امیرالمومنین عمر فاروقؓ سے ان کے رفقا کو اختلاف تھا!
مالِ غنیمت کی تقسیم کا طریقِ کار اللہ تعالیٰ نے اپنے کلامِ مقدس میں طے فرما دیا تھا۔ خُمس یعنی پانچواں حصہ بیت المال کے لیے اور باقی فاتحین میں تقسیم کرنے کے لیے، یہی ہو رہا تھا۔ یہاں تک کہ عراق اور شام کے دیار فتح ہو گئے اور ان ملکوں کی قابلِ کاشت زرخیز زمینیں مسلمانوں کے ہاتھ آئیں!
بادی النظر میں یہ زمینیں مالِ غنیمت ہی کا حصہ تھیں۔ ان میں سے بھی خُمس ریاست کے لیے یعنی بیت المال کے لیے الگ ہونا چاہیے تھا اور باقی مجاہدین میں تقسیم ہو جانی چاہیے تھیں! مگر امیرالمومنینؓ نے اس طے شدہ طریقے سے اختلاف کیا۔ یہ ان کا اجتہاد تھا۔ دلیل ان کی یہ تھی یہ پھر موروثی زمینیں ہو جائیں گی۔ آنے والے مسلمانوں کے لیے کچھ نہیں بچے گا۔ اگر زمینیں بانٹ دی جائیں اور کاشت کار مزارع یا غلام بن جائیں تو آمدنی کہاں سے آئے گی؟ ان کی رائے یہ تھی کہ یہ عجمی کاشت کاروں ہی کے قبضے میں رہیں۔ وہ لگان دیں جس سے حفاظتی چوکیوں، فوجی چھائونیوں اور تنخواہوں کے اخراجات پورے کیے جائیں! یقینا امیرالمومنین مسلمانوں پر جاگیردار مسلّط نہیں کرنا چاہتے تھے۔
بہت سینئر صحابیٔ رسول حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے شدید اعتراض کیا۔ ان کی دلیل سادہ تھی کہ یہ فاتحین نے جنگ کے نتیجے میں حاصل کی ہیں! مشکل صورتحال تھی۔ امیرالمومنین کے رفقا، صحابہ کرام اور فاتحین ان سے اختلاف کر رہے تھے۔ آپ کے خیال میں ریاستِ مدینہ کے حکمران نے اختلاف کرنے والوں کو ہم خیال بنانے کیلئے کیا کیا؟ کوئی ڈنر؟ کوئی مصالحتی کوشش؟ فنڈز دینے کا وعدہ؟ کوئی دھونس دھاندلی‘ کوئی پکڑ دھکڑ؟
نہیں! ریاستِ مدینہ میں ان مکروہ، ہوس بھرے، لالچ پر مشتمل ہتھکنڈوں کا سوال تھا نہ وجود! امیرالمومنین نے دلائل دیئے۔ ان کے دلائل سن کر امیرالمومنین حضرت علیؓ، امیرالمومنین حضرت عثمانؓ اور حضرت طلحہؓ نے ان کی رائے سے اتفاق کیا۔ مگر اختلاف اب بھی موجود تھا اور شدید تھا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ اپنی رائے پر قائم تھے اور مخالف نقطۂ نظر کی ترجمانی کر رہے تھے۔ امیرالمومنین نے مشورے کا دائرہ وسیع تر کیا۔ دس معززین اوس کے بلائے اور دس قبیلۂ خزرج کے۔ سب مل کر بیٹھے۔ بحث ہوئی۔ دلائل دیئے گئے۔ دلائل سنے گئے! یہاں تک کہ دس معززین سمیت اکثریت قائل ہو گئی اور آپ کو اختیار دے دیا کہ اپنی رائے کو نافذ کریں!!
یہ تھا طریقِ کار ریاستِ مدینہ میں! کوئی ڈنر نہ منت سماجت! نہ فنڈز دینے کا وعدہ! ریاستِ مدینہ کا حکمران یہ نہیں کہتا تھا کہ میرے حق میں رائے دو گے تو مالِ غنیمت سے زیادہ حصہ دوں گا! نہ ریاستِ مدینہ میں ایڈوائزری یا سپیشل اسسٹنٹ شپ کا معیار ذاتی دوستی تھی۔ وہاں کوئی بخاری تھا نہ چوہدری! تقویٰ معیار تھا اور یہ معیار تھا کہ سابقون الاولون کون ہیں۔ سب سے بڑے مشیر امیرالمومنین سیدنا علیؓ تھے۔ پھر اصحابِ بدر تھے اور وہ حضرات جن کی رفاقت رسالت مآبﷺ کے ساتھ زیادہ تھی!
مگر یہاں تو عالم ہی اور تھا۔ وہ سب کچھ کیا گیا جو ریاستِ مدینہ میں نہیں ہوتا تھا‘ حالانکہ زیادہ سے زیادہ کیا ہوتا! بجٹ پاس نہ ہوتا! حکومت گر جاتی! آپ یہ کہہ کر اقتدار چھوڑ دیتے کہ میں کسی کی منت سماجت کر سکتا ہوں نہ ایک ایک کی نشست پر جا کر فنڈز کا وعدہ کر سکتا ہوں! پھر آپ دیکھتے کہ خلقت کس طرح دیوانہ وار آپ کا ساتھ دیتی! جو اصولوں پر چلتے ہیں وہ ووٹ لینے کے لیے فنڈز کے وعدے نہیں کرتے۔ آج یہ ہوا ہے تو کل چھانگا مانگا کی تاریخ بھی دہرائی جائے گی۔
مان لیا نیت اچھی تھی! مگر وژن کیا تھا؟ ہوم ورک کہاں تھا؟ معلوم ہی نہ تھا کہ آئی ایم ایف سے جان نہیں چھوٹے گی۔ بلند بانگ دعوے!
جن کے ڈانڈے خود کشی سے جا ملتے تھے۔ آپ کو کوئی آئیڈیا ہی نہیں تھا کہ جن پر الزامات ہیں ان سے روپیہ واپس لینا ممکن ہی نہیں! دعویٰ یہ ہے کہ جہاں نوردی بہت کی ہے مگر اندازہ ہی نہ لگا پائے کہ بیرون ملک رہنے والے ہم وطن اشرفیوں سے بھری ہوئی تھیلیاں نہیں بھیجیں گے! سارے اندازے غلط نکلے۔ تمام دعوے اُتھلے! ع
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا
ترس آتا ہے اور ہنسی بھی پٹرولیم کے وفاقی وزیر پر! پٹرول کی قیمت میں اضافے کے بعد میڈیا بریفنگ کے لیے سامنے آئے تو سائے کی طرح ایک سپیشل اسسٹنٹ ساتھ تھے۔ کوئی سمجھائے کہ فُل ٹائم وفاقی وزیر کے ساتھ، اسی کام کے لیے سپیشل اسسٹنٹ کیوں ضروری ہے؟ کیا وفاقی وزیر، جو ماضی میں بھی کابینہ کا حصّہ رہے، تعلیم یافتہ بھی ہیں، اس کام کے اہل نہیں؟ ایسا تو ان ملکوں میں بھی نہیں ہوتا جن کے ہاں قدم قدم پر تیل کے کنویں ہیں اور پوری دنیا کو برآمد کر رہے ہیں؟ وزرا، مشیر، سپیشل اسسٹنٹ کل ملا کر نصف سنچری بنتے ہیں۔ خرچہ ملک کا آئی ایم ایف اٹھا رہا ہے۔ جی ڈی پی شرمناک حد تک نیچے ہے۔ برآمدات کی حالت سب کے سامنے ہے اور کابینہ کی تعداد پچاس! مگر کس سے پوچھا جائے؟ اوپر سے فخریہ دعویٰ ہے کہ ہماری حکومت کے سوا کوئی آپشن نہیں!! اللہ اللہ! خدائے واحد و قہار سے ڈرنے کا مقام ہے! اگر تاریخ سے یہ معمولی سبق بھی نہ سیکھا جا سکے کہ ناگزیر کوئی نہیں تو افسوس کے علاوہ کیا کیا جا سکتا ہے!!
حکومت میں آنے سے پہلے تحریک انصاف کے عوام کے ساتھ وعدے وعید اور جلسے جلوس اُس عرصۂ محبت کی طرح تھے جو عاشق اور محبوبہ شادی سے پہلے گزارتے ہیں۔ عشقیہ خطوط! چاند ستاروں اور باغوں بہاروں کی باتیں! شادی کے بعد آٹے دال کا بھائو معلوم ہوتا ہے۔ عاشق صاحب نے یہ تو سوچا ہی نہ تھا کہ محبوبہ روٹی بھی کھائے گی! لباس بھی پہنے گی‘ مکان کا بھی انتظام کرنا ہوگا۔ رومانس دھوئیں کی طرح ہوا میں تحلیل ہو جاتا ہے! اور عاشق پکار اٹھتا ہے؎
عشق جھوٹا تھا، لوگ سچے ہیں
ایک بیوی ہے، پانچ بچے ہیں
پسِ نوشت! تاحال، ہمارے دیہات، مجموعی طور پر، کورونا سے بچے ہوئے ہیں! عیدِ قربان پر ہر گائوں سے مویشی فروخت کرنے والے کسان شہروں کا رخ کریں گے۔ مویشی منڈیوں پر جس طرح خریداروں اور فروخت کرنے والوں کا ہجوم ہوتا ہے اور جس طرح باہمی اختلاط ہوتا ہے، اس کی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں! یہ صاف نظر آ رہا ہے کہ گائوں کے لوگ، شہروں سے کورونا لے کر واپس جائیں گے۔ احتیاط کا وہاں کوئی امکان نہیں! ایس او پیز کا کوئی تصور نہیں۔ آئسولیشن دیہات میں ناقابلِ تصور ہے۔ مصافحے اور معانقے ہونے ہی ہونے ہیں۔ ایک مریض بھی ایک گائوں میں آ گیا تو پورا گائوں اس مرض میں مبتلا ہو جائے گا۔ حکومت پر لازم ہے کہ نوشتۂ دیوار کو پڑھے اورپوری توجہ اس طرف مبذول کرے!
یہاں اس پریس کانفرنس کا ذکر ضروری ہے جو پریس کلب لاہور میں پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن، ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن اور پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے رہنمائوں نے مشترکہ طور پر کی ہے اور بتایا کہ ملک میں کورونا کیسز کی تعداد میں حقیقتاً کمی نہیں آئی بلکہ حکومت کی جانب سے ٹیسٹوں کی تعداد میں کمی کی وجہ سے مریضوں کی کم تعداد نظر آ رہی ہے۔ حکومت کے کل آبادی کے دو فیصد کے رینڈم ٹیسٹنگ کرانے تک اصل تعداد سامنے نہیں آئے گی۔ ان ڈاکٹروں نے یہ بھی کہا ہے کہ سمارٹ لاک ڈائون کا فائدہ نہیں! حکومت ایمرجنسی کا اعلان کرے۔ عالمی ادارۂ صحت کی ہدایت کے مطابق، کم از کم بڑے شہروں میں، دو ہفتوں کا مکمل لاک ڈائون کرے۔ ادویات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا نوٹس لینا بھی ضروری ہے۔ آکسیجن کے سلنڈروں کی قیمتیں بھی بڑھائی جا رہی ہیں۔