ہمیں عینک بدلنا ہو گی

متحدہ عرب امارات ملک کے بجائے انسان ہوتا اور شعر اس کا شعار ہوتا تو ضرور کہتا؎
غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا
ہماراالمیہ یہ ہے کہ ہم ساری دنیا کو اپنی عینک سے دیکھتے ہیں۔عینک ہماری پرانی ہو چکی۔ کمانیاں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ ان کمانیوں پر جذبات کی دھجیاں لپیٹ رکھی ہیں۔ شیشوں کے نمبر کئی عشروں سے تبدیل نہیں ہوئے۔ ان فرسودہ نمبروں والے شیشوں سے ہمیں ہر شے دھندلی دکھائی دیتی ہے۔ پھر ستم بالائے ستم یہ کہ دونوں شیشوں کے نمبر ایک دوسرے سے بھی نہیں ملتے۔ کبھی ہم عینک کو نیچے سرکا کر‘ اُوپر سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی بڈھے بابوں کی طرح ایک شیشے کو ہتھیلی سے ڈھانپ کر ایک آنکھ سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یوں جو کچھ دنیا کو نظر آرہا ہوتا ہے ہم نہیں دیکھ پاتے۔ اور جو ‘ اپنی دانست میں ‘ ہم دیکھ رہے ہوتے ہیں ‘ اصل منظر سے مختلف ہوتا ہے۔ ہمیں پورا حق ہے کہ یو اے ای اور اسرائیل کے معاہدے کو اپنے نقطۂ نظر سے دیکھیں اور جانچیں مگر حقیقت پسندی کا تقاضا ہے کہ یو اے ای کے نقطۂ نظر سے بھی دیکھیں۔ اسی طرح ایران اور ترکی کے موقف بھی ‘ ان دونوں ملکوں کی عینک سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
ایرانی انقلاب سے پہلے بھی خلیج کے ملکوں اور ایران کے درمیان سرد جنگ موجود تھی۔ 1971ء میں جب برطانیہ بوریا بستر سمیٹ کر آبنائے ہرمز سے واپس جا رہا تھا تو ایران نے ابو موسیٰ ‘ طنب اکبر اور طنب اصغر کے جزائر پر قبضہ کر لیا۔ ان پر یو اے ای کا بھی دعویٰ تھا۔ دونوں ملکوں کے اپنے اپنے دلائل ہیں۔
ایرانی انقلاب کے بعد اس جغرافیائی جھگڑے میں نظریاتی پہلو بھی شامل ہو گیا اور سکیورٹی کا ایشو بھی۔ایران نے لگی لپٹی رکھے بغیر انقلاب کے آغاز ہی سے پوری دنیا پر واضح کر دیا تھا کہ وہ انقلاب کو برآمد کرے گا۔ خود امام خمینی نے کئی بار اس کا ذکر کیا۔ ان کے بعد بھی نمایاں ایرانی رہنماؤں نے انقلاب برآمد کرنے کا عندیہ ہمیشہ دیا۔ ہاشمی رفسنجانی نے جو اُس وقت مجلس کے سپیکر تھے23 ستمبر 1983 ء کو کہا '' ہمارا ایک مشن انقلاب کی بر آمد ہے۔اگر ہم نے انقلاب عراق کو برآمد کیا ہے تو یہ بالکل نارمل ہے ‘‘۔
ایران کی القدس فورس اسی سلسلے میں اپنے فرائض انجام دیتی ہے۔ اور حماس ‘ حزب اللہ ‘ حوثی قبائل اورشام و عراق کی ہم مسلک ملیشیا کی مدد کرتی ہے۔
جنرل قاسم سلیمانی نے اس ضمن میں نمایاں خدمات سرانجام دیں۔ وہ ایرانی عزائم کا برملا اظہار کیا کرتے تھے۔ انہوں نے واضح کیا تھا کہ انقلاب مشرقِ وسطیٰ سے آگے بڑھ کر شمالی افریقہ تک جائے گا۔ واضح رہے کہ شمالی افریقہ میں مصر‘ لیبیا‘ تیونس الجزائر اور مراکش واقع ہیں۔ 2008 ء میں جب جنرل ڈیوڈ پیٹریاس عراق میں امریکی افواج کا کمانڈر تھا تو جنرل سلیمانی نے اسے پیغام بھیجا کہ'' تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ میں جنرل قاسم سلیمانی‘عراق‘ لبنان ‘ غزہ اور افغانستان کے حوالے سے ایران کی پالیسیوں کو کنٹرول کرتا ہوں‘‘۔
عراق اور شام کی اندرونی خانہ جنگیوں میں ایران کی شمولیت اور کردار ڈھکا چھپا نہیں ہے نہ ہی ایرانی حکومت نے کبھی اس پر پردہ ڈالنے کی ضرورت محسوس کی۔ 2015 ء میں جنرل قاسم سلیمانی ماسکو گئے جس کے بعد شام میں ایرانی اور روسی اتحاد نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔
سچ یہ ہے کہ حوثی قبائل کی یورش اور شورش کے بعد عرب طاقتیں ایک لحاظ سے خوفزدہ اور ایک لحاظ سے چوکس ہو گئیں۔ عربوں کی مین لینڈ یعنی قلب میں بھی کئی واقعات مسلکی اقلیتوں کے حوالے سے رونما ہوئے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حالات نے یو اے ای کو اسرائیل کے ساتھ اس معاہدے کے لیے مجبور کیاہے تو اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں۔ عربوں کی دلیل یہ ہے کہ جو کچھ یمن میں ہوا وہ کل کسی اور عرب ملک میں بھی ہو سکتا ہے۔
ایران کے فیکٹر سے ہٹ کر ‘ دیگر عوامل پر غور کیا جائے تب بھی یو اے ای کے رویے یا اندازِ فکر کوسمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آنی چاہیے۔ یو اے ای کوئی مذہبی یا نظریاتی ریاست نہیں۔ یہ ایک سیکولر ملک ہے۔ سیکولر کا لفظ ہم یہاں کاسموپولیٹن کے معنی میں استعمال کر رہے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر مسلمان سے زیادہ ایک عرب ملک ہے۔ دنیا بھر کی قومیتیں یہاں کام بھی کر رہی ہیں اور رہ بھی رہی ہیں۔ دبئی میں ہر تیسرا فرد بھارت سے آیا ہوا ہے۔ فلسطینی کاز سے یو اے ای کی کوئی جذباتی یا نظریاتی وابستگی نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو یو اے ای کا رویہ بھارت سے اتنا قریبی نہ ہوتا۔ بھارت میں یو اے ای نے بھاری سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ تعلقات قریبی نہیں بلکہ انتہائی قریبی ہیں۔ ماضی قریب میں ایک بہت بڑے مندر کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ حالانکہ بھارت جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ کر رہا ہے اور جو قیامت کشمیریوں پر ڈھا رہا ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اسرائیل کے ساتھ جو معاہدہ ہوا ہے اسے اسی پس منظر میں دیکھئے تو سارا مسئلہ صاف اور واضح طور پر دکھائی دینے لگتا ہے۔
خاندانی بادشاہتوں کے نقطۂ نظر سے معاملے کا جائزہ لیں تب بھی یہ معاہدہ یو اے ای جیسے ملکوں کا فطری آپشن ہے۔ شاہ ایران کا عبرتناک انجام ان ملکوں کے لیے خطرے کی گھنٹی تھا۔ پھر عرب بہار نے مزید خطرات دکھائے۔ اسی پس منظر میں ان ملکوں نے مصر میں اخوان حکومت کے خاتمے کے لیے سرگرم کردار اداکیا۔ حزب اللہ ‘ حماس اور اخوان جیسے نان سٹیٹ ایکٹر ان ملکوں کے لیے نیک شگون نہیں۔اپنے مستقبل کو محفوظ کرنے اور خطرات سے بچانے کے لیے ایک فرد یا ریاست یا بادشاہت کسی حد تک بھی جا سکتی ہے۔ اسرائیل کے ساتھ ہاتھ ملانے سے ان ملکوں کو ایک طرف ایران کی انقلاب برآمد کرنے کی پالیسی کے خلاف مدد ملے گی دوسری طرف خطرے کی گھنٹی بجانے والے نان سٹیٹ ایکٹرز کے حوالے سے ایک مشترکہ پالیسی بنانے کا موقع ملے گا۔
صرف شرق ِاوسط ہی میں نہیں ‘ دنیا بھر میں سیاسی حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ہانگ کانگ کو دیکھ لیجیے۔ چین اس پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کر رہا ہے۔ امریکہ میں سیہ فام اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ترکی پر مسلط کیا ہوا سو سالہ ظالمانہ معاہدہ دن بدن اپنی موت سے قریب ہو رہا ہے اور مغرب اضطراب کی حالت میں انتظار کر رہا ہے کہ
دیکھیے اس بحر کی تہہ سے نکلتا ہے کیا
گنبدِ نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا
امریکہ میں ڈیمو کریٹک پارٹی نے جو بائیڈن کے ساتھ نائب صدر کے طور پر کمالہ حارث کو نامزد کیا ہے جس کی ماں بھارتی تامل اور باپ جمیکا کا سیہ فام تھا۔ ہر لحظہ رنگ بدلتی دنیا میں عرب اسرائیل قربت اچنبھے کا باعث نہیں ہونی چاہیے۔
خود عرب دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے چند برس پہلے اس کا تصور بھی محال تھا۔ قطر کو سائڈ لائن کر دیا گیا ہے۔ رد ِعمل میں اس کا جھکاؤ ترکی اور ایران کی طرف ہو رہا ہے۔ سعودی عرب میں معاشرتی تبدیلیاں تیزی سے رونما ہو رہی ہیں۔ خواتین گاڑیاں ڈرائیو کر رہی ہیں۔ ان پر عائد سفر کی پابندیاں نرم کر دی گئی ہیں۔ بر صغیر میں بنگلہ دیش اور پاکستان ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں۔ صراحی سے قطرہ قطرہ نئے واقعات ٹپک رہے ہیں۔ انہونی ہو رہی ہے۔ اقبال کہہ گئے ہیں۔ع
جو تھا‘ نہیں ہے‘ جو ہے ‘ نہ ہوگا ‘ یہی ہے اک حرفِ محرمانہ !

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں