دو سال

''ترقی سڑکوں اور پلوں کا نام نہیں‘‘
یہ عظیم اخلاقی سبق ہمیں دیا جاتا رہا؛ چنانچہ جب سبق دینے والوں کو اختیار ملا تو سڑکوں اور پلوں کے منصوبے روک دیے گئے۔ باقی ملک کی طرح وفاقی دارالحکومت میں بھی ہر پروجیکٹ پر فل سٹاپ لگ گیا۔ دو ایسے منصوبوں پر کام ہو رہا تھا جو نہ صرف دارالحکومت کے مکینوں کے لیے بلکہ پورے ملک کے ان لوگوں کے لیے بھی بے حد ضروری تھے جو دارالحکومت تک کا سفر کرتے ہیں۔ ایکسپریس وے جی ٹی روڈ کو اسلام آباد سے ملاتی ہے‘ اور قبل از تاریخ کا نمونہ پیش کرتی ہے۔ اس شکستہ عبرت ناک شاہراہ کی تہذیب اور تعمیر کے لیے گزشتہ حکومت نے دس ارب کی جو رقم مخصوص کی تھی، یہ واپس لے لی گئی۔ جہلم چکوال، گوجر خان سے لے کر روات تک اور پھر خود اس شاہراہ کے کناروں پر آباد لاکھوں افراد ہر روز ایک ناقابل بیان اذیت سے گزرتے ہیں۔ جھولیاں اٹھا اٹھا کر بد دعائیں دیتے ہیں۔ جنہوں نے ووٹ دیا تھا وہ اپنے آپ کو کوستے ہیں۔ شنوائی کوئی نہیں۔ چیف کمشنر صاحب کسی کا فون نہیں سنتے۔ متاثرہ فریادی پورٹل کو بھی آزما بیٹھے۔ معلوم ہوا سب مایا ہے۔
دوسرا نشانہ ایئر پورٹ کی میٹرو بس کا منصوبہ بنا۔ بیشتر حصہ بن چکا تھا۔ اسے جہاں تھا‘ جیسے تھا کی بنیاد پر روک دیا گیا۔
مان لیا ''ترقی سڑکوں اور پلوں کا نام نہیں‘‘ ترقی اقدار سے ہوتی ہے۔ اصولوں پر کاربند رہنے سے ہوتی ہے۔ اہلیت کی سرپرستی سے ہوتی ہے۔ میرٹ کی پذیرائی سے ہوتی ہے۔ کرپشن کے استیصال سے ہوتی ہے۔ ایفائے عہد اور صدق مقال ترقی کی بنیاد ہے۔ بجا فرمایا۔ یہی اصل ترقی ہے۔ یہ ہو جائے تو اقتصادی ترقی اس کا لازمی اور منطقی نتیجہ ہے۔ سیاسی استحکام بھی اسی کا ثمر ہے۔ مگر کیا یہ ہو رہا ہے؟
افسوس صد افسوس! ان میں سے کچھ بھی نہیں ہو رہا! جنہوں نے امیدیں باندھی تھیں، ووٹ دیے تھے، خواب دیکھے تھے، مباحثے اور جھگڑے کیے تھے، احباب اور اعزہ کو نا خوش کیا تھا وہ اب ندامت کے گرداب میں غوطے کھا رہے ہیں اور زبان حال سے بقول فراق یوں کہتے پائے جا رہے ہیں:
تو پھر کیا عشق دنیا میں کہیں کا بھی نہ رہ جائے
زمانے سے لڑائی مول لے، تجھ سے برا بھی ہو
سورج کی روشنی سے زیادہ صاف نظر آ رہا ہے کہ وعدے تار تار کئے گئے ہیں۔ جو کچھ کہا گیا اس کے عین الٹ کیا گیا۔ میرٹ کی بات لے لیجیے۔ میرٹ کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ روئے زمین پر کوئی ایسا شخص ہے جو یہ کہہ سکے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کا انتخاب میرٹ پر کیا گیا ہے یا یہ دعویٰ کر سکے کہ یہ تعیناتی اہلیت کی بنیاد پر ہوئی ہے؟؟ ہاں جنہیں کچھ مل رہا ہے کہ گن گائیں‘ وہ ضرور گائیں گے۔ ریاست مدینہ کا تذکرہ شب و روز ہوتا ہے۔ ریاست مدینہ کا تو بنیادی اصول ہی یہ تھا کہ امانتیں ان کے سپرد کرو جو اہل ہیں۔ظلم کی تعریف ہی یہ ہے کہ کسی شے کو وہاں رکھنا جو اس کی جگہ نہ ہو۔ یہ انتخاب‘ یہ تعیناتی ایک ایسا عمل ہے کہ جس کا جواز ڈھونڈنے کا تصور ہی مضحکہ خیز ہے۔
یہ کون سا میرٹ ہے کہ پنجاب میں ایک ''آرام دہ‘‘ اسامی خالی ہوتی ہے۔ وفاق میں ایک بیورو کریٹ کو ایک سال پہلے ریٹائر کر دیا جاتا ہے۔ اس ریٹائرمنٹ کی منظوری خود وزیر اعظم دیتے ہیں۔ پھر اسے فوراً پنجاب کی اس آرام دہ پوسٹ پر لگا دیا جاتا ہے تا کہ وہ وہاں چار سال تک افسری کر سکے۔ اسی سطح کے جو افسر انہی دنوں ریٹائر ہوئے کیا وہ اس قابل نہ تھے؟ کیا یہ میرٹ ہے؟ یا کسی کو فائدہ پہنچانے کی میرٹ کُش تدبیر؟ کوئی ہے جو جواز پیش کرے؟
کیا یہ قوم کی توہین نہیں کہ پہلے یہ کہا جائے کہ بجلی کے ہر بل میں پی ٹی وی کے لیے پینتیس روپے غلط کاٹے جا رہے ہیں۔ ''پاکستانیو! ہر مہینے آپ کے بل سے پی ٹی وی کے لیے، 35 روپے کٹتے ہیں اور ہر سال دس ارب روپیہ پی ٹی وی کو آپ دیتے ہیں۔ ہم دیتے ہیں۔ میں پی ٹی وی سے پوچھتا ہوں اور پی ٹی وی کا جو ایم ڈی ہے اس سے پوچھتا ہوں کہ آپ کو شرم نہیں آتی‘‘ تو پھر دو سال ہو گئے یہ ناروا بھتہ کیوں نہیں ختم کیا گیا؟
پوری قوم کو ٹی وی کے ذریعے وزیر اعظم خود، بنفس نفیس، بتاتے ہیں کہ پنجاب میں ناصر درانی کو لگایا جا رہا ہے تا کہ پولیس کو پوتر کیا جا سکے۔ ناصر درانی فائز ہوتے ہیں۔ ایک ہفتے کے بعد ہٹ جاتے ہیں یا ہٹا دیے جاتے ہیں۔ دو سال ہونے کو ہیں وزیر اعظم قوم کو نہیں بتا رہے کہ کیا ہوا؟ پنجاب میں پولیس ریفارمز ایک انچ کے ہزارویں حصے کے برابر بھی نہیں ہوئیں۔ تحصیل، کچہری، پٹوار خانے میں بھی رشوت اسی طرح لی جا رہی ہے جس طرح پہلے ادوار میں لی جاتی تھی۔
دوست نوازی کا پیڑ بھی اسی طرح کھڑا ہے۔ مضبوط تنے کے ساتھ۔ چھتری کی طرح سایہ فگن۔ پیدائش باہر کی۔ زندگی کی ساری برساتیں وہیں گزاریں۔ بینک بیلنس، جائیدادیں، گوشوارے، سب باہر۔ اب پاکستانی قوم کو یہ حضرات حکومت کی پالیسیاں بتاتے ہیں۔ ٹیلی ویژن چینلوں پر جلوہ فگن ہو کر حکومت کی نمائندگی کرتے ہیں! کس حیثیت میں؟
کیا ووٹوں سے یہ نمائندگی حاصل ہوئی ہے؟ نہیں! واحد سند جو دامن میں ہے دوستی ہے! قوی ہیکل اہم ادارے، عظیم الشان محکمے ان کی تحویل میں ہیں صرف اس لیے کہ شاہ کے مصاحب ہیں! کرونی ازم زندہ باد!!
بیورو کریسی منہ زور ہے بالکل اسی طرح جیسے تھی۔ آئے دن پردوں کے پیچھے سے چھن چھن کر خبریں باہر نکلتی ہیں کہ فلاں وزیر کے ساتھ تلخ کلامی ہوئی، فلاں کو لائن حاضر کیا گیا۔ اہلکار اور چوبدار مالک بنے ہوئے ہیں اور وہ جو انتخابات جیت کر آئے ہیں بے یار و مدد گار، خوار، پھر رہے ہیں۔ حافظ شیرازی نے کہا تھا کہ حمقا گلاب اور قند کا شربت پی رہے ہیں اور وہ جو دانا ہیں، ان کا گزر بسر خون جگر پر ہے۔ گھوڑوں سے گدھوں کا سا سلوک ہو رہا ہے۔ رہے گدھے تو مزے کر رہے ہیں۔ بقول حافظ، ان کی گردنوں میں سنہری پٹے ہیں۔
جس ہڑپ کی گئی دولت کا شور تھا اس کی ایک دمڑی بھی واپس خزانے میں نہیں آئی۔ گرانی آسمان کو چھو رہی ہے۔ پٹرول سے لے کر چینی تک ہر طرف آہ و بکا ہے۔ سبز پاسپورٹ کی رینکنگ آج بھی وہی ہے جو تھی۔ کرنسی پہلے سے زیادہ خوار و زبوں ہے۔ ایک ڈالر ایک سو اڑسٹھ روپے میں مل رہا ہے۔ فاعتبروا یا اولی الابصار !
قومی ایئر لائنز اور سٹیل ملز جیسے ہاتھی پہلے ہی کی طرح قومی خزانے کو چوس رہے ہیں۔ یونینوں نے ماضی ہی کی طرح اداروں کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ انہیں نجی شعبے میں لائے بغیر چارہ نہیں۔ ایسے جرأت مندانہ اقدامات کرنے والا کوئی آئے گا تو تبھی صورت احوال بدلے گی۔ قدیم ترین سرداری نظام کو، جو اس ملک میں پایا جاتا ہے ہاتھ وہی ڈالے گا جو کرونی ازم اور میرٹ کُشی کے بجائے بے غرضی کو اپنائے گا۔ اقبال نے کہا تھا:
می رسد مردی کہ زنجیر غلاماں بشکند
دیدہ ام از روزن دیوار زندان شما
میں تمہارے زنداں کی دیوار کے سوراخ سے دیکھ رہا ہوں کہ غلاموں کی زنجیر توڑنے والا آیا چاہتا ہے۔ قائد اعظم آئے اور ایسا ہی ہوا جیسا اقبال نے کہا تھا۔ ایک بار پھر کسی کے آنے کا انتظار کرنا ہو گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں