قارئین کی خدمت میں دست بستہ

آپ نے وہ کہانی کئی بار سنی ہو گی جس میں ایک دادا‘ ایک پوتا اور ایک ان کا گدھا‘ لوگوں کو خوش کرنے کی کوشش کرتے رہے اور سراسر ناکام ہوئے۔ دادا پوتا دونوں گدھے پر سوار جا رہے تھے۔ راہگیروں نے کہا‘ دو مشٹنڈے غریب جانور پر سوار ہیں۔ ایک پیدل چل لے تو کیا حرج ہے‘ یہ سن کر دادا اتر پڑا اور پیدل چلنے لگا۔ اس پر راہگیروں نے پوتے پر اعتراض کیا کہ بوڑھے دادا کو تھکا رہا ہے اور خود مزے سے سواری پر بیٹھا ہے۔ اب پوتا نیچے اتر گیا اور دادا کو گدھے پر بٹھایا۔ مگر جو راہگیر اب ملے‘ انہوں نے دادا پر نفرین بھیجی کہ ذرا سا بچہ جا رہا ہے اور سخت دل بابا سواری کے مزے لے رہا ہے۔ اب دونوں پیدل چلنے لگے۔ نیا اعتراض یہ ہوا کہ عقل کے اندھوں کو سواری میسر ہے اور دونوں میں سے ایک بھی فائدہ نہیں اٹھا رہا۔ اب ایک ہی صورت بچی تھی کہ دونوں گدھے کو سر پر اٹھا لیتے مگر اس پر راہگیروں نے انہیں دنیا کے بے وقوف ترین دادا پوتا کا خطاب دے دینا تھا!
کچھ کچھ یہی تعلق کالم نگار اور قارئین کا ہے۔ قارئین کسی حال میں خوش نہیں ہو سکتے۔ آپ اگر کالم نگار ہیں تو آپ اپنی خوش دامن کو خوش کر سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ آپ اپنی بیگم کو خوش کر سکتے ہیں مگر قارئین کو خوش رکھنا آپ کے بس کی بات نہیں!
ایک زمانہ تھا کہ قارئین اور کالم نگار کا تعلق پوسٹ مین کا محتاج تھا۔ خطوط اخبار کے دفتر میں آتے تھے۔ جو لکھنے والے دفتر میں بیٹھ کر کام کرتے تھے‘ خطوط روز کے روز وصول کر لیتے تھے۔ جو کالم نگار دفتر کا چکر کبھی کبھار لگاتے تھے‘ انکے خطوط انتظار کرتے رہتے تھے۔ اب انٹرنیٹ کا زمانہ ہے ۔دنیا سمٹ کر مٹھی میں آ گئی ہے۔ کالم نگار کی آنکھ جس وقت کھلتی ہے‘ بہت سے ملکوں میں اس وقت دوپہر ہو رہی ہوتی ہے۔ وہ میل کھولتا ہے تو کالم کا ردعمل آ چکا ہوتا ہے۔ جن قارئین نے گزشتہ کالم پر اس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے تھے‘ اب انہوں نے اس کے گردے اور انتڑیاں نکال کر تار پر لٹکا دیے ہیں!
آپ نے اگر کالم میں لکھا ہے کہ پاکستان کو یمن کے تنازعہ پر غیر جانبدار رہنا چاہیے اور اپنی فوج کو اس معاملے سے باہر رکھنا چاہیے تو چاند ماری کے لیے تیار ہو جائیے۔ جو ای میلز وصول ہوئی ہیں ان کا لب لباب یہ ہے کہ آپ کئی نسلوں سے شیعہ ہیں۔ کچھ نے تو باقاعدہ (نعوذ باللہ) گستاخ صحابہ کا لقب عطا کیا ہے! کچھ کے نزدیک آپ (معاذ اللہ) حرمین شریفین سے غداری کے مرتکب ہوئے ہیں‘ کچھ کو یہ بھی معلوم ہو چکا ہے کہ آپ کو فلاں ملک نے کتنی رقم اس غداری کے صلے میں دی ہے۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ آپ کو رقم ملی بھی نہیں!
اگر آپ نے ایران اور بھارت کے روز افزوں تعلقات پر ناخوشی کا اظہار کیا ہے اور چاہ بہار کے جاسوسی کا مرکز ہونے پر تشویش ظاہر کی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ سلفی ہو گئے ہیں۔ آپ عرب لابی کے ہاتھ فروخت ہو چکے ہیں۔ آپ نے اگر ماضی قریب میں نصف درجن کالم ایران اور پاکستان کے اٹوٹ ثقافتی اور لسانی رشتوں کی تعریف میں لکھے بھی ہیں تو قارئین کے نزدیک وہ صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔ آپ جاہل مطلق ہیں۔ آپ کو معلوم ہی نہیں کہ فارسی کی برصغیر کے مسلمانوں کے حوالے سے کیا اہمیت ہے اور اگر آپ نے یہ لکھ دیا ہے کہ عراق اور شام کے جنگ کے میدانوں میں پاکستانی نوجوان دونوں طرف سے لڑ رہے ہیں تو پھر نصف قارئین کے نزدیک آپ سعودی ایجنٹ ہیں اور باقی نصف کو یقین ہے کہ آپ کی زندگی کا واحد مقصد ایرانی مفادات کا تحفظ ہے!
مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے حوالے سے جتنی تنقید وفاق اور پنجاب کی پالیسیوں اور طریق حکومت پر اس کالم نگار نے کی ہے‘ شاید ہی کسی نے کی ہو۔ مگر جب نوازشریف کو لبرل ہونے کی پاداش میں کٹہرے میں کھڑا کیا گیا اور ہولی کے تہوار میں شرکت کرنے پر ہدف ملامت بنایا گیا تو وزیراعظم کا دفاع بھی کیا۔ بس توپوں کا رخ فوراً بدل گیا۔ کئی قارئین نے اطلاع دی کہ کالم نگار بادشاہ سلامت کا باقاعدہ درباری ہے اور سالہا سال سے شریف خاندان کا خدمت گار ہے! 
افسوس ناک رویہ قارئین کی اکثریت کا جو سامنے آیا ہے یہ ہے کہ وہ کسی بھی کالم نگار کے متعلق اس کے صرف ایک کالم کی بنیاد پر رائے قائم کرتے ہیں۔ مثلاً اگر عمران خان کے بارے میں آپ نے چھ مثبت کالم لکھے ہیں مگر ایک کالم میں اس پر تنقید کی ہے تو پہلے چھ کالم کالعدم سمجھے جائیں گے۔ اب آپ تبدیلی کے دشمن ہیں۔ کرپشن کے حامی ہیں۔ مسلم لیگ نون کے حاشیہ بردار ہیں۔ آپ کا خاندانی پس منظر قابل نفرین ہے۔ جہالت آپ کا طرۂ امتیاز ہے۔ لکھنا آپ کو آتا ہی نہیں!
کم از کم مستقبل قریب میں اس بات کا امکان دور دور تک نہیں کہ ہم ایک متوازن اور RATIONAL قوم بن سکیں۔ کئی سو سالوں سے ہمارا رویہ یہی چلا آ رہا ہے۔ ہماری جذباتیت اور ہمارے غیر عقلی رویے کی سب سے بڑی مثال سرسید احمد خان ہیں۔ آدھی قوم انہیں محسن گردانتی ہے اور باقی آدھی کافر! درمیان میں کوئی مقام ہی نہیں! جو نصف محسن سمجھتی ہے وہ یہ کہنے سے ہچکچاتی ہے کہ کلام پاک کی تفسیر میں ان سے لغزشیں ہوئیں۔ مذہبی معاملات میں انہیں اتھارٹی نہیں سمجھنا چاہیے۔ جو انہیں دشمن دین کہنے پر مصر ہیں وہ یہ ماننے سے گریزاں ہیں کہ تعلیمی میدان میں سرسید احمد خان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ وہ ایک بے لوث اور بے غرض خادم تھے۔ جائیداد تک بیچ ڈالی۔ جھولی تک پھیلا دی! پھر یہ بھی ہے کہ مذہب کے کچھ معاملات میں جو موقف انہوں نے اختیار کیا‘ وہی موقف کئی دیگر مسلمان ملکوں کے مشاہیر نے بھی ان سے پہلے اور ان کے بعد اختیار کیا۔
یہی رویہ ہمارا مدارس کے بارے میں ہے۔ ایک فریق تمام مدارس کو دہشت گردی کے حوالے سے ملزم ٹھہراتا ہے اور یہ دیکھنے سے قاصر ہے کہ کئی مدارس میں علوم دین کی جو خدمت ہو رہی ہے‘ لائق صد تحسین ہے۔ بے شمار علما فرش پر بیٹھ کر‘ روکھی سوکھی کھا کر‘ قرآن و حدیث کی اور علوم اسلامیہ کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ دوسرا فریق یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ کچھ مدارس کا کردار دہشت گردی کے حوالے سے واقعتاً قابل اعتراض ہے۔ مدارس کا استحصال مسلسل ہو رہا ہے۔ کچھ سیاسی قبیل کے نام نہاد علما آئے دن جو خطرے کی گھنٹیاں بجا رہے ہیں اور کہے جا رہے ہیں کہ مدارس کے خلاف سازش ہو رہی ہے‘ سچ یہ ہے کہ وہ خود مدارس سے مخلص نہیں اور اولین ترجیح وہ اپنے شخصی اور سیاسی مفادات کو دیتے ہیں!
چنانچہ قارئین کا انتہا پسندانہ رویہ‘ قوم کے مجموعی رویے کے اعتبار سے ہرگز باعث تعجب نہیں ‘یہ اور بات ہے کہ تکلیف دہ ضرور ہے! ابوسعید ابوالخیر کی رباعی یاد آ رہی ہے ؎
گفتی کہ فلان زیادِ ما خاموش است
از بادٔہ عشقِ دیگران مدہوش است
شرمت بادا! ہنوز خاکِ درِ تو 
از گرمئی خونِ دلِ من در جوش است
تو تم نے یہ شکوہ کیا کہ فلاں میری یاد سے غافل ہے اور کسی اور کے عشق میں پڑ گیا ہے۔ شرم کرو! ابھی تو تمہاری دہلیز کی مٹی میرے دل کے خون کی گرمی میں جوش کھا رہی ہے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں