کسی ملک کی صورت حال سمجھنا ہو تو اسے ایک خاندان تصوّر کیجیے!
خاندان میں کوئی بیمار ہو جائے تو اصل ذمہ داری اس کے علاج و نگہداشت کی خاندان کے سربراہ پر پڑتی ہے۔ خاندان کے سربراہ پر یہی نہ واضح ہو کہ کس ڈاکٹر کے پاس لے جانا ہے‘ کس ہسپتال کا رخ کرنا ہے‘ ادویات کہاں سے لینی ہیں‘ پرہیز کیا کیا کرانی ہے‘ تو مریض کا‘ یوں سمجھیے اللہ ہی حافظ ہے!
جس قدر بھی اس ضمن میں غور کیا جائے‘ وفاقی حکومت کی کوئی پالیسی کہیں بھی واضح نہیں نظر آتی! اہم ترین فیصلہ یہ کرنا تھا کہ لاک ڈائون کیا جائے یا نہیں! کبھی یہ معاملہ صوبوں پر چھوڑ دیا گیا۔کبھی نیم دلی سے لاک ڈائون کرانے کی بات کی گئی‘ کبھی لاک ڈائون کے نقصانات کا ذکر کیا گیا۔ سب سے بڑی دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ دیہاڑی دار طبقہ کہاں سے کھائے گا؟ گویا دیہاڑی دار طبقے کو اُس موت کے منہ میں ڈال دیا جائے جو کوروناکے جلو میں چلی آ رہی ہے! بجائے اس کے کہ اس طبقے کو کورونا سے بچا کر‘ گھروں میں رکھا جائے اور خوراک وہاں پہنچائی جائے‘ اس طبقے کو مزدوری کے نام پر باہر بھیج دیا جائے۔ کورونا کا شکار ہوا تو دیہاڑی کا مسئلہ بھی ساتھ ہی حل ہو جائے گا!
تادمِ تحریر‘ پوری دنیا میں صرف ایک ملک‘ چین‘ نے اس وبا پر کنٹرول حاصل کیا ہے۔ اور صرف اور صرف لاک ڈائون سے حاصل کیا ہے۔ چین کا اندرونی نظام اس قدر سخت ہے کہ اگر حکومت لاک ڈائون کا حکم دے تو کسی فرد یا گروہ کی مجال نہیں کہ اس حکم کی خلاف ورزی کرے۔ اسے آمریت کہہ لیجیے یا نظم و ضبط‘ بہر طور‘ لاک ڈائون کے اصول پر پوری طرح عمل کیا گیا اوروبا کو کنٹرول کر لیا گیا۔ ہمارے ہاں وفاقی حکومت ابھی تک اس ضمن میں کوئی واضح پالیسی نہیں بنا سکی!
فرض کیجیے لاک ڈائون‘ کرفیو کے طفیل مکمل طور پر نافذ کر لیا جاتا ہے تو غریب طبقات کو خوراک پہنچانے کا سوال اٹھے گا! یہاں پر دوسری رکاوٹ سامنے آتی ہے اور وہ ہے مقامی حکومتوں کا نہ ہونا! دنیا میں جہاں جہاں بھی جمہوریت حقیقی معنوں میں موجود ہے‘ اس کی بنیاد لوکل گورنمنٹ کا نظام ہے۔ ہمارے ہاں اس کا وجود ہی نہیں! کئی بار عرض کیاجا چکا کہ صدر پرویز مشرف نے ضلعی حکومتیں قائم کر کے ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کے استعماری اداروں سے قوم کی جان چھڑائی تھی‘ مگر افسوس! صد افسوس! جمہوریت کے نام نہاد علم بردار آئے تو لاہور‘ پشاور‘ کوئٹہ اور کراچی کے تخت و تاج کو برقرار رکھنے کے لیے ضلعی حکومتوں کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ آج مقامی حکومتیں ہوتیں تو ضلع ناظم‘ تحصیل ناظم اور یونین کونسل کے سربراہ کو‘ ایک ایک محلّے‘ ایک ایک گھر کا علم ہوتا۔ وفاقی سطح پر اپوزیشن جماعتیں بھی سرگرمِ کار ہوتیں۔ آپس میں مقابلہ ہوتا۔ یوں زیریں طبقات کی نگہداشت کا مرحلہ سر ہو جاتا۔ ہوگا کوئی کوئی بیورو کریٹ ‘ کوئی کوئی ڈپٹی کمشنر‘ جو دل سوزی اور صدقِ دل سے یہ کام کرے مگر اکثریت اس طبقے میں اُن افراد کی ہے جو آرام دہ دفتروں سے نکلنے کی مشقت برداشت ہی نہیں کر سکتے! افسر شاہی کا مقامی حکومت سے سمجھوتہ ہو ہی نہیں سکتا! یہ سیاست دان ہے جو‘ ووٹوں کی لالچ میں ہی کیوں نہ ہو‘ ہر شخص ‘ ہر گھر‘ ہر خاندان‘ ہر کنبے تک پہنچتا ہے۔ آپ نے یہ خبر کئی بار پڑھی ہوگی کہ شاہ محمود قریشی موٹرسائیکل پر بیٹھ کر‘ گلیوں میں پھر رہے ہیں یا شیخ رشید‘ ایک ایک گھر کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔ مگر ایسی خبر کسی ڈی سی‘ کمشنر یا کسی اے سی کے حوالے سے کبھی نہیں پڑھی یا سنی ہوگی! اپنے ضلع کی بات کروں تو تحریک انصاف کے میجر(ر) طاہر صادق ہوں یا پیپلز پارٹی کے سلیم حیدر خان یا نون لیگ کے ملک سہیل‘ یہ سب حضرات ایک ایک قریے‘ ایک ایک بستی‘ ایک ایک گھر کو جانتے ہیں اور مصیبت کے وقت پہنچتے ہیں۔ میجر طاہر صادق جب تک ضلعی حکومت کے سربراہ رہے‘ ضلع کے اطراف و اکناف میں مسلسل سرگرداں رہے۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے آ کر‘ ضلعی حکومتوں کو ختم کر کے‘ اس ملک کو ایک سو سال پیچھے دھکیل دیا۔ موجودہ حکومت بھی اس ضمن میں کوئی مثبت قدم نہیں اٹھا رہی!
تیسری مصیبت یہ ہے کہ وفاق اور صوبوں میں کو آرڈی نیشن نہیں نظر آتی۔ سندھ حکومت ‘ وفاق سے نالاں ہے۔ بلوچستان اور کے پی میں کیا ہو رہا ہے‘ کچھ معلوم نہیں! صرف پنجاب اور وفاق کا باہمی رابطہ نظر آتا ہے۔ چوتھی مصیبت اس تیسری سے جڑی ہوئی ہے اور وہ ہے صوبوں کا آپس میں ربط و مساعدت کا مکمل فقدان! کتنے مریض کس صوبے سے نکل کر کس صوبے میں داخل ہو رہے ہیں‘ کسی کو کچھ معلوم نہیں! یہ کو آرڈی نیشن بھی وفاق کی چھتری تلے ہی ممکن تھی!
یہ تو حکومتوں کا کچا چٹھا تھا۔ عوام کی بات کی جائے تو جو پانچویں اور سب سے بڑی رکاوٹ ہے وہ مائنڈ سیٹ ہے۔ مائنڈ سیٹ دو حوالوں سے رکاوٹ ڈال رہا ہے۔ ایک ذہنیت وہ ہے جو کھلنڈری ہے۔ لا ابالی اور لاپروا ہے۔ غیر سنجیدہ ہے! 1965ء کی جنگ میں سنتے تھے کہ مورچوں میں پناہ لینے کے بجائے پاکستانی چھتوں پر چڑھ کر بھارتی اور اپنے ہوائی جہازوں کی ڈاگ فائٹ دیکھتے تھے۔ یہ رویہ جنگ کے دوران تو بہادری سے موسوم کیا جا سکتا ہے‘ مگر کورونا جیسی مہلک وبائوں کے دوران اسے غیر سنجیدگی اور مجرمانہ لاپروائی ہی کہا جا سکتا ہے! ہدایات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے‘ لاک ڈائون کی خلاف ورزی‘ غیر ضروری طور پر باہر نکلنا‘ بھیڑ سے اجتناب نہ کرنا‘ ہم لوگوں کا مجموعی طور پر‘ معمول ہے!
دوسرے حوالے سے مائنڈ سیٹ اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے! صرف مذہبی رہنما ہی نہیں‘ خود عوام بھی حکومت سے تعاون کرنے کو تیار نہیں! کراچی میں خاتون ایس ایچ او جس طرح زخمی ہوئی اور لیہ میں ایس ایچ او پر جس طرح چاقو سے وار کیے گئے ‘ لمحۂ فکریہ ہے۔ ایک مشہور و معروف مفتی صاحب کی وڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں وہ ساری صورت حال کو امریکہ کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں! ایک سروے کے مطابق‘ جو حال ہی میں کیا گیا ہے‘ 43 فیصد لوگ ہمارے ہاں سمجھتے ہیں کہ کورونا امریکہ اور اسرائیل کی سازش ہے! 68 فیصد کے نزدیک با جماعت نماز سے کورونا نہیں پھیل سکتا! 48 فیصد یہ ماننے کیلئے تیار نہیں کہ مصافحہ کرنا ان حالات میں خطرناک ہے۔بہت سے لوگ اس مسئلے کو کسی عقیدے یا فرقے کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔
ایک بزرگ ایک اینکر پرسن کو سمجھا رہے تھے کہ اگر عہدِ رسالتؐ میں بارش کی وجہ سے گھروں میں نماز پڑھنے کی ہدایت کی گئی تو اُس وقت گلیاں کچی تھیں‘ پرنالے برستے تھے۔ مسجد نبوی کا فرش کچا تھا۔ چھت گھاس پھونس کی تھی۔ آج وہ صورت حال نہیں۔ جب اینکر نے یہ دلیل دی کہ بہر طور مسجد میں نہ آنے اور گھر پر نماز پڑھنے کی مثال تو موجود ہے! مخصوص صورتِ حال میں جواز تو بنتا ہے ‘ تو اس دلیل کا حضرت کے پاس کوئی جواب نہ تھا!
ایسے بھی واقعات‘ خاصی تعداد میں ہوئے ہیں کہ مریض قرنطینوں سے فرار ہو گئے۔ کچھ مریض کہیں لے جائے جا رہے تھے‘ وہ ویگن سے باہر نکلے اور بھاگ گئے۔ سوشل میڈیا پر ایک صاحب کا لیکچر وائرل ہو رہا ہے۔ ان کے بارے میں لکھا ہے کہ کلونجی پر پی ایچ ڈی کی ہے! کہاں سے؟ کس یونیورسٹی سے کی ہے؟ کچھ معلوم نہیں‘ نہ کوئی پوچھنے والا ہے۔ غرض ہر شخص دکان کھول کر بیٹھا ہوا ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ گردے جب زیادہ خراب ہو جائیں تو ٹیسٹ کرنے کیلئے مریض کو 24 گھنٹے کا پیشاب جمع کرنے کا کہا جاتا ہے۔ بہت عرصہ پہلے ایک دوست ڈاکٹر نے بتایا کہ ایسے ایسے مریض بھی ہیں جو پیشاب بوتل میں کرنا بھول جاتے ہیں تو اس میں پانی ملا دیتے ہیں تا کہ لیبارٹری والے کو مقدار کم نہ محسوس ہو! انہیں یہ سمجھانا ممکن ہی نہیں کہ اس حرکت سے ان کا ٹیسٹ خراب ہو جائے گا۔
ایک حکومت‘ ایک قوم‘ کورونا سے تو لڑ سکتی ہے مگر جہالت‘ تعصّب اور صدیوں سے منجمد مائنڈ سیٹ سے نہیں لڑ سکتی!