شہری بیرونی حدود شروع ہوتے ہی سرخ رنگ کی خوبصورت عمارتیں نظر آنے لگیں۔ عمارتوں کا یہ ایک طویل سلسلہ تھا۔ درمیان میں سبزہ زار تھے اور درختوں کے ہجوم۔ گائیڈ مسلسل بتا رہا تھا۔۔۔۔ یہ آرٹس بلڈنگ ہے، یہ عظیم الشان عمارت سنٹر آف بزنس ایڈمنسٹریشن ہے، یہ سکول آف سائنٹیفک ریسرچ کی عمارت ہے، یہ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیسن اینڈ سرجری ہے، یہ عمارت صنعتی اقتصادیات کی تحقیق کے لیے مختص ہے اور دنیا میں انڈسٹریل اکنامکس کے حوالے سے سب سے بڑا ادارہ ہے۔ اس طرف تین کلو میٹر تک پروفیسروں کے رہائشی مکانات ہیں۔ دوسری طرف ہوسٹل ہیں۔ ان گیارہ ہوسٹلوں میں ہزاروں طلبہ رہ رہے ہیں جو دنیا بھر کے ملکوں سے فقط اس یونیورسٹی کی شہرت سن کر پڑھنے آئے ہیں۔ ان کی پشت پر شاپنگ سنٹر ہے۔ ملازمین کے بچوں کے لیے سکول اور کالج الگ بنے ہوئے ہیں۔
یونیورسٹی کیا تھی، پورا شہر تھا۔ سرفخر سے تن گیا۔ شہرِاقبال کے رہنے والوں نے کیا کمال کر دکھایا ہے۔ تاجروں نے دولت کو کس صحیح طریقے سے استعمال کیا ہے! سبحان اللہ!
مگر آہ! ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ یہ سب خواب ہے۔ جاگتے میں نظر آنے والا خواب!
سیالکوٹ صنعت و حرفت کا گڑھ ہے۔ اربوں کھربوں روپے سالانہ کمائے جاتے ہیں۔ 2014ء میں فٹ بال ورلڈ کپ کے لیے اس شہر نے چار کروڑ سے زیادہ فٹ بال برآمد کیے۔ 1980ء کے ورلڈ کپ کے لیے بھی سیالکوٹ ہی کو آرڈر ملا۔ دنیا کے بڑے بڑے برانڈ جو کھیلوں کا سامان فروخت کرتے ہیں مثلاً نائکے، اڈیڈاس، پُوما، لِٹو وغیرہ سیالکوٹ ہی کے گاہک ہیں۔ چمڑے کی انڈسٹری اس کے علاوہ ہے۔ سرجری کے آلات کا بہت بڑا عالمی کاروبار ہے۔ سیالکوٹ میں صرف بڑی بڑی کمپنیوں ہی کی تعداد ہزار کے قریب ہے۔ ڈیڑھ ارب ڈالر سے زیادہ کا زرمبادلہ ہر سال ملک کو اس شہر کے طفیل ملتا ہے۔
سیالکوٹ کی امارت پر، اس کی بین الاقوامی تجارت پر اور اس کے باسیوں کی فنی اور تکنیکی مہارت پر صفحوں کے صفحے لکھے جا سکتے ہیں۔ یہاں کے صنعت کاروں، تاجروں اور برآمد کنندگان نے ہمت کی اور حکومت سے ایک پائی لیے بغیر ایئرپورٹ بنایا تاکہ لاہور اور اسلام آباد ایئر پورٹوں پر انحصار نہ کرنا پڑے۔ تعجب ہوتا ہے کہ جس شہر میں ملا عبدالحکیم سیالکوٹی تھے (انہیں فاضل لاہوری بھی کہا جاتا تھا) جنہیں شاہ جہان نے چاندی میں تلوایا تھا، اور جس شہر میں اقبال تھے، جن کے علم و فضل، شعر و ادب اور فلسفہ و حکمت نے سیالکوٹ کا نام کرۂ ارض کے آخری کونے تک پہنچا دیا ہے اور جس شہر میں فیض تھے اور خواجہ عبدالحمید عرفانی جیسے عالم تھے، اس شہر کے کھرب پتیوں کو یہ خیال نہ آیا کہ ایک ایسی یونیورسٹی بنائیں جو شہر کے شایانِ شان ہو!
تو پھر سانپ نے تو نکلنا ہی تھا اور وہ نکلا۔ یہ واقعہ چھ دن پہلے کا ہے۔ جہازوں میں سانپوں کا نکلنا تو سنتے رہے، ان کی وجہ سے پروازیں بھی مؤخر ہوئیں مگر کسی انٹرنیشنل ڈیپارچر لائونج میں غالباً ایسا پہلی بار ہوا۔ سیالکوٹ ایئرپورٹ کے لائونج سے پانچ فٹ لمبا سانپ نکلا اور مٹرگشت کرنے لگ گیا۔ اہلکار کچھ بھاگے، کچھ چیخے، بالآخر ایئرپورٹ سکیورٹی فورس کے کسی فرد نے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔
س سے سیالکوٹ ہے اور س سے سیٹھ ہے اور س سے سانپ ہے مگر اے سیالکوٹ کے سیٹھو! خدا تمہاری برآمدات میں مزید اضافہ کرے، س سے سکول بھی تو ہے۔ اگر تمہاری دلچسپی صرف بزنس ہی میں ہے تو پھر ایک ''سکول آف بزنس ایڈمنسٹریشن‘‘ ہی ایسا قائم کر دو کہ ہارورڈ اور جان ہاپکن سے بڑھ کر بے شک نہ ہو، انہی کے مرتبہ کا تو ہو۔ دولت تمہارے پاس وافر ہے۔ ایسا نظام قائم کرو اور ایسے مشاہرے رکھو کہ مغربی اداروں سے کھنچ کھنچ کر پروفیسر اور ریسرچر اِدھر کا رُخ کریں۔ بین الاقوامی معیار کے کیمپس بنائو۔ سفارش اور اقربا پروری کو اندر نہ گھسنے دو۔ آکسفورڈ یا برکلے کے کسی جہاندیدہ، گرگِ باراں دیدہ پروفیسر کو منصوبے کا ناظم مقرر کرو، مداخلت نہ کرو اور مشرقِ وسطیٰ کے اُن شہزادوں اور بادشاہوں کے رخساروں پر طمانچہ رسید کرو جو اپنی بے پایاں دولت سے آسماں بوس برج تو تعمیر کر سکتے ہیں، تفریحی جزیرے تو خرید سکتے ہیں، زرِخالص سے کاریں تو بنوا سکتے ہیں، اڑتے جہازوں میں خواب گاہیں، ڈرائنگ روم اور اٹیچڈ باتھ روم بنوا کر زہرہ وش، ماہ رُخ، سیم تن، ایئرہوسٹسوں کو کنیزیں تو بنا سکتے ہیں مگر افسوس! صدر افسوس! بین الاقوامی معیار کی ایک یونیورسٹی بنانے کی توفیق ہوئی نہ ہو رہی ہے۔
اس کالم نگار نے راچسٹر (منی سوٹا) کے مشہورِ عالم ہسپتال (میوکلینک) کے وہ فائیو سٹار وارڈ دیکھے ہیں جن کے کمروں کے تالے، کنڈے اور جن کے غسل خانوں کی ٹونٹیاں ان عرب حکمرانوں نے خالص سونے کی لگوائی تھیں۔ نائن الیون سے پہلے راچسٹر کے بازاروں میں ان کی خواتین شاپنگ کرتے وقت ڈالر یوں اچھالتی تھیں جیسے جنوبی پنجاب کے جاگیردار، مجرا کرنے والی رقاصائوں پر نوٹ اچھالتے ہیں۔ اردن کے شاہ حسین نے آخری ایام میں دارالحکومت عملی طور پر راچسٹر ہسپتال ہی میں منتقل کر لیا تھا اور اس کا ہوائی جہاز وہیں پارک رہتا تھا۔ میوکلینک کے بڑے بڑے ڈاکٹر کئی بار ایمرجنسی میں، خصوصی طور پر ریاض بھیجے گئے۔ ایک اور بادشاہ نے اپنے معالج کو راچسٹر سے بلوایا اور اپنے دارالحکومت میں قیام کے دوران اس کی اور اس کی بیوی کی ساری شاپنگ کو ''سرکاری‘‘ قرار دیا۔ مگر ان حاطب اللیل حکمرانوں کو، اندھیرے میں سوکھی اور گیلی لکڑیوں کی تمیز نہ کر سکنے والے حکمرانوں کو، ایسا ہسپتال اپنے ہاں بنانے کی توفیق نہ ہوئی۔ ابھی ایک سال پہلے ہی کا تو واقعہ ہے کہ ایک بادشاہ نے فرانس کا پورا تفریحی ساحل(بیچ) اپنے لیے مختص کرا لیا۔ دو خصوصی جہازوں میں ایک ہزار افراد پر مشتمل ذاتی عملہ اور خاندان کے قریبی ارکان ساتھ تھے۔ عوام کی آمد و رفت بند کی گئی تو ایک لاکھ فرانسیسی شہریوں نے دستخط کر کے فرانسیسی حکومت کو یادداشت بھیجی۔ حکومت کے ہوش ٹھکانے آ گئے۔ آزاد ملکوں میں ایک دستخط والی یادداشت بھی حکومت کا ناطقہ بند کر سکتی ہے۔ حکومت نے ''مہمان‘‘ سے معذرت کر لی، مہمان نے بوریا بستر اٹھایا اور یہ ''مختصر‘‘ ذاتی قافلہ مراکش چلا گیا۔ وہاں اپنی ہی بادشاہی تھی اور اپنی سی! یہاں کے عوام فرانس کے عوام کی طرح بنیادی حقوق کے لیے آواز اٹھانا تو درکار، سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ اِس دوران ایک دلچسپ مگر عبرت انگیز واقعہ جو رونما ہوا، لگے ہاتھوں اس کا بھی ذکر ہو جائے۔ فرانسیسی حکومت نے شاہی قافلے کی حفاظت کے لیے جو پہریدار مقرر کیے تھے، ان میں پولیس کی دو خواتین افسر بھی تھیں۔ انہیں ہٹانا پڑا اس لیے کہ ''مہمانوں‘‘ نے فرانسیسی حکومت سے شکایت کی تھی کہ کیا اب عورتیں ان کی حفاظت کریں گے؟ واہ! مسلمانو! واہ! جو عورت نو ماہ اپنے پیٹ میں تمہاری دیکھ بھال کرتی ہے، جو تمہاری پیدائش کے بعد مسلسل تمہاری حفاظت کرتی ہے، یہاں تک کہ تم اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائو، بڑے ہو کر تمہیں شرم آنے لگتی ہے کہ وہ کیوں حفاظت کرے! واہ! کیا ذہنیت ہے! کیا مائنڈ سیٹ ہے!
دولت کا اور علم کا باہمی تعلق ہمیشہ سے ہے اور رہے گا۔ سیالکوٹ کے دولت مند اگر عالمی سطح کی قابلِ رشک یونیورسٹی بنائیں گے تو اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہ ہو گی۔ دنیا کی کئی معروف یونیورسٹیاں بزنس کرنے والے دولت مندوں نے بنائیں۔ برصغیر کی پہلی پرائیویٹ یونیورسٹی ایک صنعت کار ہی نے قائم کی۔ راجہ انّا ملائے چتیار تامل ناڈو کا بہت بڑا صنعت کار اور بنکار تھا۔ تامل ناڈو کی مشہور انّا ملائے یونیورسٹی اُس نے 1929ء میں قائم کی، آج ٹورنٹو، دبئی، شارجہ اور مسقط میں بھی اس کے کیمپس کھلے ہوئے ہیں۔ بھارت کے مشہور کاروباری برلا خاندان نے ٹیکنالوجی کے لیے مخصوص دو یونیورسٹیاں قائم کی ہیں۔ ایک رانچی میں دوسری راجستھان میں۔ حیدر آباد دکن کا مشہور''نظام انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز‘‘ اُس خیراتی ٹرسٹ سے بنا جو آخری نظام نے اپنی ذاتی دولت سے قائم کیا تھا۔ ٹیکساس کی مشہور رائس یونیورسٹی ایک بزنس مین نے بنائی۔ نیویارک کی راک فیلر یونیورسٹی سیٹھ ہی کی قائم کردہ ہے۔ بیسیوں مثالیں اور بھی موجود ہیں۔
بہت پہلے، ایک نصیحت کرنے والا کہہ گیا ہے ؎
خیری کُن ای فلان و غنیمت شمار عمر
زان پیشتر کہ بانگ برآید ''فلان نماند‘‘
ابھی وقت ہے۔ اس سے پہلے کہ اعلان سنائی دے ''فلاں چل بسا‘‘۔