بائیکاٹ

یہ1985ء تھا۔ دنیا کا مشہورترین مشروب( سافٹ ڈرنک) بنانے والی امریکی کمپنی نے مشروب بنانے کا فارمولا بدل ڈالا۔ مشروب کا ذائقہ تبدیل ہو گیا۔ لوگ پہلے والے ذائقے کے شوقین تھے۔ امریکی صارفین نے نئے مشروب کا بائیکاٹ کردیا۔ ہزاروں کے حساب سے کمپنی کو فون آنا شروع ہو گئے۔ ریستورانوں نے باقاعدہ بورڈ لگا لیے کہ '' یہاں اصلی یعنی پہلے والا مشروب پیش کیا جاتا ہے‘‘۔چند ماہ میں کمپنی کا دماغ درست ہو گیا اور اسے پہلے والا مشروب دوبارہ بازار میں لانا پڑا۔
اس سے پہلے‘1973ء میں امریکہ میں گوشت مہنگا ہو گیا۔ صارفین کی انجمنیں حرکت میں آگئیں۔ تحریک چلی کہ گوشت کا بائیکاٹ کیا جائے۔ اس تحریک میں عورتوں‘ بالخصوص خواتینِ خانہ نے نمایاں کردار ادا کیا کیونکہ گھر کے سودا سلف کی ذمہ داری ان کی تھی۔ ایک ہفتے میں گوشت سپلائی کرنے والوں اور فروخت کرنے والوں کے ہوش ٹھکانے آ گئے۔ یہ بائیکاٹ اس قدر کامیاب تھا کہ اُس وقت کے صدر ‘نکسن‘ کو مرغی اور چھوٹے بڑے گوشت کی قیمتیں فکس کرنا پڑیں۔
یہ صرف امریکہ یا یورپ کی بات نہیں‘ اپریل2018ء میں مراکش کے سوشل میڈیا پر تحریک شروع ہو گئی کہ تین بڑی کمپنیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے۔ یہ کمپنیاں سی این جی ‘ منرل واٹر اور ڈیری مصنوعات بناتی تھیں۔ اس بائیکاٹ کی دو وجوہ تھیں۔ ایک تو ان کمپنیوں نے قیمتوں میں ناروا اضافہ کیا تھا دوسرے ‘ یہ حکومت کے ساتھ شیر و شکر تھیں اور حکومت کو عوام پسند نہیں کرتے تھے۔ یہ بائیکاٹ کا سیاسی پہلو تھا۔ ایک فائدہ اس بائیکاٹ کا یہ تھا کہ احتجاج کرنے والوں کو تو ریاستی اداروں کے تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر بائیکاٹ کرنے والوں کا کچھ نہیں بگاڑا جا سکتا۔ مراکش کے عوام کی بھاری اکثریت نے اس بائیکاٹ میں حصہ لیا۔ نو جوان بھی کثیر تعداد میں شامل تھے۔ بائیکاٹ کئی مہینے جاری رہا۔ آخر کار کمپنیوں کو عوامی طاقت کے سامنے جھکنا پڑا۔اُسی سال ایک سعودی کمپنی نے دودھ کی قیمت میں اضافہ کیا تو سوشل میڈیا پر بائیکاٹ کی مہم شروع ہوئی۔ کمپنی نے قیمتوں میں اضافے کی کچھ تکنیکی وجوہ پیش کیں مگر سعودی صارفین کی محافظ تنظیم نے اس عذر ِلنگ کے پرخچے اڑا دیے۔ اس کمپنی کی ڈیری مصنوعات پورے شرقِ اوسط اور شمالی افریقہ میں استعمال کی جاتی ہیں۔ بائیکاٹ نے کمپنی کو بھاری نقصان پہنچایا۔ اس کا انڈیکس سکور 52 سے گھٹ کر 25 ہو گیا ‘ساتھ ہی وزارتِ تجارت نے بھی مداخلت کی اور کمپنی کو مجبور کیا کہ قیمتیں کم کرے۔
ان سب واقعات میں ایک قدرِ مشترک ہے۔ صارفین نے کوچہ و بازار میں جمع ہو کر احتجاج کیا نہ حکومت سے کوئی مطالبہ کیا ‘نہ ہی حکومت سے کوئی امید رکھی۔ عوام نے سوشل میڈیا کے ذریعے بائیکاٹ کی مہم چلائی اور کمپنیوں‘ صنعتکاروں اورتاجر وں کو جھکنے پر مجبور کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ پاکستانی عوام ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ ان کا سارا زور حکومت پر کیوں ہے؟ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر صبح و شام حکومت پر تنقید کی جاتی ہے۔متعلقہ وزیروں اور محکموں کو کوسا جاتا ہے۔ مافیا کا لفظ سن سن کر کان پک چکے ہیں مگر عوام خود ایک تنکا بھی توڑنے کے لیے تیار نہیں۔ ہماری مثال اُس کاہل شخص کی ہے جو شاہراہ کے کنارے سبزے پر لیٹا ہوا تھا۔ اس کے سینے پر ایک بیر پڑا تھا۔ ایک گھڑ سوار گزار تو اس نے اسے کہا کہ ذرا گھوڑے سے اُتر کر یہ بیر میرے منہ میں ڈالتے جاؤ۔ گھڑ سوار کو کیا پڑی تھی کہ اتنی تکلیف کرتا۔ تاہم لیٹے ہوئے شخص نے اس عدم تعاون کا بہت بُرا منایااور کمنٹ یہ دیا کہ '' کس قدر سست لوگ ہیں ‘‘۔ 2017ء میں پاکستانی سوشل میڈیا نے پھلوں کا بائیکاٹ صرف تین دن کرایا تھا اور قیمتیں چالیس سے پچاس فیصد تک کم ہو گئی تھیں حالانکہ یہ ہڑتال مکمل بھی نہ تھی۔اگر پورا ایک دن مکمل ‘ سو فیصدہڑتال کی جاتی تو نتائج مختلف ہوتے۔جب چینی پچپن سے اوپر گئی اور ایک سو بیس تک جا پہنچی تو اس کے بعد چینی خریدنے کی کیا تُک تھی؟ چلیے مان لیا کہ آٹے‘ گھی ‘ نمک‘ مرچ اور ادویات کا بائیکاٹ نہیں کیا جا سکتا مگر چینی کون سی لائف سیونگ دوائی ہے کہ اس کے بغیر زندگی خطرے میں پڑ جائے گی ؟ ابھی پچاس ساٹھ سال پہلے تک تو ہم گُڑ استعمال کرتے تھے۔ کسی کے ہاں شادی کی تقریب ہوتی تھی تو محلے والے پہلا سوال یہ پوچھتے تھے کہ '' کھانڈ پکائی ہے انہوں نے یا گُڑ ؟ ‘‘ ستّو کا مشروب شکر سے بنتا تھا‘ گھی میں شکر ڈالتے تھے اور روٹی کے ساتھ کھاتے تھے۔ کھیر کے اوپر بھی شکر بکھیری جاتی تھی۔ آج ہم کون سے شہزادے ہو گئے ہیں کہ چینی کے بغیر ہمارا نخرہ متاثر ہو گا اور گُڑ ہمارے نام نہاد سٹیٹس سے نیچے کا آئٹم ہے ؟ کیا چینی کا بائیکاٹ اور گُڑ کا استعمال اُس چیر پھاڑ سے بھی بُرا ہے جو شوگر مافیا ہماری جیب اور ہماری عزتِ نفس کے ساتھ کر رہا ہے؟ ایسا کون سا آئٹم ہے جوگُڑ سے نہیں پک سکتا؟ گُڑ والے چاول آج بھی ہم لوگوں کی مرغوب غذا ہے۔ گُڑ والی چائے میں تھوڑا سا نمک ڈال کر پییں تو مزے کا مشروب ہے۔ آدھے سے زیادہ آبادی گرمیوں میں آج بھی شکر اور تخم ملنگا کا شربت پیتی ہے۔کوئی حکومت‘ کوئی نیب‘ کوئی کمیشن‘ کوئی وعظ ‘ شوگر مافیا کو وہ سبق نہیں سکھا سکتا جو چند ہفتوں یا چند ماہ کا بائیکاٹ سکھا سکتا ہے۔لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔
پٹرول کا بائیکاٹ نہیں ہو سکتا مگر استعمال میں کمی تو لائی جا سکتی ہے۔ چند ماہ کے لیے اگر ہم میں سے ہر شخص ‘ آدھا نہ سہی‘ ایک تہائی‘ یا ایک چوتھائی ہی کم پٹرول خریدے اور گاڑی یا موٹر سائیکل صرف شدید ضرورت کے تحت چلائے تو پٹرول مافیا کو بھی راہِ راست پر لایا جا سکتا ہے۔ مرغی‘ بکرے اور گائے کے گوشت کا بھی یہی حال ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ مرغی کی روزانہ کی قیمت کا تعین جن خاندانوں کے ہاتھ میں ہے ان کی ہوسِ زر کی کوئی انتہا نہیں اور وہ انصاف سے کام لینے کے بجائے ناجائز منافع خوری پر تُلے ہیں مگر ہم بھی لُوٹے جانے کے لیے تیار ہیں‘ گوشت کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ہم کورونا سے مر سکتے ہیں مگر عید کی شاپنگ نہیں چھوڑ سکتے۔موت سروں پر منڈلا رہی ہے مگر ہم مُصر ہیں کہ اعزہ و اقارب اور دوست احباب شادی میں ضرور شرکت کریں اور شادی بھی وہ جس میں ساری رسمیں ادا کی جائیں۔ کسی ایک رسم کا چھوٹ جانا بھی ہمارے لیے قابلِ برداشت نہیں۔ اندازہ لگائیے شادی کی تقریبات اور غیر ضروری شاپنگ کی وجہ سے کتنے ہزار لوگ کورونا میں مبتلا ہوئے ہوں گے۔
ہم عوام کا رویّہ '' مٹی پاؤ‘‘ کا ہے۔اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے جدو جہد کا وقت آئے توہم '' چھوڑیے ‘ جانے دیجیے‘‘ کہہ کر اپنی راہ لیتے ہیں۔ ہم یہ نہیں پوچھتے کہ ہمیں کوڑے کیوں مارے جا رہے ہیں ؟ہاں یہ مطالبہ ضرور کرتے ہیں کہ کوڑے مارنے پر ایک کے بجائے دو افراد تعینات کیے جائیں تا کہ ہم جلد '' فارغ‘‘ ہو جائیں۔آگہی اور شعور کی شدید کمی ہے۔ ورنہ آج تاجر اپنی دکانوں پر یہ نہ لکھتے کہ خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہ ہو گا۔پوری مہذب دنیا میں ری فنڈ گاہک کابنیادی حق ہے۔پاکستان میں یہ لوگ ایک گھنٹے کے بعد شے واپس نہیں لیتے‘ اس لیے کہ انہیں معلوم ہے یہ پِسی ہوئی مخلوق ہے چُوں بھی نہیں کرے گی۔ بائیکاٹ تو دور کی بات ہے‘ ہم تو اتنے '' صلح جُو‘‘ ہیں کہ خریداری کی رسید تک نہیں مانگتے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں