کبھی گملوں میں بھی باغ لگتے ہیں؟
کیا ترقی کی رفعتیں‘ دوسروں کے کاندھوں پر بیٹھ کر حاصل ہوتی ہیں؟
کیا سی پیک ہمارے رویوں کو بھی بدل ڈالے گا؟
کیا سی پیک ہماری شرح خواندگی کو بڑھا سکے گا؟
کیا ہماری نیتیں درست ہو جائیں گی؟
کیا سی پیک مکمل ہونے کے بعد‘ ایک گھنٹے کے اندر اندر ہم ایک دیانتدار قوم بن جائیں گے؟
کیا ہمارے پارلیمانی لیڈر‘ ہمارے سیاست دان‘ سی پیک کی تکمیل کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ بنے اور وہ قانون پسند ہو جائیں ۔
کیا سی پیک مکمل ہو جانے کے بعد ہمارے بیورو کریٹ غلط احکام ماننے سے انکار کر دیں گے کہ جناب! اب نہیں! اب سی پیک بن گیا ہے!
آج ہی روزنامہ دنیا نے خبر دی ہے کہ جنوبی پنجاب کی 163 ترقیاتی سکیموں کے لیے رکھے گئے دو ارب روپے‘ لاہور کینال روڈ کی طرف منتقل ہو گئے ہیں۔ منتقل اس لیے کئے گئے ہیں کہ لاہور کی سڑکوں کو وسعت... یعنی مزید وسعت... دی جائے۔ رولز ریلیکس کئے گئے۔ بنیادی طور پر یہ فنڈز جنوبی پنجاب کے اضلاع لیہ‘ ڈی جی خان‘ بہاول نگر‘ وہاڑی‘ خانیوال‘ راجن پور وغیرہ کے دیہی و شہری علاقوں میں سڑکوں کی تعمیر و مرمت‘ سکولوں ہسپتالوں میں سہولیات کی فراہمی‘ سیوریج کے بندوبست اور دیگر 64 ترقیاتی سکیموں کے لیے بجٹ کئے گئے تھے۔
کیا یہ روّیے سی پیک کے بعد بدل جائیں گے؟
تین ساڑھے تین سو برس پہلے جب ہم نے پرتگالیوں‘ فرانسیسیوں اور انگریزوں کو اپنے ساحلوں پر تجارتی کوٹھیاں تعمیر کرنے کی اجازت دی تھی تو کیا اس کے بعد ہمارے طور اطوار بدل گئے تھے؟ چلیے‘ نہیں بدلے تھے۔ مگر اس کے بعد جو کچھ ہوا‘ کیا اس سے ہم نے کچھ سیکھا ہے؟
یہ محض اخلاقیات کا قصّہ نہیں! یہ محض دیانت اور خوش نیتی کا مسئلہ نہیں‘ صرف اور صرف اقتصادی نقطۂ نظرسے بھی سی پیک ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ اس لیے کہ گملوں میں باغات نہیں لگا کرتے!
دنیا میں آج تک کسی ملک نے سوشل سیکٹرز کی ترقی کے بغیر‘ مجموعی ترقی نہیں کی! سوشل سیکٹرز کیا ہیں؟ افرادی قوت! تعلیم! صحت! دوسرے الفاظ میں انسانوں پر سرمایہ کاری!
اقتصادی ترقی کے جتنے نظریات ہیں‘ ان سب کا مرکزی نکتہ سوشل سیکٹروں کی ترقی ہے۔ ماضی قریب سے لے کر اب تک ڈبلیو ڈبلیو روسٹو (ROSTOW) کا معاشی نظریہ دنیا بھر کی درسگاہوں پر غالب رہا۔ روسٹو صدر لنڈن بی جانسن کا مشیر تھا۔ اس کی کتاب ''معاشی ترقی کے مراحل‘‘ اقتصادیات کے علاوہ دیگر شعبوں میں بھی داخل نصاب رہی۔ معیشت کے ''ٹیک آف‘‘ کے لیے اس نے جو شرائط لگائیں‘ ان میں سوشل ڈھانچے کی تبدیلی کو مرکزی اہمیت دی۔ یعنی آپ ''انسان‘‘ پر کتنی سرمایہ کاری کرتے ہیں اور کیسے کرتے ہیں۔ ٹیک آف کے لیے اگرچہ اور شرطیں بھی ہیں۔ جیسے خام مال کی زیادہ سے زیادہ برآمد‘ جیسے زرعی اجناس کی برآمد‘ جیسے ٹیکنالوجی کی ترقی‘ مگر یہ سب بیکار ہے اگر تعلیم اور صحت پر توجہ نہ دی جائے تو! سوشل شعبوں پر یعنی صحت اور تعلیم پر زور دینے سے کیا تبدیلیاں حاصل ہوتی ہیں؟ اوّل : آبادیاں قصبوں اور شہروں کا رُخ کرتی ہیں۔ دیہات سکڑ جاتے ہیں۔ دوم : زرعی شعبے سے توجہ ہٹ کر صنعتی شعبے پر مرکوز ہو جاتی ہے۔ سوم : آبادی کا نقطۂ نظر تبدیل ہو جاتا ہے‘ یہ نقطۂ نظر ہی ترقی کا مرکزی پوائنٹ ہے۔ یعنی مائنڈ سیٹ کی تبدیلی۔ اب ہر فرد کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس نے اپنے سماجی ڈھانچے کو توڑ کر عمودی رُخ پر ترقی کرنی ہے۔ اب افقی سمت پر حرکت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں! بڑھئی کا بیٹا اگر بڑھئی ہی رہا خواہ جہاں بھی رہا‘ یہ افقی حرکت پذیری ہوگی! عمودی ترقی کا مطلب ہے وہ چارٹرڈ اکائونٹنٹ بن جائے۔ اور بڑھئی ہی رہنا ہے تو پھر کارخانہ لگائے اور تین چار سو ملازمین بھرتی کرے۔ یہ صرف اُس وقت ہو گا جب مائنڈ سیٹ تبدیل ہو گا! یہ سرداری نظام کی موجودگی میں نہیں ہو سکتا!
نہیں! جناب! نہیں! سی پیک سے اتنی ہی امیدیں لگائیے جتنی مناسب ہیں۔ اس گملے میں آپ پودا لگا سکتے ہیں! باغ نہیں! آپ کو بلوچستان کا سرداری نظام تبدیل کرنا ہو گا۔ لوگ اگر آنکھیں بند کر کے جلتے کوئلوں پر چلتے رہے کہ اپنے آپ کو چور اور بے گناہ ثابت کریں تو سی پیک ایک نہیں‘ پندرہ سو لے آئیے‘ سردار ہی حکمران رہے گا! ہاری اور اس کی بیوی ووٹ مخدوم صاحب ہی کو دیں گے! ہاری کی بیوی حویلی سے نکلتے نکلتے بھی بڑی بی بی صاحبہ کو سبق سناتی جائے گی کہ ٹھپّہ اس نے تیر پر یا سائیکل پر یا فلاں نشان پر لگانا ہے۔
کوئی غیر ملکی طاقت ہمارے سوشل سیکٹروں پر سرمایہ کاری نہیں کرے گی! اس لیے کہ اس میں اس کا فائدہ نہیں ہو گا۔ چین ہماری شاہراہوں کی تعمیر میں‘ اقتصادی راہداری میں‘ دلچسپی اس لیے نہیں لے رہا کہ ایسا کرنے کے لیے کنفیوشس نے کہا تھا۔ اس لیے کہ اس میں چین کا اپنا فائدہ بھی ہے‘ جو ظاہر ہے اس کی اوّلین ترجیح ہے! مگر وہ ہمارے سرکاری ہسپتالوں کو مذبح خانوں سے بدل کر شفاخانے کیوں بنائے؟ ہمارے بے چھت کے سرکاری سکولوں کو وہ مویشی خانوں اور گوداموں سے بدل کر تعلیمی اداروں کی شکل کیوں دے؟ اسے اس میں کتنے نفلوں کا ثواب ہو گا؟
کیا سی پیک ہمارے پولیس سسٹم کو غیر سیاسی کر دے گا؟ ابھی کل ہی رئوف کلاسرا ماتم کناں تھے کہ ایک ضلع کے ڈی پی او کو اس لیے صوبہ بدر کر دیا گیا کہ اس نے ایک ایم این اے کے گھر کھانا کھانے سے انکار کر دیا۔ پولیس کے افسروں کو دو اقسام میں بانٹ کر رکھ دیا گیا ہے۔ وہ جو اپنے ہیں‘ ''قابل اعتماد‘‘ ہیں اور وہ جو اپنے نہیں ہیں۔ یعنی اگر کوئی دیانتدار ہے اور سفارش نہیں مانتا تو اس کا‘ خدا کے سوا اور کوئی نہیں! عبرت کے لیے دیکھیے سندھ کے آئی جی کو!
ایک ہی طریقہ ہے۔ وہ یہ کہ سی پیک کے معاہدے میں کچھ خصوصی شقوں کا اضافہ کیا جائے۔ ان شقوں کی رُو سے چین ہمارے سرکاری سکولوں اور سرکاری ہسپتالوں کا انتظام سنبھال لے۔ ہمارے بجٹ کی نگرانی کرے کہ دوسرے شہروں کی رقوم ایک ہی شہر کی طرف منتقل نہ ہوتی رہیں۔ بلوچستان میں سرداری نظام ختم کرے۔ جنوبی پنجاب اور سندھ میں زرعی اصلاحات کا ڈول ڈالے۔ کراچی اور پنجاب کی پولیس میں سیاسی مداخلت ختم کرا دے۔ تعیناتیاں‘ بالخصوص بیرونِ ملک تعیناتیاں سفارش پر نہ کرنے دے۔
ایک مزید خصوصی شق بھی ڈالنا ہو گی۔
ڈاکوئوں اور کار چوروں کے سدِّباب کے لیے چین کچھ کرے۔
پھر ہم دعویٰ کر سکیں گے کہ سی پیک تبدیلی کا دروازہ ہو گا!