تارکین ِوطن اور موجودہ حکومت

نیویارک سے لے کر پرتھ اور سڈنی تک تارکینِ وطن دوستوں سے جب بھی بات ہو تی ہے یہی تاثر ملتا ہے کہ تارکینِ وطن کی بھاری اکثریت موجودہ حکومت کے حوالے سے ابھی تک پر امید ہے۔ وہ کوتاہیاں تسلیم کرتے ہیں مگر ان کا مؤقف وہی ہے جو وزیر اعظم کا ہے یعنی وقت دیجیے۔ صبر کیجیے۔ کچھ یہ دلیل دیتے ہیں کہ وزیر اعظم کی ٹیم کا قصور ہے۔ کچھ بدستور گزشتہ حکومتوں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ ایک دلیل یہ بھی ہے کہ کورونا کی وبا حملہ آور نہ ہوتی تو معاملات بہت بہتر ہو چکے ہوتے۔ سب سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس کالم نگار سمیت تمام لکھنے والے‘ تمام پڑھنے والے‘ بلکہ یوں کہیے کہ تمام پاکستانی‘تارکین وطن سے محبت کرتے ہیں ‘ ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں اور جغرافیائی دوری کے باوجود انہیں اپنے جسم کے حصے کی طرح محسوس کرتے ہیں۔ وہ جہاں بھی ہیں پاکستان کے سفیر ہیں۔ دامے‘ درمے ‘ سخنے‘ جس طرح بھی ممکن ہو پاکستان کا ساتھ دیتے ہیں۔اردو کی انہوں نے بستیاں بسائی ہوئی ہیں اور نامساعد حالات کے باوجود اپنی زبان اور اپنے کلچر کے ساتھ وابستہ رہنے کی پوری جدوجہد کر رہے ہیں۔ مگر یہ بھی زمینی حقیقت ہے کہ وہ پاکستان میں نہیں ‘ پاکستان سے باہر رہ رہے ہیں۔ وہ ساحل پر کھڑے ہیں۔ پاکستان کے اندر رہنے والے جس گرداب میں پھنسے ہیں ‘ جن طغیانیوں کا سامنا کر رہے ہیں اور جس المناک صورتحال سے دوچار ہیں اس کا صحیح ادراک ہزاروں میل دور رہ کر نہیں کیا سکتا۔ ٹیلی وژن دیکھ کر اور اخبارات کا مطالعہ کر کے جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ اصل صورت احوال کا عشر عشیر بھی نہیں۔
دوسرا مسئلہ ہمارے تارکینِ وطن کے ساتھ یہ ہے کہ ان کا معیار دہرا ہے۔ جن ملکوں کو انہوں نے اپنے مستقل قیام کے لیے پسند کیا اور اپنا نیا وطن بنایا وہاں چیزوں کو اور پیمانے سے ماپتے ہیں اور پاکستان کے حالات کو دوسرے پیمانے سے۔ یوں ان کا سٹینڈرڈ ایک نہیں بلکہ ڈبل ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ امریکہ‘ کینیڈا‘ آسٹریلیا‘ جاپان‘ برطانیہ‘ ہسپانیہ اور دوسرے جمہوری ممالک میں سیاسی پارٹیاں خاندانی تسلط سے سو فیصد آزاد ہیں۔ مگر انہی ملکوں میں رہنے والے جو حضرات (ن) لیگ‘ (ق) لیگ اور پیپلز پارٹی سے وابستہ ہیں انہیں ان پارٹیوں کے اندر رچی ہوئی خاندانی آمریت کبھی بری نہیں لگتی۔ یہ حضرات ان پارٹیوں کے خاندانی مالکوں کی جس طرح پذیرائی کرتے ہیں ‘ جس طرح مدد کرتے ہیں ‘اسے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ وہ کبھی ان مالکوں سے مطالبہ نہیں کرتے کہ اپنی پارٹیوں کے اندر انتخابات کرائیں اور نسل در نسل چلتی ہوئی موروثی لیڈر شپ کو خیرباد کہیں۔
کچھ ایسا ہی معاملہ اُن تارکینِ وطن کے ساتھ ہے جو تحریک انصاف کے حامی ہیں اور اس میں کیا شک ہے کہ تارکین وطن کی اکثریت موجودہ حکومت کی اب بھی حامی ہے۔ ایک تو حکومت کے اپنے لیڈر ‘ وزیر اور عمائدین ذہنی طورپر بدستور اسی مائنڈ سیٹ میں ہیں جس میں حکومت سنبھالنے سے پہلے تھے۔ وزیر اعظم کی تقریروں اور بیانات سے لگتا ہے کہ وہ اب بھی اپوزیشن ہی میں ہیں۔ دوسرے ان کے حامی تارکین وطن بھی شریفوں کی بد عنوانی کے علاوہ کوئی اور بات مشکل ہی سے کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی مالی بد عنوانیوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا‘ مگر یہ ہمارے پرابلم کا صرف ایک حصہ ہے۔ سارا زور اس پر لگانے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ اپروچ منفی ہے۔ مثبت اپروچ ہوتی تو ان بدعنوانیوں کا معاملہ عدالتوں اور نیب پر چھوڑ کر حکومت آگے بڑھ چکی ہوتی مگر حکومت وہیں اٹکی ہوئی ہے جہاں اقتدار سنبھالنے سے پہلے تھی۔
تارکینِ وطن میں سے ہر شخص چاہتا ہے اور صدق ِدل سے چاہتا ہے کہ پاکستان میں بھی وہی اندازِ حکومت ہو جو ان کے نئے ملکوں میں ہے۔ کیا وہ سوچ سکتے ہیں کہ بزدار جیسے صاحب ویسٹرن آسٹریلیا‘ یا نیو ساؤتھ ویلز یا انٹاریو کے وزیر اعلیٰ ہوں گے؟ کیا ان ملکوں میں یہ ممکن ہے کہ چینی راتوں رات پچاس روپے سے سو روپے کو جا لگے اور عوام کو صرف یہ بتایا جائے کہ برآمد کرنے کا فیصلہ جن اعداد و شمار کی بنیاد پر کیا گیا تھا وہ غلط ہیں‘ مگر غلط اعداد و شمار دینے والے یوں محفوظ ہوں جیسے بتیس دانتوں میں زبان ؟ کیا ان ملکوں میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ ہمیں گندم کی صورت حال کاپہلے معلوم ہی نہ تھا؟ کیا ان ملکوں میں بھی غیر منتخب خصوصی معاونوں کی تعداد درجنوں میں ہوتی ہے ؟ کیا ان ملکوں میں بھی پولیس کے سربراہ‘ چیف سیکرٹری‘ اور دیگر افسران ہر چند ہفتوں بعد بدل دیئے جاتے ہیں ؟ کیا ان ممالک میں بھی پولیس کے افسروں سے ایف آئی آر اسی طرح لکھوائی جاتی ہے ؟ کیا ان ملکوں میں بھی حکومت بدلتی ہے تو پچھلی حکومت کے شروع کیے ہوئے ترقیاتی کام ‘ جہاں ہیں جیسے ہیں ‘ کی بنیاد پر روک دیے جاتے ہیں ؟ کیا وہاں بھی بھاگے ہوئے شریفوں اور اسحاق ڈاروں کو واپس لانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے مگر بھاگے ہوئے جہانگیر ترینوں کا نام تک نہیں لیا جاتا؟ ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ پہلے بھی تو یہی کچھ ہورہا تھا۔ تو پھر اگر اب بھی یہی کچھ ہونا تھا تو تبدیلی کہاں گئی ؟
عمران خان صاحب اقتدار میں آنے سے پہلے ہر بات پر‘ ہر تقریر میں ‘ مغربی ملکوں کی مثالیں دیتے تھے۔مگر عملاً وہی کچھ کر رہے ہیں جو اِن کے پیشرو کرتے رہے۔ وہی پارلیمنٹ سے بالا بالا آرڈنینسوں کا اجرا‘ وہی حکومت میں دوستوں کی شمولیت‘ وہی مفادات کا تصادم(Conflict of Interest)۔کیا بائیس کروڑ لوگوں میں صحت کا معاون خصوصی بنانے کے لیے شوکت خانم ہسپتال کے سربراہ کے علاوہ کوئی شخص اس قابل نہ تھا؟ پہلے امیدوں اور آدرشوں کو آسمان پر لے جایا گیا اور اس کے بعد بوتلوں میں وہی پہلے والا پانی نئے لیبلوں کے ساتھ دے دیا گیا کہ پیو مرو اور پچھلوں کو گالی دو۔ واہ جناب واہ !
ہمیں تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ جو اپنے لیے پسند کرو وہی اپنے بھائی کے لیے پسند کرو۔ تارکینِ وطن خود تو جہاں رہتے ہیں وہاں شفافیت ہے‘ کابینہ منتخب افراد کی ہوتی ہے‘ وزرائے اعظم پارلیمنٹ میں ہر روز پیش ہوتے ہیں اور سوالوں کے جواب خود دیتے ہیں‘سیاسی پارٹیوں کے اندر انتخابات ہوتے ہیں۔ تو پھر یہ سب کچھ یہاں کیوں نہ ہو ؟ تارکینِ وطن کو چاہیے کہ اپنی پسندیدہ حکومت سے وعدے پورے کرنے کا مطالبہ کریں۔ کتنی للکار تھی وزیر اعظم کے لہجے میں جب حکومت میں آنے سے پہلے انہوں نے بجلی کے بلوں میں 35 روپے پی ٹی وی کا ''جگا ٹیکس‘‘ ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔ ذرا وہ وڈیو کلپ سنیے۔'' میں پی ٹی وی کے ایم ڈی سے پوچھتا ہوں کہ آپ کو شرم نہیں آتی ...‘‘۔
مگر ہوا کیا؟ اڑھائی سال ہونے کو ہیں یہ ایک معمولی سی تبدیلی بھی نہ لائی جا سکی۔ اپنا وعدہ‘ اپنی للکار‘ سب کچھ بھول گئے۔ کوئی ایک کام ہی انقلابی کر دیتے۔ پی آئی اے اور سٹیل مل کے سفید ہاتھیوں ہی کو پرائیویٹائز کر کے اربوں کھربوں کے مالی بوجھ سے قومی بجٹ کی جان چھڑا دیتے۔ ٹریفک ہی کو مہذب ملکوں کی طرح کر دیتے۔ کچہریوں میں جاری رشوت ہی کے خاتمے کے لیے کچھ کر دیتے۔ذرا مکان‘ جائداد‘ یا زرعی زمین کا انتقال رشوت کے بغیر کوئی مائی کا لال کرا دیکھے۔ یگانہ چنگیزی پھر یاد آگئے؎
شش جہت میں ہے ترے جلوۂ بے فیض کی دھوم
کان مجرم ہیں مگر آنکھ گنہگار نہیں

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں