بزرجمہر رپورٹ کے تجزیے کر رہے ہیں، سبسڈی کے لغوی اور اصطلاحی معنوں پر بحث کر رہے ہیں، پنجاب اور سندھ گورنمنٹ کے موازنے کر رہے ہیں، انڈیا کی سبسڈی کی مثالیں دے رہے ہیں۔ کبھی وفاقی حکومت کو الزام دے رہے ہیں‘ کبھی صوبائی کو! جبکہ مسئلے کی جڑ کہیں اور ہے! بیماری زیادہ خطرناک ہے۔ صرف خون کے ٹیسٹ سے نہیں، خون کے کلچر کیلئے بھی لیبارٹری والوں کوکہنا ہوگا!
گزشتہ حکومت میں ایک بات ہر روز کہی جاتی تھی بلکہ ایک ایک دن میں یہ فرمان کئی بار یاد دلایا جاتا تھا کہ کاروبارِ حکومت تاجروں کے حوالے نہ کرو! کہاں گئی آج یہ نصیحت؟ آج بھی کاروبارِ حکومت تاجروں کے حوالے ہے، صنعت کاروں کی مٹھی میں ہے! آج اس فرمان کی یاد کسی کو نہیں آ رہی؟ کیوں؟
کیا یہ اصول کہ تاجروں کے حوالے کاروبارِ حکومت نہ کرو، صرف اُس وقت قابلِ عمل ہوگا جب سربراہ حکومت تاجر یا صنعتکار ہو؟ وزیروں، مشیروں کی اکثریت تاجروں پر مشتمل ہو تو سب ٹھیک ہوگا؟
ای سی سی سے لے کر شوگر بورڈ تک، سب وہی لوگ کرسیوں پر براجمان ہیں جن کے کارخانے ہیں، جن کی فیکٹریاں ہیں۔ جن کے ذاتی، خاندانی اور گروہی مفادات ہیں! انسان ہیں! فرشتے نہیں! سوال یہ اٹھتا ہے کہ فیصلے انہی لوگوں کے سپرد کیوں کر دیئے گئے ہیں؟ کارخانوں کے مالک وزارتوں پر بیٹھے! فیصلے صادر کرتے وقت اپنے مفادات کو کیونکر فراموش کر سکتے ہیں؟ نسلیں صرف ہوئیں، عمریں لگیں تب جاکر وہ صنعت کار بنے۔ تب جاکر تجارت میں ان کی حیثیت قائم ہوئی۔ اب کیا وہ فرشتے ہیں کہ اپنے مفادات، اپنے پس منظر، اپنے خاندانی علائق پر خطِ تنسیخ پھیر دیں؟
کاروبار کو حکومت سے الگ رکھنے کا اصول اسی دن طے ہو گیا تھا جس دن، حکومت پر متمکن ہونے کے بعد، امیرالمومنین ابو بکر صدیقؓ نے حسبِ معمول کپڑے کا گٹھر اٹھایا اور فروخت کرنے کے لیے نکلنے لگے‘ جیساکہ خلیفہ المسلمین بننے سے پہلے وہ ہر روز کیا کرتے تھے۔ امیرالمومنین عمر فاروقؓ نے ٹوکا کہ جب حاکم کا مال مارکیٹ میں ہوگا تو دوسروں سے کون خریدے گا؟ اس کے بعد ہی سرکاری خزانے سے، گزر بسر کے لیے، حکمران اعلیٰ کا وظیفہ یا تنخواہ، مقرر ہوئی۔ اس سے یہ اصول طے ہو گیا کہ حکمران، حکومت میں شامل ہونے کے بعد کاروباری سرگرمیاں معطل کر دے!
اب یہاں وہ نقص سامنے آتا ہے جو پارلیمانی طرزِ حکومت کا جزو لا ینفک ہے۔ وزیر وہی افراد بنیں گے جو پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں۔ پارلیمنٹ میں وہی بیٹھیں گے جنہیں عوام منتخب کریں گے! مشیروں کا مسئلہ الگ ہے۔ وزیر اعظم پانچ مشیر رکھ سکتے ہیں۔ وزیر اعظم کو معلوم ہونا چاہئے تھا کہ صنعتکاروں کو اپنے ہی شعبے کے اوپر مشیر مقرر کرنے کے نتائج کیا نکلیں گے؟
Conflict of interests!! مفادات کا تصادم! مفادات کا ٹکرائو! یہ ہے وہ دیمک جو انصاف کو چاٹ جاتی ہے۔ اجتماعی غیر جانبداری کو گھُن کی طرح کھا جاتی ہے!
اس ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ انتخابات کے نتیجہ میں وہ لوگ ایوانوں میں پہنچتے ہیں جو استحصالی طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔ جنہیں 1857ء کی مکروہ خدمات کے صلے میں جاگیریں ملیں۔ وہ جاگیریں آج تک انہیں اقتدار دلوا رہی ہیں۔ کسی کے پردادا نے مجاہدین کو قتل کیا۔ کسی کے وڈے وڈیرے نے مخبری کی۔ زرعی اصلاحات ہو نہ سکیں۔ سرحد پار بھارت اس معاملے میں بازی لے گیا۔ تقسیم کے چار سال بعد انہوں نے آکاش بیلوں سے، طفیلیوں سے نجات حاصل کر لی! ہاں! یہ سچ ہے کہ آج بھارت کے منتخب ایوانوں میں غنڈے بیٹھے ہیں، مگر اس کا سبب اور ہے!
ایک ایسے ملک میں جہاں جھنگ سے لے کر ملتان تک، ہالہ سے لے کر خیرپور تک، گجرات سے لے کر رائے ونڈ تک، وراثتیں ہی وراثتیں ہوں، گدیاں ہی گدیاں ہوں، جہاں کھرب پتی صنعت کاروں کو منتخب ہونے سے کوئی نہ روک سکے، جہاں دولت اور نام نہاد ذہانت کا منبع اوجڑی کیمپ جیسے ''سانحے‘‘ ہوں، وہاں پارلیمانی طرزِ جمہوریت ایک عذاب سے کم نہیں! اس طرزِ حکومت کا کمال ہی یہ ہے کہ جن کی شوگر ایمپائرز ہیں وہی شوگر پالیسیاں بناتے ہیں۔ جن کی اپنی فیکٹریاں ملک سے باہر ہیں، وہی ملک کے اندر چلنے والی فیکٹریوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں! انتظامیہ اور مقننہ کے درمیان حدِ فاصل ہی کوئی نہیں، پوری انتظامیہ، بشمول سربراہِ حکومت، اس ایوان کے رحم و کرم پر ہوتی ہے جس میں نسل در نسل منتخب ہونے والی ایلیٹ بیٹھی ہے۔ انہی میں سے وزیر بننے ہیں۔ پالیسیاں بناتے وقت یہ وزیر وزرا، اپنی فیکٹریوں، اپنے کارخانوں، اپنی جاگیروں، اپنی ٹریڈنگ کو کیسے بھول سکتے ہیں؟ رہی سہی کسر ان مشیروں نے پوری کر دی جو مفادات کے اسیر ہیں! جن کی اپنی صنعتی سلطنتیں ہیں!
پاکستان جیسے ملک میں، جہاں انتخابات ان سیاسی جماعتوں کی مٹھی میں ہوں جو خاندانوں کی میراث ہیں‘ پارلیمانی طرزِ حکومت وہی گل کھلائے گا جو کھلا رہا ہے! کون سی سیاسی جماعتیں؟ کون سی جمہوریت؟ کون سا پارلیمانی نظام؟ بیس فیصد سے زیادہ خواندگی کی شرح نہیں! آبادی کا درست شمار ناممکن ہے۔ پیپلز پارٹی سے لے کر اے این پی تک، مسلم لیگ سے لے کر تحریک انصاف تک، جے یو آئی سے لے کر پختونخوا ملی عوامی پارٹی تک... ساری سیاست خاندانوں کے گرد گھومتی ہے یا افرادکے گرد! ایم کیو ایم نے مالکانہ آمریت سے چھٹکارا پا لیا مگر ملک کے ایک حصّے میں محدود ہے۔ جماعت اسلامی کے اندر ایک مخصوص طریقے سے انتخابات ضرور ہوتے ہیں مگر، بوجوہ، پارٹی مین سٹریم سے دور ہے اور ان پڑھوں اور پڑھے لکھوں میں یکساں اجنبی! وجوہ کیاہیں؟ یہ ایک لاحاصل بحث ہو گی کیونکہ دیگر مذہبی جماعتوں کی طرح ان حضرات کی طرف سے بھی جوابی کارروائی (Back Lash) ناقابلِ برداشت ہوتی ہے! اس لیے خیر اندیش بھی عزت بچانے کی خاطر چُپ رہتے ہیں اور مشورہ بازی کا خطرہ مول نہیں لیتے!
کسی کو یہ بات اچھی لگے یا بُری، پاکستان جیسے ملک میں صدارتی نظمِ حکومت ہی اُن اجارہ داریوں کا مقابلہ کر سکتا ہے جو معاشرے پر قابض ہیں۔ اگر کابینہ کا انتخاب، منتخب ارکان ہی سے کرنا ہے تو پھر کابینہ کی کمپوزیشن وہی ہو گی جو نظر آتی ہے۔ ایک سے ایک بڑھ کر ٹائیکون! مِل اونر! کارخانہ دار! جاگیردار! سردار! صدارتی نظمِ حکومت میں صدر مملکت کو یہ تو اختیار ہے کہ کسی غیر جانب دار، اعلیٰ تعلیم یافتہ، دردِ دل رکھنے والے کو کابینہ میں لے‘ جو مفادات کے تصادم کا شکار نہ ہو! امریکہ میں صدر، کابینہ کے لیے کسی کو چُنتا ہے تو اس کی تصدیق ایوان بالا کرتا ہے۔ خوش قسمتی سے پاکستان میں ایوانِ بالا کو صنعت کاروں، تاجروں اور جاگیرداروں سے بچایا جا سکتا ہے بشرطیکہ سیاسی جماعتیں، خاندانوں کی غلامی سے باہر آ جائیں!
کوئی ایک بدقسمتی ہو تو رونا بھی رویا جائے! جہاں وزیراعظم کو آزادی ہے کہ مشیر جسے چاہیں بنائیں، وہاں بھی طالع آزما نظر آتے ہیں۔ کل جسے بہترین حکمران کا سرٹیفکیٹ دے رہے تھے‘
آج اسی کے مخالف کی کابینہ میں بیٹھے ہیں! کل جو بھی حکمران ہوگا، اس کے گردوپیش میں بھی یہی افرادی قوت ہوئی تو روزِ نجات کی امید ہی نہ رکھیے! ایک مکروہ دائرہ ہے! ایک Vicious circle ہے جو ختم ہونے میں نہیں آ رہا! ایک دو نہیں پانچ چھ نہیں، بیس بیس، تیس تیس سالوں سے وہی چہرے نظر آ رہے ہیں۔ حکومتیں آئیں، تاریخ کی گرد بنیں، یہ چہرے، یہ خاندان، یہ کنبے، اسی طرح مسلط ہیں! انہی خاندانوں کی نئی نسل اب حکمرانی کے لیے پر تول رہی ہے! کچھ نام نہاد پارلیمنٹ میں تشریف لا بھی چکے! اثاثے اربوں سے اوپر ہیں! ابھی سے اربوں سے اوپر ہیں۔ ع
ابھی تو قرضِ مہ و سال بھی اتارا نہیں!
سنتے ہیں کہ اسی کرۂ ارض پر کچھ ولایتیں ہیں جن کے حکمران سائیکلوں پر آتے جاتے ہیں۔ ٹرینوں میں عام مسافروں کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔ سبزی، گوشت خریدنے ملکہ سے لے کر وزیراعظم تک خود دکانوں پر آتے ہیں۔ اپنے ناشتے، لنچ، ڈنر اپنے ہاتھوں سے پکاتے ہیں۔ سرکاری ضیافتوں میں چار پانچ سے زیادہ مہمان نہیں ہوتے۔ بیویوں کے لیے سیکنڈ ہینڈ کاریں خریدتے ہیں۔ ٹیکس ان کا ڈاکخانے کی کھڑکی پر کھڑے ہو کر اپنے ہاتھوں سے ادا کرتے ہیں، سرکاری گھر سے نکلنا ہو تو اپنا سامان خود پیک کرتے ہیں! اقتدار سے نکلنے کے بعد بس سٹاپوں پر نظر آتے ہیں! بیٹے کو بیماری کے سبب، ملازمت چھوڑنی پڑے تو اس کا گھر چلانے کے لیے مکان بیچنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
ایسے حکمران، ایسے ارکانِ کابینہ، ہمیں کب ملیں گے؟ کیا ہم اس لیے پیدا ہوئے ہیں کہ کھرب پتی ہم پر حکمرانی کریں؟