کیا آپ نے غور کیا ہے کہ دنیا کے جن ملکوں کو ہم بالکل لائق توجہ نہیں سمجھتے‘ کبھی کبھی ان کے بارے میں بھی جاننے کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ ایسا ہی دنیا کا ایک خطہ کیریبین (Caribbean) ہے۔ ساری دنیا سے الگ‘ امریکی ریاست فلوریڈا کی ناک کے نیچے‘ خلیج میکسیکو کے مشرق میں‘ بحر اوقیانوس کے گھٹنوں کے پاس! آپ نے کئی ملکوں کا نام اکثر سنا ہو گا۔۔۔ کیوبا‘ ہیٹی‘ جمیکا‘ جزائر بہاما وغیرہ، یہ سب کیریبین کے خطے میں ہیں۔ ان میں سے انگریزی بولنے والے ملکوں نے مشترکہ کرکٹ ٹیم بنا رکھی ہے جسے ویسٹ انڈیز کی ٹیم کہا جاتا ہے۔ اگر یہ ٹیم جیت جائے تو پاکستانی اسے کالی آندھی کہہ کر دل کا غبار نکالتے ہیں۔
ایک ملک اس خطے میں ڈومِنیکن (Dominican) ریپبلک بھی ہے۔ ایک کروڑ آبادی میں پانچ چھ لاکھ مسلمان ہیں۔ وہ بھی زیادہ تر مسلمان ملکوں سے آئے ہیں! ایلکس مارل اسی ڈومنیکن ریپبلک میں پلا بڑھا۔ پھر امریکہ چلا آیا۔ نیو یارک کی سینٹ جان یونیورسٹی کے شعبہ فوٹو گرافی نے اسے اپنی بانہوں میں جکڑ لیا۔ یوں کہ اعلیٰ تعلیم فوٹو گرافی میں حاصل کی۔ پھر یہیں پروفیسر تعینات ہو گیا۔
ایلکس مارل کا شمار اس وقت دنیا کے مشہور فوٹو گرافروں میں ہوتا ہے۔ اس فن سے لگائو رکھنے والا شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جس نے ایلکس مارل کا نام نہ سنا ہو۔
ترکی سے لے کر ہیٹی تک‘ نیو یارک سے لے کر یورپ اور جاپان تک ہر جگہ اس کی تصویروں کی نمائش لگ چکی ہے۔ وہ یونیورسٹی کی جان ہے۔ اس کے طالب علم اس کے اردگرد یوں بھنبھناتے رہتے ہیں جیسے اس کے جسم پر گُڑ کا شیرہ گرا ہوا ہو۔ اس کی کلاس ایک بار اٹنڈ کرنے والا طالب علم فوٹو گرافی کی دنیا کا اسیر ہو جاتا ہے۔
ایلکس کی تربیت خاص ماحول میں ہوئی۔ ماں نے خاندان کی اہمیت ذہن میں راسخ کی۔ باپ سماجی ذمہ داریوں پر زور دیتا تھا۔ اسی تربیت کا اثر ہے کہ ایلکس نے تارکین وطن، خاندانی انتشار اور زلزلوں سے ہونے والی تباہی کو اپنی فوٹو گرافی کا موضوع بنایا۔
کہاں کیریبین کے دور افتادہ جزیرے ! کہاں ایلکس مارل جس کی کئی پشتوں میں اسلام تو دور کی بات ہے‘ ایشیا سے تعلق بھی مفقود ہے! اور کہاں فتح اللہ گولن کی تحریک ''خدمت‘‘ ! ظفر اقبال کی سطر ذہن میں چمکنے لگی ہے ع
کہاں کا پھول تھا لیکن کہاں پر آ کِھلا ہے
افسوس! پہلا مصرع نہیں یاد آ رہا۔ نہ ہی ظفر اقبال کا مجموعۂ کلام ''غبار آلود سمتوں کا سراغ‘‘ اس وقت موجود ہے۔ کلیات ''اب تک‘‘ کی چاروں جلدیں ظفر اقبال صاحب نے کمال محبت سے عطا کی تھیں۔ چاروں آسٹریلیا‘ اپنے صاحبزادے کی لائبریری میں رکھ آیا جو شدید اینٹی ظفر اقبال ہے۔ مقصد یہ نہیں تھا کہ وہ پڑھے اور ''راہِ راست‘‘ پر آئے‘ وہاں دیگر کتابوں کے ساتھ یہ بھی اس لیے ذخیرہ کی ہیں کہ ضرورت پڑے تو پریشانی نہ ہو۔ مگر پریشانی اب یہاں پاکستان میں ہو رہی ہے۔ پہلا مصرع یاد نہیں آ رہا۔ اب کلیات کا دوسرا سیٹ مانگنے سے تو رہا۔ ہاں‘ یہ دلگداز سطریں پڑھ کر ان کا جہاندیدہ دل پسیج اٹھے تو اور بات ہے؛ اگرچہ وہ تعجب کا اظہار کر سکتے ہیں کہ اس ''لڑکے‘‘ کو تمام کتابیں دی ہیں مگر اب اس کی طمع دو دو نسخے ہتھیانے پر اتر آئی ہے۔''لڑکے‘‘ کا قصّہ یہ ہے کہ جب ''آبِ رواں‘‘ اور ''گلا فتاب‘‘ حفظ ہوئیں (کی نہیں تھیں بس ہو گئی تھیں) تو لڑکپن ہی تو تھا! ع
کہاں کا پھول تھا لیکن کہاں پر آ کھلا ہے
ایلکس''خدمت‘‘ کے بارے میں رقم طراز ہے:
کچھ سال پہلے میں''خدمت‘‘ سے متعارف ہوا۔ ترکی کی یہ سماجی تحریک تعلیمی سرگرمیوں‘ بین المذاہب مکالمے اور عالمی سطح پر قدرتی آفات کے دوران امداد مہیا کرنے کے لیے معروف ہے۔ میرا اپنا کام بھی تعلیم سے تعلق رکھتا ہے اور میری فوٹو گرافی میں ذاتی اور معاشرتی ملاپ کا پہلو نمایاں ہے۔ جنوری سے لے کر اب تک میں''خدمت‘‘ کی سرگرمیوں کو اپنے فن کے ذریعے محفوظ کرتا آتا ہوں، لیکن زیادہ دلچسپی مجھے اس تحریک میں شامل لوگوں کے بارے میں واقفیت حاصل کرنے سے ہے‘‘۔
ایلکس 'خدمت‘ سے متعارف ہونے والا تنہا غیر مسلم نہیں۔ پوری دنیا میں ہزاروں غیر مسلم اس تحریک کی بدولت ترکی سے اور مسلمانوں سے متعارف ہو چکے ہیں اور ہو رہے ہیں!
ایک محتاط اندازے کے مطابق فتح اللہ گولن کے ''متاثرین‘‘ کی تعداد دو لاکھ اور چالیس لاکھ کے درمیان ہے۔ دی گارڈین نے 2000ء میں اس کے حامیوں کی تعداد''ہزاروں لاکھوں‘‘ میں بیان کی تھی۔ تحریک کا ڈھانچہ سخت نہیں بلکہ لچکدار ہے۔ تحریک کی کامیابی کا راز ہی یہ ہے کہ جدید تقاضوں کے مطابق‘ ہر ملک کے قوانین اور ثقافتی اقدار کی پابندی کی جاتی ہے۔ یہ جدید و قدیم کا ایک غیر متعصب امتزاج ہے۔ آپ 'خدمت‘ میں رہ کر سلطنت عثمانیہ اور جدید کمال ازم‘ دونوں کی مثبت خصوصیات بہم آمیز کر سکتے ہیں۔ 2008ء میں نیدر لینڈ (جسے ہالینڈ بھی کہا جاتا ہے) کی پارلیمنٹ کے اٹھائے گئے سوالات کے نتیجہ میں‘ وہاں کی حکومت نے 'خدمت‘ کی سرگرمیوں کی تفتیش کی۔ نیدر لینڈر کی حکومت اس نتیجہ پر پہنچی کہ تحریک کا مذہبی انتہا پسندی سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی مقامی معاشرے میں مسلمانوں کے خلط ملط ہونے کے خلاف ہے۔ تفتیش نے تحریک کے ارکان کو ''سوسائٹی میں انتہائی کامیاب‘‘ قرار دیا!
صدر اردوان نے ترکی کی ترقی اور استحکام کے لیے قابلِ قدر کاوشیں کی ہیں‘ مگر توازن ان کے ہاتھ سے چھوٹ کر دور جاگرا ہے۔ اگر مبینہ کرپشن اور اقربا پروری کو ایک طرف رکھ دیں‘ تب بھی جس طرح ہزاروں افراد کو ملازمتوں سے برخواست کیا جا رہا ہے اور جیل میں بند کیا جا رہا ہے‘ اس سے ان کے تدبّر کی نفی ہوتی ہے۔ اگر ترکی میں ہزاروں لاکھوں لوگ ''دہشت پسند‘‘ ہیں تو پھر ترکی کا خدا ہی حافظ ہے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے پاکستان میں پیپلز پارٹی یا نون لیگ یا تحریک انصاف کے ہزاروں ارکان غدّار یا دہشت پسند قرار دے کر پسِ دیوار زنداں دھکیل دیے جائیں۔ لاکھوں لوگ اردوان کی حمایت میں باہرنکل آئے مگر اس سے کئی گناہ زیادہ تعداد باہر نہیں نکلی۔ مسلمانوں کی یہ کمزوری ہمیشہ ان پر غالب رہی ہے کہ وہ لیڈر کو یا تو فرشتہ سمجھ لیتے ہیں یا شیطان! خوبیوں اور خامیوں کو بیک وقت جانچنا مسلمانوں کے خمیر ہی میں نہیں! یوں لگتا ہے ایک متوازن جانچ ان کی ذہنی سطح کے بس میں نہیں۔ اورنگزیب عالم گیر اس رویے کی بہت مناسب مثال ہے۔ برّصغیر کے مسلمانوں کی کثیر تعداد اسلامی احیا کا سہرا اس کے سر باندھتی ہے جبکہ اسے کم و بیش ولایت کے درجے پر بٹھانے والے یہ ماننے کے لیے بالکل نہیں تیار کہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے اس نے ہر وہ حیلہ استعمال کیا جو استعمال ہو سکتا تھا۔ اپنے بھائی مراد کو اس نے صریحاً دھوکہ دیا۔ معروف مورخ خافی خان کے بقول اس نے مکر و فریب سے بھرا ہوا خط مراد کو لکھا کہ '' میں تو بس تمہیں تخت پر بٹھانا چاہتا ہوں اور خود ایک گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کر اپنے آپ کو عبادت کے لیے وقف کر دینا چاہتا ہوں۔‘‘ پھر اس نے دھوکے سے مراد کو گرفتار کر کے گوالیار قلعے میں قید کر دیا۔ پھر ایک ''مدعی‘‘ تلاش کیا گیا جس کے باپ کو مراد نے قتل کروایا تھا۔ پھر قاضی سے''انصاف‘‘ مانگا گیا اور یوں مراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
صدر اردوان ایک انسان ہیں، فرشتہ نہیں! وہ جب 'خدمت‘ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں تو ہنسی آ جاتی ہے! جس کسی نے 'خدمت‘ کو قریب سے دیکھا ہے وہ اس الزام کو مان ہی نہیں سکتا کیونکہ 'خدمت‘ امن اور مکالمے کی بہت بڑی علمبردار ہے۔ یوں بھی بغاوت کرنے والے اپنے آپ کو پیس ایٹ ہوم کمیٹی (Peace at Home Committee) سے منسوب کر رہے تھے۔ تاریخ کا ادنیٰ طالب علم بھی جانتا ہے کہ ''پیس ایٹ ہوم‘‘ اتاترک کی اصطلاح تھی، اس کا گولن سے کوئی تعلق نہیں!
دنیا بھر کے غیر جانبدار دانشور‘ جن کی اکثریت غیر مسلموں پر مشتمل ہے 'خدمت‘ کو اعتدال پسند‘ تشدد سے دور اور مکالمے کا خواہش مند قرار دے رہے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ تحریک سیاسی ہے نہ مذہبی‘ بلکہ سماجی ہے۔ تعلیم اور بین المذاہب بات چیت خدمت کی شناخت بن چکے ہیں۔ جو مسلمان‘ اردوان کی اندھی محبت میں 'خدمت‘ کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں‘ کیا وہ 'خدمت‘ کے بجائے القاعدہ یا داعش کو اسلام کی نمائندہ تحریک قرار دینا چاہتے ہیں؟
اردوان چار سال استنبول کے میئر رہے۔ بے مثال کامیابیاں حاصل کیں۔ انہوں نے زبردست اصلاحات کیں، وہ عوام کی آنکھ کا تارا بن گئے۔ پھر 2014ء تک گیارہ سال وزیر اعظم رہے اور اپنے کارکنوں کی وجہ سے تاریخ میں تابناک مقام حاصل کیا۔ لیکن کوئی بھی لیڈر‘ خواہ فرشتہ ہی کیوں نہ ہو‘ طویل عرصہ اقتدار میں رہے تو خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ حد سے زیادہ خود اعتمادی غلطی پر غلطی کرائے جاتی ہے۔ پولیس‘ آرمی‘ عدلیہ‘ بنکاری‘ شعبہ تعلیم اور صحافت سے ہزاروں افراد کو نکال باہر کر دیا گیا ہے۔ اس کا ردِّ عمل ہو گا اور ضرور ہو گا! صدر اردوان نے اپنے چلنے کے لئے ایک تنی ہوئی رسی کا انتخاب کیا ہے۔ دیکھیے‘ جس واقعہ نے پیش آنا ہے‘ کب پیش آتا ہے؟ کاش! وہ مہاتیر اورنیلسن منڈیلا کی طرح اُس وقت اقتدار سے الگ ہو جاتے جب عروج پر تھے۔