کل شام کو اس نے پیغام بھیجا کہ ملنا چاہتا ہے ۔
پہلے تو میں ڈرا کہ اس مکروہ شخصیت کی طرف سے یہ سندیسہ خطرے کی گھنٹی ہے‘ مگر پھر تجسس ہوا کہ آخر مجھے ہی کیوں یاد کیا ہے؛ چنانچہ دل کو مضبوط کیا اور مقررہ جگہ پر پہنچ گیا۔ تیاری میں نے پوری کی تھی ‘ ہاتھوں پر دستانے تھے ‘ منہ پر ماسک ‘ ریستوران کا جو گوشہ اس نے بتایا تھا وہاں اور کوئی نہ تھا‘ بیٹھا ہی تھا کہ السلام علیکم کی آواز آئی۔ پوچھا: کہاں سے بول رہے ہو‘ کہنے لگا: اس مسئلے میں نہ ہی پڑو تو تمہارے لیے بہتر ہے ۔ بہر طور تمہارے اطمینان کے لیے بتائے دیتا ہوں کہ تمہاری میز سے چار میزیں چھوڑ کر جو میز ہے اس پر دھری پیالی کے دستے پر بیٹھا ہوں ۔ جس گاہک نے اس سے چائے پی اسے میں لاحق تھا‘ اس کے ہاتھ سے دستے پر منتقل ہوا ۔اور اب یہیں سے بات کر رہا ہوں۔
میرے خوف میں اضافہ ہوااور جھنجھلا کر کہا کہ ٹھیک ہے تم نے اپنا مکروہ محل ِوقوع تو بتا دیا اب یہ بھی بتاؤ کہ مجھے تم نے کیوں بلایا ہے ؟ کیا لاحق ہونے کا ارادہ ہے ؟ نہیں ! ایسا کوئی ارادہ نہیں‘ تمہاری عمر پرترس کھائے دیتا ہوں ۔تمہارا نام نہاد تعلق چونکہ میڈیا سے ہے اس لیے تمہارے توسط سے اپنی ناکامی اور نامرادی کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں ۔
فرشتے تمہاری قوم سے ناامید ہو چکے تھے ۔ جس دن وہ بارگاہِ ایزدی میں اس ناامیدی کا اظہارکر رہے تھے میں وہاں موجود تھا۔ غلطی مجھ سے یہ ہوئی کہ رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کر دیں اور دعویٰ کیا کہ اس قوم کو میں ٹھیک کر کے دکھاتا ہوں۔ اجازت مل گئی اور میں نے آکر دھاوا بول دیا ورنہ میرے اصل پلان میں پاکستان کا نام تھا نہ ذکر ۔مجھے خوش فہمی تھی کہ جیسے ہی حملہ کروں گا تم لوگ سیدھے ہو جاؤگے ‘ مگر مجھے تو منہ کی کھانا پڑی اور اب فرشتوں کی اس رائے سے متفق ہوں کہ تم لوگ اسفل السافلین میں ہو۔
Scum of earthہو
اسقط الناس ہو۔ روئے زمین پر تم سے بڑا نفاق پرور کوئی نہیں ۔
میں نے اس کی بات کاٹی '' اے انسانوں کے دشمن ! کیا یاوہ گوئی کر رہے ہو‘ میری قوم کے متعلق! تم اچھی طرح جانتے ہو کہ خیراتی کاموں میں میری قوم کا نام سر فہرست ہے ‘‘۔ہاں ! اسی لیے ماسک کی قیمت چار گنا ہو گئی۔ سینی ٹائزر مارکیٹ میں غیر معیاری آگئے ! ملاوٹ جوں کی توں ہے‘ چوربازاری ویسی ہی ہے ! چینی اور آٹے کی انکوائری رپورٹ آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں تمہارے تاجروں کو راہ راست پر لا سکا نہ صنعتکاروں کو۔ سب سے زیادہ مایوسی اہل سیاست سے ہوئی ہے ۔ ابتلا کے اس خوفناک لمحے میں بھی حکومت اپوزیشن کی طرف رواداری کا ہاتھ نہ بڑھا سکی ۔ ایک بار بھی ایسا نہ ہواکہ سب مل کر بیٹھ جاتے ‘اختلافات کی چادر اُتار کر ایک طرف رکھ دیتے ‘ مجھ سے نمٹنے کے لیے اکٹھے ہو جاتے ۔مگر حکومت تو خیر حکومت ہے خود حزبِ اختلاف یکجہتی نہ پیدا کر سکی ۔ مولانا فضل الرحمان‘ زرداری ‘ شہباز شریف ‘ اسفند یار ولی ہی ایک مشترکہ پالیسی بنا لیتے ۔ اہلِ اقتدار اپنی الگ فورس بنانے کے بجائے ‘ قومی سطح کی تنظیم بنا لیتے جس میں ساری پارٹیوں‘ سارے صوبوں‘ سارے طبقات کی شمولیت ہوتی ‘ بے شک اس کی قیادت حزبِ اختلاف کے سپرد کر دیتے۔ افسوس ! صد افسوس! اس موقع پر بھی اس ملک کے اہلِ سیاست ایک پیج پر نہ آسکے ۔اس سے بھی زیادہ مایوسی مذہبی رہنماؤں کے انداز فکر سے ہوئی ۔کسی کا منہ اس طرف ہے تو کسی کا اُس طرف! یہ حرم کی اتباع میں بھی مناسبت نہ دکھا سکے یعنی ـ؎
گلۂ جفائے وفا نما کہ حرم کو اہلِ حرم سے ہے
کسی بت کدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی ہَری ہَری
کسی نے کہا کہ فرض نمازیں گھر پر پڑھنی چاہئیں‘ کسی نے کہا کہ نہیں صرف سنتیں اور نوافل گھر پر پڑھیں۔ مقتدی حیران پریشان‘ کس کی مانیں کس کی نہ مانیں ؎
کس کا یقین کیجیے کس کا یقیں نہ کیجیے
لائے ہیں بزم ِناز سے یار خبر الگ الگ
کہیں امام اور پولیس کا جھگڑا۔ کہیں عوام کا امام سے اختلاف اور کہیں نمازیوں کا کوتوالی والوں سے تصادم ! یعنی موت کا ہر طرف رقص جاری ہے اور اس حال میں بھی لوگ پولیس کو اپنا دشمن سمجھ رہے ہیں اس لیے کہ پیشواؤں کا رویہ معاندانہ ہے ! اس عالم میں کہ مخالفتیں ترک کر دینی چاہئیں تھیں‘ مسلکی اختلافات کو ہوا دی گئی۔ خدا کا خوف نہ رہا۔ ایران اور سعودی عرب کے حوالے سے باتیں ہونے لگیں ۔ تبلیغی جماعت کو زیر بحث لایا گیا۔ زائرین پر اعتراضات کیے گئے حالانکہ میں شیعہ ہوں نہ سنی‘ ایران نواز ہوں نہ عرب دوست ! دیوبندی ہوں نہ بریلوی ! میں تو کورونا کا وائرس ہوں۔مجھے تو انسانی خون چاہیے ۔ خون سب مسلکوں کا ایک ہی ذائقے کا ہے۔ پھیپھڑے ہر فرقے کے ایک ہی بناوٹ کے ہیں ۔آہیں اور کراہیں ایک جیسی ہیں۔ پروردگار سب کا وہی ہے ۔مجھے اپنی شکست کا اعتراف ہے۔ مان گیا ہوں تم پاکستانیوں کو ! تمہارے تاجروں کر تمہارے سیاستدانوں کو تمہارے حکمرانوں کو تمہارے پیشواؤں کو اگر میں بھی ذاتی اغراض سے پاک کر کے راہ راست پر نہیں لا سکا تو پھر فرشتے سچ ہی کہہ رہے تھے کہ تم لاعلاج ہو ! حقیقت یہ ہے کہ تمہارے دعوے ‘ تمہارے وعدے ‘‘ تمہاری تقریریں‘تمہارے خطبے‘ تمہارے مواعظ‘ تمہاری نمازیں ‘ تمہارے حج‘ تمہارے عمرے‘ تمہاری تسبیحیں ‘ تمہاری خیراتیں ‘تمہارے عطیات‘ سب دکھاوے کے ہیں ۔ اندر سے تم آلائشوں سے بھرے ہوئے ہو۔ تم باہر سے جتنے صاف ہو اندر سے اتنے ہی کثیف ہو !
تم نے موت کو سامنے ناچتے دیکھا مگر تم نے قطع رحمی سے توبہ کی نہ حقوق العباد کے حوالے سے اپنا رویہ بدلا ۔ مجھے تو یہ ڈر ہے کہ کل کو میرے استیصال کے لیے کوئی ویکسین ایجاد ہوئی تو تم نے ایک اور حشر برپا کر دینا ہے۔ پہلے تو تم اس میں ملاوٹ کر کے چار مریضوں کی ویکسین آٹھ کو لگاؤ گے‘ پھر تم ذخیرہ اندوزی کا ارتکاب کر کے اسے بلیک میں فروخت کرو گے ۔ امیر اسے ہتھیا لیں گے ‘ غریب غربا دیکھتے رہ جائیں گے ‘ سرکاری ہسپتال اس سے محروم رہیں گے ‘ مہنگے نجی کلینک تیرہ تالی کھیلیں گے ۔
اپنی تحریر کے ذریعے اپنے ہم وطنوں کو میری طرف سے بتا دو کہ میں جلد ہی بوریا بستر سمیٹ کر چلا جاؤں گا ۔ میں تو وہ بچھو ہوں جو سردیوں میں باہر نہیں نکلتا اس لیے کہ گرمیوں میں میری کون سے عزت ہوتی ہے۔ مگر یہ اعلان بھی کردو کہ اس سے پہلے کہ کوئی مصیبت مجھ سے بھی بڑی نازل ہو‘ اپنی اصلاح کر لیں ۔ قوم کو تفرقوں میں نہ بانٹیں ‘ اس ملک کو ذاتیات کی نذر نہ کریں۔ اسے آگے بڑھنے دیں۔ اہلِ اقتدار اپنے دوستوں کو کارِ حکومت سے الگ کر لیں۔ پرانی دوستیاں نبھانی ہیں تو اپنے طور پر نبھائیں۔ قوم کی قیمت پر نہیں۔ آج نہیں تو کل حساب دینا ہی پڑے گا ۔ اس بلائے بے درماں سے جان چھڑا کر واپس آرہا تھا کہ راستے میں فارمیسی کی دکان پر نظر پڑی ‘اندر جا کر کاؤنٹر والے سے ماسک کا پوچھا تو کہنے لگا نہیں ہے۔ ایک اور صاحب آئے ‘ کاؤنٹر والا ان سے گلے ملا ‘ حال احوال پوچھا ‘ انہوں نے بھی ماسک مانگا ‘ دکاندار نے آنکھ مار کر انہیں انتظار کرنے کا کہا !میں بہت سخت کنفیوزڈ ہوں ‘ کیا ہم واقعی اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ کوروناسے بڑی کسی آزمائش کے مستحق ہیں ‘کیا ہم دعاؤں کے ساتھ ساتھ اپنا محاسبہ بھی کر نے کو تیار ہیں ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم جو کچھ مانگ رہے ہیں ‘ اسے حاصل کرنے سے پہلے ہمیں کچھ دینا بھی ہے جس کا ہم سوچ ہی نہیں رہے !