سہیلی بوجھ پہیلی

گھر میں بیٹھے ہیں تو کیا کریں؟
بچوں کے ساتھ لڈو کھیلی۔ کیرم بورڈ کھیلے۔ اس میں میرا نواسہ ہاشم مجھے مات کر دیتا ہے۔ کتابیں پڑھتے ہیں۔ ٹی وی دیکھتے ہیں۔ سب گھر والے کسوٹی بھی کھیلتے ہیں۔ ویسے ایمانداری کی بات ہے کھیل کے دوران ''روند‘‘ (Cheating) نہ کی جائے تو مزہ نہیں آتا۔ دیانت داری سے کھیلنے کا لطف خاک نہیں ثواب حاصل کرنے کیلئے اور بہت سے کام ہیں۔
ایک دلچسپ شغل پہیلیاں بوجھنا ہے۔ ہمارے لڑکپن میں یہ کھیل عام تھا۔ کورس کی کتابوں میں بھی ایک دو سبق پہیلیوں کے ضرور ہوتے تھے۔ کچھ تو آج تک یاد ہیں۔ جیسے ہری تھی‘ من بھری تھی‘ راجہ جی کے باغ میں‘ دو شالہ اوڑھے کھڑی تھی۔ یہ مکی کا بھٹہ (چھلّی) ہے۔
کچھ اور بجھارتیں دیکھئے:۔
٭ ذرا سی بچی‘ اتنا لمبا پراندہ (یہ سوئی دھاگہ ہے)
٭ ایک کٹورا‘ اس میں دو رنگا پانی (انڈا)
٭ دو سگے بھائی‘ کبھی اکٹھے‘ کبھی جدا (دروازے کے دو کواڑ)
٭ خود تو جا رہے ہو‘ ساتھ کون ہے؟ (سایہ!)
٭ اگلی اچھی ہے نہ پچھلی‘ مگر جو درمیان میں ہے اس پر میں قربان (جوانی)
٭ چھوکری کے سر پر راکھ کی ٹوکری (چلم)
٭ ذرا سی لڑکی‘ چھوٹے چھوٹے دانت کھا کھا کر سیر نہ ہو‘ گٹھری بھر کر لائے (درانتی)
٭ ایک قلعے میں بُرج ہزار‘ بُرج بُرج میں تھانیدار‘ دیکھو یار سپاہی کیسے بن ہتھیار کریں لڑائی (بھڑوں کا چھتہ)
٭ پیٹ سے نکالو پسلی میں مارو (ماچس)
٭ چار ستون ہلتے آئیں‘ دو پنکھے ساتھ چلائیں (ہاتھی)
یہ پہیلیاں آپ گھر والوں کو بٹھا کر پوچھئے‘ ان کی ذہانت کا امتحان لیجئے‘ مگر آئیے‘ پہلے میں اور آپ ''سہیلی بوجھ پہیلی‘‘ کا کھیل کھیلیں۔
بتائیے‘ پاکستان کا سب سے زیادہ طاقت ور طبقہ کون سا ہے؟
آپ کا جواب ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اور مسلح افواج۔ مگر جواب غلط ہے!
یہ طبقہ ہوگا طاقت ور مگر اتنا بھی نہیں! ان کے اندر احتساب کا کڑا سسٹم ہے۔ آڈٹ ان کا سخت ہے۔ ایک خاص عمر کے بعد ریٹائر ہو جاتے ہیں۔ کورٹ مارشل ہوتے ہیں۔ سول عدالتوں میں حاضر ہوتے ہیں۔ ٹیکس ان پر ٹھیک ٹھاک لگتا ہے۔ پھر یہ جان کی بازی بھی لگاتے ہیں۔ ہزاروں شہید ہو چکے۔ نہیں! پھر کوشش کیجئے۔
اب آپ کا جواب ہے سیاست دان۔
مگر افسوس یہ بھی درست نہیں!
سیاست دان طاقت ور ترین طبقہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ان کو تو پھانسیاں لگیں۔ گولیوں سے شہید ہوئے۔ جیلوں میں ٹھونس دیئے جاتے ہیں۔ الیکشن ہار جائیں تو طاقت کا بھرکس نکل جاتا ہے۔ ایف بی آر سے لے کر ایف آئی اے تک‘ نیب سے لے کر پولیس تک سب ان کے پیچھے لگے رہتے ہیں‘ کردار کشی ان کی سب کرتے ہیں۔ دفاع کم ہوتا ہے۔ عدالتیں نااہل قرار دے دیتی ہیں۔ عوام الگ محاسبہ کرتے ہیں‘ اقتدار ملے تو کانٹوں کی سیج ثابت ہوتا ہے۔ چوبیس گھنٹے میڈیا کی نظروں میں رہتے ہیں۔ رہی سہی کسر ان کے آپس کے جھگڑے نکال دیتے ہیں۔ ایک دوسرے کو بے نقاب کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ نہیں جناب! یہ سب سے زیادہ طاقت ور نہیں!
اب آپ کہتے ہیں سب سے زیادہ طاقت ور طبقہ عدلیہ ہے۔ مگر یہاں بھی آپ سے چوک ہو گئی۔ عدلیہ کی چاندنی تو چار دن کی ہوتی ہے۔ ریٹائرمنٹ کی تلوار سروں پر لٹکی رہتی ہے۔ کہاں گئے چودھری افتخار؟ کہاں ہیں ثاقب نثار؟ ایف بی آر سے یہ بچ نہیں سکتے۔ سپریم جوڈیشل کونسل انہیں ہلنے نہیں دیتی۔ وکلا کی جانب سے کیا سلوک کیا جاتا ہے ‘ اس کا بیان نہ کرنا ہی بہتر ہے! ماضی کے عسکری حکمرانوں نے ان پر ایسی ایسی قدغنیں لگائیں کہ یہ بے بس ہو کر رہ گئے۔
تو کیا آپ سول بیورو کریسی کو سب سے زیادہ طاقت ور طبقہ گردانتے ہیں؟ آپ کے خیال میں یہ سیاست دانوں کو‘ حکمرانوں کو‘ آمروں کو انگلیوں پر نچاتے ہیں‘ اپنا الّو سیدھا کرتے ہیں! کمائیاں کرتے ہیں۔ ٹھاٹھ سے رہتے ہیں۔ بیگمات ان کی قابلِ رشک معیارِ زندگی سے لطف اندوز ہوتی ہیں۔ مگر ایک بار پھر آپ کا جواب غلط ہے!
انگلیوں پر نچانے والے بیورو کریٹ دس پندرہ فی صد سے زیادہ نہیں۔ اکثریت افسر شاہی کی آج بھی دیانت دار ہے اپنی اوقات میں رہتی ہے۔ ایسٹا کوڈ کی تلوار ان کے سروں پر لٹکی ہے۔ چارج شیٹ ہوتے ہیں۔ ترقیاں رک جاتی ہیں۔ برطرف کر دیئے جاتے ہیں۔ دور افتادہ مقامات پر کٹھن زندگیاں گزارتے ہیں۔ نیب پیچھے لگی رہتی ہے۔ ٹیکس تنخواہوں سے‘ انہیں پوچھے بغیر ہی‘ کاٹ لیا جاتا ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد روپے کے دس ملتے ہیں۔ میرؔکی طرح خوار پھرتے ہیں۔ کوئی پوچھتا نہیں! نہیں!
آپ غلط ہیں۔ پھر سوچئے!
سبحان اللہ! کیا کہا آپ نے؟ میڈیا؟
واہ جناب واہ! قربان آپ کی ذہانت کے! میڈیا کیسے طاقت ور ترین طبقہ ہو گیا ہے؟ خدا کا خوف کیجئے! جو کچھ میڈیا کے ساتھ ہوتا ہے‘ خدا دشمن کو بھی اس سے محفوظ رکھے۔ ظفر علی خان‘ محمد علی جوہر‘ شورش کاشمیری سے لے کر آج کے اخبار اور چینل تک۔ بندشیں ہی بندشیں نظر آ رہی ہیں۔ کراچی کے بھائی نے تو اس میڈیا کو رسیوں سے باندھ کر رکھا ہوا تھا۔ یہ بھی ٹیکس سے‘ تھانوں سے‘ عدالتوں سے مستثنیٰ نہیں! ان پر پابندیاں بھی لگ جاتی ہیں۔ پیمرا سر پر بیٹھا ہے وزارتِ اطلاعات والے چھریاں تیز کرتے رہتے ہیں۔ نوکری سے فارغ کر دیے جاتے ہیں یہ تو کمزور طبقہ ہے! پھر سوچئے!
اب آپ نے کہا ہے کہ جاگیردار‘ سردار‘ زمیندار طبقہ طاقت ور ترین ہے! تیس برس پہلے آپ کا جواب درست ہونے کا امکان تھا مگر آج نہیں! یہ تو زوال پذیر ہیں مسلسل زوال پذیر! منتخب اداروں کو دیکھئے‘ تیس چالیس سال پہلے ان کی تعداد اسمبلیوں میں کیا تھی اور آج کیا ہے؟ پہلے سے کہیں کم!
کھاد‘ بیج اور زرعی مشینری کی قیمتوں نے انہیں بے بس کر رکھا ہے۔ اوپر اوپر سے ٹھاٹھ باٹھ دکھاتے ہیں۔ اندر سے حالت پتلی ہے۔ جاگیریں بیچ رہے ہیں۔ قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکتے۔ زرعی پیداوار کی قیمتوں کا منڈی میں اتار چڑھاؤ انہیں کبھی اوپر لے جاتا ہے کبھی نیچے پٹخ دیتا ہے! ہاریوں کو موقع جب بھی ملتا ہے‘ ان کی جڑیں کاٹنے لگتے ہیں۔ ایک دوسرے کا قافیہ الگ تنگ کرتے ہیں! زرعی زمینوں پر کارخانے لگتے جا رہے ہیں۔ ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنتی جا رہی ہیں۔ اس طبقے کے ستارے گردش میں ہیں۔ آگے چلئے! آپ کے باقی جوابات بھی درست نہیں! کبھی آپ ٹرانسپورٹ طبقے کو طاقت ور ترین قرار دیتے ہیں کبھی ٹرکوں ویگنوں بسوں ٹیکسیوں کے ڈرائیوروں کو! پھر آپ ڈاکٹروں کا نام لیتے ہیں۔ پھر وکیلوں کے طبقے کو آپ سب سے زیادہ پاور فُل کہتے ہیں! مگر نہیں! آپ تو درست جواب کے نزدیک بھی نہیں پہنچ رہے۔ سوچئے۔ پھر سوچئے!
ایک مہربانی میں آپ پر یہ کرتا ہوں کہ اشارے دے دیتا ہوں‘مگر فائنل درست جواب آپ نے خود دینا ہے! 
غور سے سنئے۔ یہ جو سب سے زیادہ طاقت ور طبقہ ہے۔ یہ ہر قسم کے قانون سے برّی ہے‘ اسے نیب چھُو سکتی ہے‘ نہ ایف بی آر والے اس پر ٹیکس لگا سکتے ہیں۔ ایف آئی اے والے ان سے خائف ہیں۔ جو بھی سیاسی دور ہو‘ مارشل لا ء کا‘ سول آمریت کا‘ جمہوریت کا‘ یہ طبقہ دن دونی رات چوگنی ترقی کرتا ہے۔ اس پر ملک کے کسی قانون کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ اگر یہ طبقہ کوئی فیصلہ کر لے‘ کچھ ٹھان لے‘ کچھ طے کر لے‘ تو ملکی حکومت کیا‘ پوری دنیا کی طاقتیں اسے یہ فیصلہ بدلنے پر مجبور نہیں کر سکتیں! خلق ِ خدا بھی لاکھ چلائے‘ روئے‘ منت سماجت کرے‘ دلیل دے‘ وکیل کرے‘ یہ طبقہ سرِ مُو اپنے مؤقف سے انحراف نہیں کرتا۔ایک اور اشارہ! حکومتیں اس طبقے سے خائف رہتی ہیں۔ اس کی خوشامد کرتی ہیں۔ چاپلوسی کرتی ہیں۔ اس طاقت ور ترین طبقے کے پاس اپنی افرادی قوت ہے! ہزاروں میں نہیں‘ لاکھوں میں! اس افرادی قوت پر بھی ملک کا کوئی قانون‘ کوئی عدالت کوئی تھانہ‘ کوئی چھاؤنی‘ کوئی فوج اثر انداز نہیں ہو سکتی!ایک اور اشارہ سن لیجئے۔ وسائل اس طبقے کے پاس‘ کیا اندرون ملک‘ کیا بیرون ملک‘ لامحدود ہیں! کوئی آڈٹ‘ کوئی احتساب‘ کوئی حساب کتاب‘ کوئی اکاؤنٹ فرم‘ اس کے وسائل‘ اس کی دولت‘ اس کے روپے پیسے کا حساب کر سکتا ہے نہ گِن سکتا ہے‘ نہ اندازہ لگا سکتا ہے! یہ طبقہ جس کو چاہے مروا دے‘ جس کو چاہے عوام کی آنکھوں کا تارا بنا دے۔ جس کو چاہے‘ بوٹیاں نچوا دے‘ جس کو چاہے‘ زیرو سے ہیرو بنا دے۔دماغ لڑائیے! سوچئے اور اگر بوجھ لیں تو بلند آواز سے گریز کیجئے۔بس آہستہ سے میرے کان میں بتا دیجئے۔ اس کے بعد زرہ بکتر اور خود پہن کر‘ ہو سکے تو روپوش ہو جائیے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں