تشریف لائیں گے تو مبارک بادوں کے انبار لگ جائیں گے۔ استقبال کرنے والے ثابت کر دکھائیں گے کہ ہنری کسنجر ان کے سامنے طفلِ مکتب ہے! چشمِ بد دور!