گزشتہ دو اڑھائی برسوں کے درمیان آپ نے مافیا کا لفظ بار بار سنا ہو گا۔ موجودہ حکومت‘ غالباً دنیا کی پہلی اور شاید آخری حکومت ہے جو مافیاز کا قلع قمع کرنے کے بجائے اپنے عوام کے سامنے ہر آئے دن مافیا کا ذکر بے بسی کے ساتھ کرتی ہے اور اپنی شکست خوردگی کا احساس دلاتی ہے۔اس سے وہی لطیفہ نما واقعہ یاد آگیا جو ہو سکتا ہے آپ نے پہلے بھی سنا ہو۔ مغلوں کے عہدِ زوال میں ایک شہزادے کی پرورش حرم سرا میں ہو ئی تھی۔کنیزوں‘ شہزادیوں‘ خادماؤں اور بیگمات کے سوا کسی سے سابقہ ہی نہیں پڑا تھا۔ اسی ماحول میں عنفوانِ شباب کا مرحلہ آگیا۔ایک دن حرم سرا میں کہیں سے سانپ آگیا۔ سب عورتوں نے شور مچایا کہ '' کسی مرد کو بلاؤ‘‘۔ ان میں سب سے بلند آواز اسی شہزادے کی تھی!!عوام مافیا مافیا کا شور مچاتے ہیں تو حکومت ان سے بھی زیادہ مافیا مافیا کا شور کرتی ہے۔ مگر اب تک کسی مافیا کا انسداد نہیں کر سکی۔
چینی مافیا‘ آٹا مافیا‘ پٹرول مافیا‘پانی کا ٹینکر مافیا‘ دل میں ڈالے جانے والے سٹنٹس کا مافیا۔ زمین پر ناجائز قبضہ کرنے اور کرانے والوں کا مافیا‘ گاڑیوں کی چوری کا مافیا‘ اغوا برائے تاوان کا مافیا۔ٹمبر (جنگلات کی چوری کا) مافیا۔سمگلنگ مافیا‘ ہیومن ٹریفک مافیا‘ بوٹی مافیا‘ کچہریوں میں زمین اور جائداد کے انتقال پر رشوت کھانے والوں کا مافیا‘ اور نہ جانے اور کون کون سے مافیا‘ عوام کے جسموں سے گوشت کاٹ کاٹ کر کھا رہے ہیں اور خون چوس رہے ہیں۔ کوئی والی وارث نہیں جو بے بس پاکستانیوں کو ان مہیب آدم خوروں سے بچا سکے۔صرف اندرونی مافیا ہی نہیں‘ بیرونی کمپنیاں بھی پاکستانیوں کو دونوں ہاتھوں سے لُوٹ رہی ہیں۔ اگر پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے جسم میں ریڑھ کی ہڈی ہوتی تو حکومت سے پوچھتی کہ موبائل کمپنیاں ہر سال‘ پاکستانیوں کی جیبوں سے کتنے ارب کتنے کھرب روپے نکال کر‘ اپنے اپنے ملکوں کو بھیجتی ہیں؟ آج کا تو نہیں پتا‘ مگر کچھ عرصہ پہلے شرق اوسط کی ایک ایئر لائن کا یہ معمول تھا کہ پشاور کیلئے چھوٹا جہاز بھیجتی‘اور آدھے مسافروں کا سامان مشرق وسطیٰ ہی میں چھوڑ آتی جو کئی روز کے بعد مسافروں کو دھکے کھا کھا کر ملتا۔ کوئی عوام کا ضامن ہوتا تو ایئر لائن ایسی سفاکی کا سوچ بھی نہ سکتی۔ مگر ایئر لائنیں ہیں یا فون کمپنیاں‘ سب کو معلوم ہے کہ پاکستانی بے یار و مددگار ہیں۔ ان کے کپڑے اتاریں‘ جیبیں کاٹیں یا گردے اور انتڑیاں نکال کر تار پر لٹکا دیں‘ کسی کان پر جوں نہیں رینگے گی‘ کسی پیشانی پر بل نہیں پڑے گا اور عزتِ نفس کے تالاب میں گرنے والا کوئی کنکر ارتعاش نہیں پیدا کرے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ عزتِ نفس کا تالاب مدتیں ہوئیں‘ سوکھ چکا ہے۔ اب تو وہ تالاب کم اور عزتِ نفس کا گورستان زیادہ ہے۔
صرف اس ایک بات پر غور فرما کر دیکھیے کہ پوری مہذب دنیا میں ڈاکٹر حضرات‘ دوائیں‘ جنرک ناموں سے تجویز کرتے ہیں۔ مریض اپنی مرضی سے کسی بھی کمپنی کی‘ کسی بھی برانڈ کی‘ دوا خرید سکتا ہے۔ مگر پاکستان میں ڈاکٹر برانڈ ناموں سے ادویات تجویز کرتے ہیں تا کہ مخصوص کمپنیوں کی بنی ہوئی ادویات فروخت ہو سکیں۔ یہ کمپنیاں ڈاکٹروں کو '' خوش‘‘ کرنے کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کرتی ہیں۔ ہوائی سفر کے ٹکٹ‘ غیر ملکی دورے‘ نئی گاڑیاں اور نہ جانے کیا کیا۔ ایک مثال سے مسئلہ واضح ہو جائے گا۔ ذہنی دباؤ ( ڈپریشن ) کے لیے جو دوا تجویز کی جاتی ہے اس کا جنرک نام‘‘ ایسّائی ٹیلو پرام‘‘ ہے۔اب اس دوا کو کئی کمپنیاں بناتی ہیں۔ ہر کمپنی کی بنائی ہوئی دوا‘ اصل میں ''ایسائی ٹیلوپرام'' ہی ہو گی۔ مگر ہر کمپنی اپنی پہچان کے لیے نام الگ رکھے کی۔ یہ نام برانڈ نام کہلائے گا۔ ہر کمپنی مختلف قیمت رکھے گی۔یہ دوائی دس سے زیادہ کمپنیاں بنا رہی ہیں۔ سب مختلف نام رکھ رہی ہیں۔ فرض کیجیے کمپنیوں کے رکھے ہوئے نام ہیں۔ الف‘ بے‘ پے‘ جیم وغیرہ۔ یہ سب ایسائی ٹیلو پرام ہیں۔ دوسرے ملکوں میں ڈاکٹر مریض کو نسخے پر ایسائی ٹیلو پرام لکھ کر دے گا مگر پاکستان میں ڈاکٹر الف یا بے یا پے یا جیم لکھ کر دے گا کیونکہ اس نے کمپنی کو نوازنا ہے۔ ایک کمپنی کی گولی چھیاسٹھ روپے میں مل رہی ہے۔ ایک اور کمپنی یہی دوا بیس روپے فی گولی بیچ رہی ہے۔ ڈاکٹر مہنگی والی کمپنی کی دوا تجویز کرے گا کیونکہ کمپنی کے ساتھ مُک مُکا ہو چکا ہے۔ اگر حکومت عوام کی ہمدرد ہو تو وہ حکم جاری کر سکتی ہے کہ جنرک نام تجویز کیے جائیں تاکہ مریض اپنی مرضی کی کمپنی کی بنی ہوئی دوا لے سکے۔ مگر حکومت کو کیا پڑی ہے کہ عوام کے فائدے کے لیے یہ اقدام اُٹھائے۔ اسے تو کمپنیوں اور ڈاکٹروں کی رضا مطلوب ہے۔
موجودہ حکومت کے عہدِ ہمایونی میں‘ ایک اور مافیا‘ نئی گاڑیوں کا مافیا‘بھی عوام کے جسم سے بوٹیاں کاٹ کر‘ سیخوں میں پرو کر‘ آگ پر بھون کر تناول کر رہا ہے۔ آپ دنیا کے کسی بھی ملک میں چلے جائیں‘ قیمت ادا کریں اور شو روم سے گاڑی خرید لیں۔ مگر پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔ آپ رقم لے کر شو روم میں جائیں۔ آپ کو گاڑی نہیں‘ محض گاڑی کی بُکنگ ملے گی۔ آپ دس یا پندرہ لاکھ روپے جمع کرائیں۔ اس کے بعد مہینوں انتظار کیجیے۔ چار پانچ ماہ نہیں‘ آٹھ آٹھ‘ نو نو ماہ تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ آپ اتنا انتظار نہیں کر سکتے تو کسی ''سرمایہ کار‘‘ سے خرید لیجیے۔ وہ اسی وقت آپ کو گاڑی دے دے گا مگر اصل قیمت سے تین یا چار لاکھ روپے زیادہ۔ اس مکروہ دھندے کو Ownکہتے ہیں۔ یہ شو روم والے کا اور کار کمپنی کا متحدہ مافیا ہے۔کوئی بیرونِ ملک سے آیا ہے۔ انتظار نہیں کر سکتا‘ کسی نے بچوں کو سکول لے جانا اور واپس لانا ہے۔ ہزار وجوہ ہو سکتی ہیں۔ گاڑی فوراً درکار ہے مگر دستیاب نہیں ! دستیاب ہے بھی تو اس شرط پر کہ تین یا چار لاکھ روپے جگا ٹیکس دیں !
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ گاہک کے جسم سے گوشت کاٹنے کے اس مکروہ عمل کے دوران‘ حکومت کیا کر رہی ہے؟ تو جناب! حکومت خشخاش یعنی پوست پی کر سو رہی ہے۔ وفاق میں ایک وزارتِ صنعت ہے۔ اس میںوزیر کے نیچے گریڈ بائیس کا وفاقی سیکرٹری تعینات ہے۔ اس کے نیچے ایڈیشنل سیکرٹریوں‘ جوائنٹ سیکرٹریوں‘ ڈپٹی سیکرٹریوں‘ سیکشن افسروں اور انواع و اقسام کے اہلکاروں کی پوری فوج ظفر موج ہے۔ گاڑیاں ہیں یا خطیر کار الاؤنس‘ سرکاری ٹیلی فون ہیں‘ دورے ہیں اور رنگ رنگ کی مراعات اور الاؤنس ہیں‘ کروڑوں اربوں کے سالانہ اخراجات ہیں جو عوام اپنے خون پسینے کی کمائی سے ادا کر رہے ہیں‘ مگر اس وزارتِ صنعت سے اتنا نہیں ہوتا کہ کاریں بنانے والی صنعت کو اس مافیا گیری سے روکے اور حکم دے کہ متوقع ڈیمانڈ کا کم از کم ستر اسّی فیصد حصہ شو روم میں ہر وقت حاضر رکھے تا کہ گاہک آئے‘ قیمت ادا کرے اور گاڑی اسی وقت وصول کر لے اور سرمایہ کار یعنی شوروم مافیا‘ اون کے نام پر جگاٹیکس نہ وصول کرے۔اور اگر صنعت کے نجی شعبے نے کسی کنٹرول‘ کسی ریگولیشن‘ کسی چیک اور بیلنس کے بغیر‘ مافیا سے مل کر‘ صارفین کی کمائی کے ساتھ ہولی کھیلنی ہے تو قوم کو بتایا جائے کہ وزارتِ صنعت کا کیا فائدہ ہے ؟