حکومت کیسے کی جائے ؟
یہ ہے وہ سوال جس کا جواب حاصل کرنے کے لیے فلسفیوں‘ دانشوروں اور پنڈتوں نے عمریں صرف کیں۔ حکمرانوں نے فاضل اور عالم لوگوں کو اپنے ساتھ رکھا تاکہ ان سے کامیاب حکومت کے گُر سیکھیں۔ یونان کے ارسطو اور ٹیکسلا کے چانکیہ کوٹلیا سے لے کر فلارنس کے میکیاولی تک ہر مفکر نے اپنی طرف سے نصیحتیں کیں اور بتایا کہ حکومت کیسے کی جائے۔ عروضی ثمرقندی نے اپنا شہرہ آفاق '' چہار مقالہ‘‘ تصنیف کیا جس میں بادشاہوں کو سکھایا کہ دربار میں دبیر‘ منجم ‘ شاعر اور طبیب کون کون سے رکھے جائیں۔ سعدی نے گلستان اور جامی نے بہارستان میں بادشاہوں کو مشورے دیے اور الگ باب باندھے۔ کیکاؤس بن سکندر نے جو خود بادشاہ تھا ‘ اپنے فرزند کے لیے قابوس نامہ تحریر کیا۔اس میں جہاں بانی کے اصول بتائے۔وزیر کیسے چُنے جائیں؟ سپہ سالار کیسا ہونا چاہیے؟ تجارت کو کیسے فروغ دیا جائے ؟ غلام خریدتے وقت کون کون سے پہلو پیشِ نظر ہونے چاہئیں ؟ ان سب سولات کے جواب قابوس نامہ میں موجود ہیں۔ پھر نظام الملک طوسی نے سیاست نامہ لکھا اور کمال کردیا۔ مخبروں کے فرائض‘ عمال کا حساب‘ لشکریوں کے اثاثے‘ عجلت پسندی سے گریز‘ سرکاری خزانے کے ضوابط‘ عدل کا قیام‘ محاسبہ ‘ میزانیہ‘ غرض حکومت کے ہر پہلو اور ہر مسئلے پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔
مگر افسوس!
مرے کام کچھ نہ آیا یہ کمالِ نے نوازی
کسی حکیم‘ کسی فلسفی‘ کسی دانشور‘ کسی بزرجمہر‘ کسی پنڈت‘ کسی مفکر کی کوئی تھیوری کام نہ آئی۔ ہر بادشاہ کی قسمت میں عدم استحکام ہی آیا۔ بغاوتیں‘ شورشیں‘ بیماریاں‘ قحط‘ جنگیں‘ سب کوکاتبِ تقدیرسے یہی کچھ ملا۔یہاں تک کہ علم ِسیاسیات کا سویا ہوا مقدر جاگا اور انگریز نے ہمیں اور پوری دنیا کو حکومت کرنے کا نسخہ کیمیابتایا! 1857ء سے پہلے ‘ غور کیجیے‘ توبرطانوی ہند کے پیش منظر پر جنگیں ہی چھائی رہیں۔ کبھی پلاسی کا میدان‘ کبھی فرانسیسیوں سے مقابلہ‘ کبھی ٹیپو کے ساتھ لڑائی‘ کبھی مرہٹوں کا طوفان‘ کبھی سکھوں کے ساتھ معرکہ آرائی! کبھی اوَدھ تو کبھی روہیلے! مگر جنگِ آزادی کی ناکامی کے بعد جس سکون‘ ٹھہراؤ اور امن وامان کے ساتھ انگریز بہادر نے بادشاہت کی اس کا کیا ہی کہنا! کوئی بغاوت نہ فوج کشی! اس کے بعد ہی تو شیر اور بکری کے ایک گھاٹ پر پانی پینے کا محاورہ وجود میں آیا۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ جنگِ آزادی کے آس پاس انگریز سرکار نے ایسا کیا ایکشن لیا جس کے نتیجہ میں اسے مزے کی حکمرانی نصیب ہوئی؟ سو چئے اور دوبارہ سوچئے ! آپ ایک ہی نتیجے پر پہنچیں گے اور وہ ہے انتقام ! انتقام اور انتقام ! اس جنگ کے بعد‘ ہم جسے جنگ ِآزادی کہتے ہیں اور انگریز بغاوت‘ برطانوی سرکار نے انتقام کا ایسا ہولناک سلسلہ شروع کیا کہ باغیوں یعنی مجاہدین کی آنے والی نسلیں بھی اس انتقام کی بھینٹ چڑھ گئیں! انتقام کا یہ سلسلہ فاتح نے مفتوح بادشاہ سے آغاز کیا۔ پہلے تو شہزادوں کو قتل کیا۔ پھر ان کے سر کاٹے۔ پھر ٹرے میں رکھے۔ پھر انہیں خوبصورت کپڑے سے ڈھانکا۔ پھر یہ تحفہ بادشاہ کو پیش کیا۔ پھر بادشاہ اور اس کی عمر رسیدہ ملکہ کو رنگون جلا وطن کیا جہاں وہ ایک انگریز کیپٹن کے رحم و کرم پر رہے یہاں تک کہ موت نے انہیں اس بے یار و مدد گار زندگی سے رہائی دلوائی۔ دلی میں شاہی خاندان کے پس ماندگان کوڑی کوڑی کو محتاج کردیے گئے۔ شہزادیاں گھروں میں خادمائیں بننے پر مجبور ہو ئیں اور شہزادے چوراہوں پر بھیک مانگتے پائے گئے۔ خواجہ حسن نظامی نے اپنی تصانیف '' بیگمات کے آنسو ‘‘ اور ''غدر کے افسانے ‘‘ میں دل دہلا دینے والے واقعات نقل کئے ہیں۔ شاہی خاندان ہی پر بس نہیں کیا گیا‘ جس کا دور سے بھی مجاہدین سے کوئی تعلق ثابت ہوا‘ اسے سزا دی گئی۔ باغیوں کی حویلیوں اور جائیدادوں پر ہل چلوائے گئے۔دلی کے گرد و نواح میں کوئی درخت ایسا نہ تھا جس کی شاخوں کے ساتھ مردہ جسم نہ جھول رہے ہوں۔ ہزاروں کو کالے پانی بھیج دیا گیا۔ جنگ میں حصہ لینے والے مجاہدین کے خاندان ایک ایک نوالے کو ترسائے گئے۔دلی ماضی میں بھی کئی بار اجڑی تھی مگر اب کے ایسی اجڑی کہ بَین کرنے کے لیے بھی کوئی نہ بچا۔ہلاکو نے جو حشر بغداد کا کیا ‘ دہلی کا اس سے کم نہ کیا گیا۔ جاسوسوں کی ایک فوج ظفر موج تیار کی گئی جس نے چھپے ہوئے مجاہدین کا سراغ لگایا۔ کنیا کماری سے لے کر کشمیر تک اور تری پورہ سے لے کر جمرود تک چھپنے کی جگہ کوئی نہ رہی۔ بھائی بھائی سے اور پڑوسی پڑوسی سے خائف رہنے لگا۔ کچھ پتا نہیں چلتا تھا کہ مخلص کون ہے اور مخبر کون ؟
پس ثابت ہواکہ تاریخ کے اوراق پر نہ مٹنے والی روشنائی سے یہ سبق لکھ دیا گیا کہ میکیاولی سے لے کر چانکیہ تک کوئی دانشور اور قابوس نامہ سے لے کر سیاست نامۂ طوسی تک کو ئی ہدایت نامہ وہ تدبیر نہ بتا سکا جو انگریز سرکار نے دریافت کی اور آزمائی۔ اب سوال یہ ہے کہ آج کے حکمرانوں کو یہ سنہری اصول کون بتائے گا اور کون سکھائے گا؟المیہ یہ ہے کہ آج کے حکمران پرانے دانشوروں اور ان کی فرسودہ کتابوں میں گھسے ہوئے ہیں اور اس خیالِ خام میں ہیں کہ کامیاب حکومت کرنے کا راز پالیں گے۔ اگر اس کالم نگار کو یہ راز معلوم ہے تو اس پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ حکمرانوں کی رہنمائی کرے اور انہیں بتائے کہ کامیاب حکومت کی کلید صرف اور صرف انتقام ہے۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ دنیا میں اس وقت کم و بیش دو سوکے لگ بھگ ملک ہیں اور اتنے ہی حکمران! اور اس کالم نگار کی ایک جان! تو کس کس کو نصیحت کی جائے۔ یک انار و صد بیمار والا معاملہ ہے۔ اس کا حل یہ سوچا ہے کہ کرۂ ارض کے سب سے بڑے اور سب سے زیادہ طاقتور حکمران کو یہ گُر بتایا جائے اور سکھایا جائے۔ ظاہر ہے سب سے بڑا اور سب سے زیادہ طاقتور حکمران امریکہ کے سوا کون ہو سکتا ہے ؟
پس اے جو بائیڈن ! اے صدرِ ریاست ہائے متحدہ امریکہ ! سُنو اور اس فقیر کالم نگار کی یہ بات پلّے باندھ لو کہ انتقام ہی تمہاری حکومت کو دوام بخش سکتا ہے اور انتقام ہی تمہیں تاریخ میں سرخرو کر سکتا ہے ! فوراً ٹرمپ کے بینک بیلنس معلوم کراؤ پھر ایک ایک پیسے کی منی ٹریل اُگلواؤ۔ اس نے تمہارے مقابلے میں الیکشن لڑنے کی گستاخی کی تھی۔ اسے ‘ اس کے بھائیوں کو ‘ بیٹوں اور بیٹیوں کو‘ دامادوں اور بھانجوں بھتیجوں کو جیل میں ڈالو۔ ایک ضمانت پر باہر نکلے تو دوسرے کو پکڑ لو۔ یہ جو ٹرمپ کے پلازے ہیں‘ یہ جس زمین پر بنے ہیں ‘ اس زمین کے کاغذات آرکائیوز سے نکلواؤ۔ زمین کی خریداری مشکوک ہو گی۔ پھر اسی بنیاد پر اس کے پلازوں اور اس کے مکانات کو مسمار کر دینے کا حکم جاری کرو۔ اس کے ساتھیوں پر منشیات کے مقدمے قائم کرو۔ کچھ کو دہشت گردی کے جرم میں پکڑو۔ خاص طور پر ‘ ہر تقریر میں اس کے جرائم کا ذکر ضرور کرو۔ اپنے عمائدین اور وزرا کو ہدایت کرو کہ وہ بھی رات دن اس کے اور اس کے ساتھیوں کے خلاف بیانات دیں۔ یاد رکھو! انتقام اور صرف انتقام ہی حکومت کرنے کا بہترین فارمولا ہے۔ معیشت کا کیا حال ہے؟ امن و امان کیسا ہے ؟ عوام کے حقیقی مسائل کیا ہیں ؟ یہ سب باتیں فضول ہیں۔ بس مخالف کا جینا محال کر دو۔ اور ہاں ! اب اپنے دفتر کی دیوار سے میکیاولی اورچانکیہ کی تصویریں اتار پھینکو اور اس کالم نگار کی رنگین فوٹو آویزاں کرو!