ایک افریقی کہانی‘ جو ہم اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کر رہے ہیں!
یہ لوئر مڈل کلاس بستی تھی۔ کچھ اہل حرفہ تھے۔ کچھ کسان۔ بیس تیس فیصد ان میں پڑھے لکھے تھے۔ سب کا گزر اوقات مناسب ہو جاتا تھا۔ مجموعی طور پر یہ باعزت لوگ تھے۔ سائیکل کی سواری عام تھی۔ کئی خوش بخت گاڑیوں کے بھی مالک تھے۔ کچھ کے پاس ذاتی تانگے تھے۔
چند میل کے فاصلے پر بنجاروں کی ایک آبادی تھی۔ ان کی خواتین گلی گلی پھر کر چھوہارے، چوڑیاں وغیرہ بیچتی تھیں۔ مرد نچلی سطح کی محنت مزدوری کرتے تھے۔ کچھ بکریاں چراتے۔ کچھ نے گھوڑے رکھے ہوئے تھے۔ تعلیم سے بے بہرہ ان لوگوں کے بچے آوارہ پھرتے یا ایک دوسرے سے ہاتھا پائی کرتے۔
اگر یہ کہا جائے کہ بنجاروں کی اس مفلوک الحال آبادی کا انحصار اُس لوئر مڈل کلاس بستی پر تھا‘ جس کا ذکر ہم نے ابتدا میں کیا ہے‘ تو مبالغہ نہ ہو گا۔ یہ اپنے تھیلے لاتے اور بستی کے لوگ ان تھیلوں کو آٹے سے بھر دیتے۔ پوٹلیوں میں گندم باندھ کر لے جاتے۔ بستی کے سکول میں بنجاروں کے بچے، جو پڑھنا چاہتے، مفت تعلیم حاصل کرتے؛ اگرچہ ان کے ماں باپ کو تعلیم میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ یہ جلد ہی بچوں کو سکول سے اٹھا لیتے اور کسی کام دھندے پر لگا دیتے۔ بنجاروں کے سردار کی عزت رکھنے کے لیے سب سے پہلی بائیسکل بھی بستی والوں ہی نے دی۔ یہ سائیکل اس وقت بڑی اہم تھی کیونکہ اس کی بدولت سردار سواری کا مالک ہو گیا تھا۔
خدا کا کرنا یہ ہوا کہ ایک غیر ملکی کمپنی آئی اور اس نے بنجاروں کے زیر تصرف جو زمین تھی اس کا سروے کیا۔ کمپنی والوں کو یقین نہیں آرہا تھا۔ ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ بنجاروں کی زمین کے نیچے قدرت نے معدنیات کے وسیع و عریض خزانے رکھے تھے۔ پیتل‘ تانبا‘ چاندی اور کہیں کہیں سونا بھی۔ کوئلے کے ذخائر بھی تھے۔ کمپنی نے سردار سے ٹھیکہ لے لیا۔ سروے‘ کھدائی اور فروخت کا سارا کام کمپنی کے ذمے تھا۔ اس کے عوض، سردار اور اس کے خاندان کو بہت فیاضانہ نرخ پر رائلٹی دی گئی۔ وارے نیارے ہو گئے۔ دولت کی ریل پیل ہو گئی۔ بکریوں کی جگہ موٹر سائیکل آ گئے۔ گھوڑوں کی جگہ ٹیکسیوں نے لے لی۔
بنجاروں کی قسمت کیا بدلی‘ رہن سہن بھی کہیں سے کہیں پہنچ گیا۔ پیوند زدہ جھگیوں کے بجائے پختہ مکان بننے لگے۔ سردار کے خاندان کے تو ہر رکن نے محل تعمیر کرا لیا۔ دروازوں پر گارڈز نے پوزیشن سنبھال لی۔ فراخ و کشادہ شاہراہیں تعمیر ہونے لگیں، خواتین زیورات سے لد گئیں۔ جلد ہی دوسری بستیوں سے گھریلو ملازم، ڈرائیور، مستری اور طبیب منگوائے جانے لگے۔
قدرت دنوں کو انسانوں کے بیچ پھیرتی ہے۔ وہی بستی جو بنجاروں کو آٹا اور غلہ دیتی تھی، جس نے ان کے سردار کو اس کی زندگی کی پہلی سواری بخشش میں دی تھی، جس کے سکول میں ان کے بچے خیراتی تعلیم پاتے تھے، جی ہاں وہی بستی اب معاملات میں بنجاروں کی دست نگر ہو گئی۔ بستی کی عورتیں اور مرد ان کے ہاں ملازمتیں کرتے۔ اب بنجارے پے ماسٹر تھے اور بستی والے ان کے تنخواہ دار۔ پیتل، تانبا اور دیگر معدنیات بستی والے انہی سے خریدتے۔
جب کبھی بنجاروں کا سردار بستی والوں کے ہاں آتا تو بستی والے اسے خوب پروٹوکول دیتے۔ اسے خوش اور مطمئن کرنے کی سعی کرتے۔ اس کا ماضی اور اس کی قسمت کا پھیر، سب کچھ، بستی والوں کے سامنے تھا مگر وہ بہر طور، اب اقتصادی حوالے سے بنجاروں کے محتاج تھے۔
زمانے کی گردش نے ایک چکر اور پورا کیا۔ وقت نے اپنی کتاب کا ایک اور ورق الٹا۔ حالات نے نیا رخ اختیار کیا۔ یہ نیا رخ، بستی کے لیے خوش کن نہ تھا بلکہ المناک تھا۔ بستی کے معززین اپنی نا اہلی اور نا لائقی کی وجہ سے بستی کو اقتصادی طور پر مستحکم نہ رکھ سکے۔ مالی حالت خستہ سے خستہ تر ہونے لگی۔ بستی کو قرضے لینے پڑے۔ تعلیم کا معیار گر گیا۔ کرپشن سکۂ رائج الوقت کی صورت اختیار کرنے لگی۔ ایسے میں بستی پوری طرح بنجاروں کی محتاج ہو گئی۔
اب بنجارے بستی میں آتے تو بستی والے ان کے سامنے غلاموں کی طرح دست بستہ کھڑے رہتے۔ بنجارے گھڑ سواری کرتے تو بستی والوں کے بچے لگام پکڑ کر آگے آگے چلتے۔ ان کی گاڑیاں صاف کرتے۔ عورتیں بنجاروں کے گھروں میں آیا اور باورچی کے طور پر کام کرتیں۔ پھر معاملہ اور آگے چلا گیا۔ بستی والے قرضوں کے نیچے دب چکے تھے۔ معدنیات خریدنے کے لیے رقم نہ تھی۔ بنجاروں نے معدنیات ادھار دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ کچھ نقدی بھی دی تاکہ ضروریات پوری ہو سکیں مگر اس کے بعد بنجارے گویا بستی کی تقدیر کے مالک ہو گئے۔ اب وہ سانس بھی آزادی سے لیتے تو بنجاروں کو برا لگتا۔ فلاں سے کیوں بات کی۔ کیا بات کی۔ فلاں قریے سے لوگ تمہارے ہاں کیوں آئے‘ تم فلاں سے تعلقات رکھ سکتے ہو مگر فلاں فلاں سے نہیں۔ ہمارے دشمن تمہارے دشمن ہوں گے۔ تم اب کسی معاملے میں آزاد پالیسی نہیں رکھ سکتے۔ دنیا کو تم نے ہماری نظر سے دیکھنا ہو گا‘ ہم دنیا کو جس نظر سے بھی دیکھیں ہماری مرضی۔ حالت یہ تھی کہ بنجارے بستی کے دشمنوں کے ساتھ مل کر محبت کے گیت گا رہے تھے۔ بستی والے دبی زبان سے شکایت کرتے تو بنجارے قرض کی واپسی کا مطالبہ شروع کر دیتے۔ کبھی دھمکی ملتی کہ بستی کی افرادی قوت جو ان کے ہاں ملازمتیں کر رہی تھی نوکریوں سے نکال دی جائے گی۔ بستی والے دل مسوس کر رہ جاتے مگر کر کچھ نہ سکتے۔ پھر وہی ہوا جو ہونا تھا۔ بقول شاعر
یوں بھی ہوتا ہے کہ آندھی کے مقابل چڑیا
اپنے پر تولتی ہے
اک بھڑکتے ہوئے شعلے پہ ٹپک جائے اگر
بوند بھی بولتی ہے
عوام تو تنگ آئے ہوئے ہی تھے۔ اب خواص نے بھی جھرجھری لی۔ بستی والے خم ٹھونک کر کھڑے ہو گئے۔ ایک اور قریے سے رقم ادھار لے کر بنجاروں کو واپس کی۔ اس کے بعد دوسری بستیوں سے روابط اپنی صوابدید کے مطابق بڑھائے۔ اپنے فیصلے خود کرنے شروع کر دیے۔ قدرت نے بھی مدد کی۔ جو معدنیات بنجاروں سے خریدی جاتی تھیں، وہ دوسری آبادیوں نے پیش کر دیں۔
بنجاروں کا سردار بستی والوں کی یہ انگڑائی کیسے برداشت کرتا۔ اس نے فرمان جاری کیا کہ بستی والوں کی افرادی قوت نکال باہر کی جائے۔ غصے سے اس کا چہرہ تمتما رہا تھا۔ وہ بھول گیا کہ یہی بستی والے اسے غلہ فراہم کرتے تھے۔ سائیکل تک انہی نے دے تھی۔ اسے فقط یہ پتہ تھا کہ معدنیات کی وجہ سے امیر وہ بہت ہو گیا ہے۔
دفتر کے دروازے پر دستک ہوئی۔ ایچ آر کا سربراہ سردار کے سامنے کھڑا تھا۔ حضور! افرادی قوت واپس نہیں بھیج سکتے۔
''کیوں‘‘ سردار نے گرج کر پوچھا۔
عالی جاہ! ہمارا پورا نظام بیٹھ جائے گا‘ آپ کے علم میں ہے کہ ہمارے لوگ کام جانتے ہیں نہ محنت کے عادی ہیں۔ ہمارے محکموں کے محکمے بستی کے لوگ چلا رہے ہیں۔ یہ محنتی اور لائق لوگ ہیں‘ حضور! ہمارا گزارہ ان کے بغیر نہیں ہو سکے گا‘ اور ایک اور پہلو جو جہاں پناہ! بہت حساس ہے۔ دفاع کے حوالے سے جب بھی ہم پر مشکل وقت پڑا بستی ہی کی افرادی قوت ہماری ڈھال بنی۔
سردار کے ہاتھ سے عصا نیچے گر پڑا تھا۔
یوں افریقی کہانی اپنے انجام کو پہنچی۔